ایک سال گذرنے کے باوجود ذمہ داروں کا تعین کیوں نہیں ہو سکا

0,,18916314_303,00
آرمی پبلک سکول پر حملہ کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے ۔ اس حملے میں 134 بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود ابھی تک حملہ آوروں کا پتہ نہیں چل سکا اور نہ ہی اس کے ذمہ دارن کا تعین ہو سکا ہے۔

حملہ کے بعد سیکیورٹی میں غفلت کا ذمہ دار پولیس کو ٹھہرایا گیا لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آرمی پبلک سکول کنٹونمنٹ میں واقع ہے اور آپریشن ضرب عضب کے پیش نظر اس کی تمام سیکیورٹی آرمی کے کنٹرول میں تھی۔لیکن حملہ آور اتنی سخت سیکیورٹی میں ہتھیاروں سمیت سکول میں کیسے داخل ہوئے؟ کیا حملہ آوروں کے سکول کے اندر بھی سہولت کار موجود تھے؟

سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی بھی اس حملے میں بچوں کو بچاتے ہوئے شہید ہوئیں۔ ان کے بیٹے احمد قاضی نے جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی والد ہ کو کافی عرصے سے سکول میں دہشت گردی کی دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں ۔اور ظاہر ہے پرنسپل نے انتظامیہ سے اس پر بات بھی کی لیکن اس کے باوجود انتہائی سیکیورٹی زون میں دہشت گردی کا واقعہ سیکیورٹی اداروں  کی کارگردگی کا پول کھولتا ہے۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے نے اپنے تبصر ہ میں کہا ہے کہ آرمی پبلک سکول پر حملے کے ایک سال بعد بھی متاثرہ بچوں کے والدین کے ذہنوں میں ابھی تک درجنوں ایسے سوالات گردش کر رہے ہیں، جن کا حکومت اور سکیورٹی اداروں سمیت کوئی بھی جواب دینے کے لیے تیار نہیں۔حکومت کی طرف سے زخمی بچوں کے لیے علاج کی سہولیات تو فراہم کی گئیں لیکن حملے کے ذمہ دار آج بھی حکومتی گرفت میں نہیں آ سکے اور یہ بات والدین کے لیے بھی تکلیف دہ ہے۔

گزشتہ ایک برس کے دوران حکومت نے ہلاک اور زخمی ہونے والے بچوں کے والدین کو مالی امداد کے ساتھ ساتھ علاج کی سہولیات بھی فراہم کیں لیکن زیادہ تر والدین ان اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔ان کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بناکر اس کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلا ف کارروائی کی جائے۔ متاثرہ والدین کا کہنا ہے کہ نہ تو حکومت اس واقعے میں ملوث دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکی۔

ڈوئچے ویلے نے شہید مبین شاہ کی والدہ سے بات کی جن کا کہنا تھا، ’’مبین شاہ آفرید ی میرا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس نیت سے آرمی پبلک سکول میں داخل کروایا کہ حساس علاقے میں موجود فوج کی نگرانی میں میرا بیٹا بھی محفوظ رہے گا لیکن دہشت گرد وہاں بھی پہنچ گئے اور میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لیا۔ اب بھی عقل تسلیم نہیں کرتی کہ اس قدر محفوظ علاقے میں چند لوگ کیسے داخل ہوئے اور کس طرح قتل عام کیا؟ ایک سال میں حکومت ہمیں یہ نہیں بتا سکی۔‘‘

حملے کے ایک سال مکمل ہونے پر آئی ایس پی آر کی طرف سے ملی نغمہ بھی ریلیز کیا گیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا ملی نغموں سے دہشت گرد ہتھیار ڈال دیں گے؟ یا عملی اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے؟آرمی پبلک سکول میں ہلاک ہونے والے معصوم بچے فوجی ایسٹیبلشمنٹ کی مہم جو پالیسیوں کی بھینٹ چڑھے ہیں ۔ اور اسے اس کا جواب دہ ہونا چاہیے ۔ کیا فوجی ایسٹیبشلمنٹ اپنی غلطیاں ماننے کو تیار ہے؟ اگر ابھی بھی آئیں بائیں شائیں سے کام لیا جارہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ انتہا پسندی کو ختم کرنے میں قطعاً سنجیدہ نہیں ہے۔

حکومتی اداروں کی اس ’سرد مہری‘ نے والدین کو مایوس کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کئی والدین نے اس دوران ’اے پی ایس کے شہدا‘ کے نام سے ہونے والی تمام سرکاری تقریبات سے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈوئچے ویلے نے جب اس سلسلے میں ’شہدا فورم‘ کے صدر فضل خان ایڈوکیٹ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’جن چار لوگوں کو سزا دی گئی، ہم اس سے مطمئن نہیں۔ یہ کون لوگ تھے ؟ براہ راست ملوث تھے یا سہولت کار تھے؟ ایف آئی آر میں کسی کو نامزد نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس میں مرنے والے بچوں کے نام یا تعداد بتائی گئی۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ حملہ آوروں کے بارے میں حکومتی موقف میں بھی تضاد ہے اور آج تک سکول کی سکیورٹی کے ذمہ داروں کا تعین بھی نہیں ہو سکا، ’’اس واقعے سے چند ماہ قبل سکیورٹی میں کمی کیوں کی گئی؟ سکول کی سکیورٹی کے ذمہ داروں سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی اور والدین کو ان تمام سوالات کے جواب چاہیں۔‘‘

اس واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں اور چشم دید گواہ ابھی تک اس بھیانک خواب سے نہیں نکل سکے۔ واقعے کے چشم دید گواہ طالب علم ذکریا اعجاز نے اپنے تاثرات کچھ اس طرح بیان کئے، ’’ہم معمول کی پڑھائی میں مصروف تھے کہ پرنسپل نے پیغام بھیجا کہ باہر نکلیں، ہم محفوظ ایریا میں تھے، فائرنگ کی آواز سنی اور ساتھ ہی دھماکے شروع ہو گئے۔ ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے لیکن چند گھنٹے بعد اپنے ساتھیوں کی لاشیں دیکھیں، میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ اس دن کالج میں سیکنڈ ایئر کا پرچہ تھا۔ زیادہ تر طلبا آڈیٹوریم میں تھے اور جب میں اپنے والد سے ملا اور پتہ چلا کہ میرا بھائی بھی اس میں شہید ہوا ہے تو پھر مجھے ہوش نہیں رہا۔‘‘

سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کے دوران ایک لاکھ پینتالیس ہزار مشکوک افراد کو حراست میں لیا گیا لیکن اپوزیشن آرمی پبلک سکول کے حملے کی تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومت پر ڈالتی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’کینٹ کے حساس علاقے میں رونما ہونے والے اس واقعے کی تمام تر ذمہ داری صوبائی اور وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے کے پاس وسائل کی کمی نہیں رہی لیکن اس کے باوجود صوبائی حکومت ڈیڑھ سو شہدا کے مطالبے پورے نہیں کر سکی اور نہ ہی انہیں بہتر علاج کی سہولت دی گئی۔ ہم شہدا کے والدین کے اس مطالبے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن بناکر انکوائری کی جائے اور اسی بنیاد پر ایف آئی آر درج کر کے ملوث افراد اور سہولت کاروں کو سزا دی جائے۔ ‘‘

Tags: , ,

2 Comments