قوموں کی عقل منداور بے وقوف میں تقسیم

qaziفرحت قاضی


امریکہ نے طالبان حکومت کے خاتمے کے لئے افغانستان پر حملہ کیا تو ان ہی دنوں یہ بھی مشہور ہوا کہ پاکستان کے سوئٹزر لینڈ سوات میں ایک شخص نے اپنے آباؤ اجدادکی پرانی تلوار اٹھائی اور نوجوانوں کے ساتھ اس خیال سے افغانستان روانہ ہوگیا کہ اس سے امریکی اور نیٹو افواج کا مقابلہ کرے گا۔

اگرچہ اس عمل سے اس کے مذہبی جذبات کی عکاسی ہوتی تھی مگراخباروں میں اس خبر کے چھپنے پر کئی افراد کو اپنی ہنسی ضبط کرنا مشکل ہوگیا تھا۔

مہاتما بدھ اور ان کی تعلیمات ایشیاء کا عظیم ذہنی اور فکری انقلاب تھا اس کے تصورات کو پذیرائی ملتی رہی پیروکاروں کی تعداد میں بھی روز افزوں اضافہ ہوتا رہا بدھ بھکشو ان کی تعلیمات کی ترویج اور اشاعت میں پیش پیش تھے بدھ کی تعلیمات نے زندگی کے تمام شعبوں کو بدل کر رکھ دیا تھا یہ نئے تصورات چونکہ بدھ بھکشو پھیلا رہے تھے تو اس لئے وہ بھی سماج میں قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے ہر کوئی ان کے لبوں سے ادا ہونے والے ایک ایک لفظ کو غور سے سنتا اور عمل بھی کرتا تھا۔

زندگی اور سماج کا پہیہ آگے چلتا رہا معاشی،سماجی،تہذیبی اور ثقافتی حالات میں رفتہ رفتہ تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں نیا طبقہ سامنے آیا تو مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہوا نئے حالات اور صورت حال نئے خیالات کے متقاضی تھے مگر بدھ بھکشو ان ہی تصورات کو حرف آخر سمجھ کر اس کی ترویج واشاعت میں ہمہ تن مصروف رہے مگر وہی عوام جو ان کو غور و فکر سے سنتے اور سر دھنتے تھے کنی کترانے لگے کیونکہ ان کو یہ تصورات اور تعلیمات بے معنی اورفرسودہ اوربدھ بھکشو نئے حالات سے نابلد اور بے خبر لگنے لگے تھے ان کوان کے ساتھ اٹھنابیٹھنا اور سننا وقت کا ضیاع لگتا تھا گو کہ وہ اب بھی ان کو بدھو کہتے تھے مگر اب اس نام میں عزت سے زیادہ طنز اور مذاق ہوتا تھا اور ہوتے ہوتے بدھو کا قابل احترام نام ناسمجھ،نادان، کم عقل ،بیوقوف،لاعلم اور دنیا سے بے خبر کے معنوں میں لیا جانے لگا۔

ایک گاؤں میں حکومت کی جانب سے جدید زرعی آلات تقسیم کئے جاتے ہیں آب پاشی،فصلوں کی بوائی اور کٹائی کے لئے نئی سہولیات فراہم کردی جاتی ہیں مگر ایک کاشتکار،زمیندار یا کنبہ ان کو محض اس لئے مسترد کردیتا ہے کہ اس کے آباواجداد؟ بیل اور ہل سے کھیتی باڑی کرتے تھے تو اس کے حوالے سے اہلیان علاقہ کے احساسات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

دیہی باشندے کے حوالے سے یہ مشہور ہوا کہ وہ پینڈو اور احمق ہوتا ہے دیہہ کا ایک باشندہ اپنی لمبی پگ اور پگڑی کے ساتھ شہر میں وارد ہوتا ہے وہ ہرہر چیز کو تعجب اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتا ہے اس کی بات چیت سے سادگی ٹپکتی ہے بے سروپا حرکتیں سرزد ہوتی ہیں تو شہریوں کی حس مزاح جاگ اٹھتی ہے اور ان کو مذاق سوجھتا ہے کچھ عرصہ کے بعد اسی دیہہ سے ایک اور دیہاتی اسی شہر جاتا ہے ویسی ہی گفتگو کرتااور اس سے احمقانہ حرکتیں سرزد ہوتی ہیں تو شہری اس نتیجے پر پہنچنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ پینڈو جاہل،سادہ اوراحمق ہوتا ہے اور اس سے الّو بنانا سہل و آسان ہے یہی نہیں یہی شہری ان کے بارے میں لکھنے بیٹھتا ہے تو وہ ان کے پس منظر پر کچھ لکھنے سے زیادہ ان کا مذاق اڑاتا ہے پینڈو کی بات چیت اور افعال لطائف بن جاتے ہیں۔

پینڈوؤں کے بارے میں صرف لطیفے ہی موجود نہیں ہیں بلکہ کہانیاں بھی لکھی جاچکی ہیں اور فلمیں بھی موجود ہیں انڈیا کی فلم اناڑی میں اس حقیقت کی بہترین عکاسی کی گئی ہے اس میں ہیرو کی شکل وشباہت اور بات چیت سے سادگی کا اظہار ہوتا ہے اس کی بے سر وپا اور احمقانہ حرکتیں اسے اناڑی اور بدھو بنادیتی ہیں اگرچہ اس کی گفتگو اور افعال دیہاتی اخلاق اور تہذیب کا نمونہ ہوتے ہیں مگر یہی چیز شہر میں سادگی اور حماقت میں بدل جاتے ہیں۔

اسی طرح ایک قوم کے افراد کسی شہر اور ملک جاتے ہیں اور ان کی بات چیت اور افعال سے سادگی اور حماقت ٹپکی پڑتی ہے تو ترقی یافتہ علاقہ کے افراد ان کا تمسخر اڑاتے ہیں ا ن کے حوالے سے لطائف گھڑتے ہیں یہ عموماً اس ترقی یافتہ قوم کی حس مزاح ہوتی ہے اس کے لکھاریوں اور فلم سازوں کو کچھ کہنے اور لکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔

امریکہ، یورپی ممالک اور قومیں اس وقت دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوتی ہیں چین، بھارت اور برازیل وہ ممالک ہیں جو شاہراہ ترقی پر تیزی سے گامزن ہیں جبکہ پاکستان،افغانستان اور ایران کے لئے ترقی پذیر ممالک کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جن حالات سے آج پاکستان اور ایشیاء کے دیگر ممالک دوچار ہیں کبھی یہی صورت حال یورپ کی بھی ہوا کرتی تھی اور جسے اب یورپی مورخین تاریک ادوار کے نام سے یاد کرتے ہیں اس حقیقت سے معلوم ہوتا ہے کہ قوموں کی ترقی اور تنزلی کے کچھ اصول و قواعد اور اسباب ہوتے ہیں جو قوم ان اصولوں کو اپنا لیتی ہے وہ شاہراہ ترقی پر قدم رکھ دیتی ہے اور جو ان سے منہ موڑ لیتی ہے زوال اور ذلت اس کا مقدر ٹھہرتا ہے یہاں سے قوموں کے عقل مند اور بے وقوف ہونے کا تصور پیدا ہوجاتا ہے۔

پس ماندہ قوم کے افراد کی بے سروپا حرکتوں اور گفتگو سے سادگی کا اظہار ہوتا ہے اور قریب قریب ہر فرد سے یہ ہوتا ہے تو ترقی یافتہ قوم کے افراد اس کو جاہل اور گنوار سمجھنے لگتے ہیں ان کو مذاق سوجھتا ہے لطیفے بناتے ہیں فلمیں بنتی ہیں اور یہ کوششیں کبھی ترقی یافتہ قوم کے افراد کی حس مزاح کو ظاہر کرتی ہیں اور کبھی یہ شعوری بھی ہوتی ہیں۔

بے وقو ف قوم کے زمرے میں عموماً وہ قوم آجاتی ہے جو ترقی کی دوڑ میں باقی اقوام سے پیچھے رہ جاتی ہے اس کے افراد زندگی کے تمام شعبہ جات میں پس ماندہ رہ جاتے ہیں ان میں تعلیم اور شعور کا فقدان ہوتا ہے وہ ترقی اور خوشحالی کے تمام اسباب ہونے کے باوجود احساس محرومیت کا شکار رہتے ہیں اپنے وسائل سے مستفید نہیں ہوتے ہیں ا ن کی ہمسایہ قومیں لطائف بناتے ہیں ڈراموں اور فلموں میں مذاق اڑاتے ہیں تو یہ کبھی کبھار شعور ی کوشش بھی ہوتی ہے اور اس کا مقصد ان میں کم تری کے احساسات پیدا کرنا ہوتا ہے جب ایک کنبہ اور قوم میں یہ احساسات اپنی جگہ بنالیتے ہیں تو وہ ذہنی طور پر کم سے کم تر اور نیچ سے نیچ تر عہدوں پر خدمات انجام دینے پر بھی راضی ہوجاتے ہیں۔

ہمارے روزمرہ مشاہدے میں آتا ہے کہ ایک مالک ملازم کو کبھی کبھار یاد دلاتا رہتا ہے کہ وہ تو اس کام اور معاوضہ کا ہرگز ہرگز مستحق نہیں ہے یہ تو مالک کی خدا ترسی اور دریا دلی ہے۔

کبھی کبھار اس مذاق کے پیچھے اس قوم کے ماضی کی تاریخ بھی ہوتی ہے ایک قوم کے افراد ہمسایہ قوموں اور ممالک پر حکومت کرچکے ہوں اور گو کہ وہ اب تاریخ اور ماضی کا ایک بھولا ہوا باب بن چکا ہوتا ہے اسی طرح اس کا سلوک بھی اب قصہ پارینہ ہوتا ہے مگر ماضی کی تاریخ انہیں یہ سبق دیتی اور خوف پیدا کرتی ہے کہ جو بادشاہ سے فقیر بن گیا ہے سازگار حالات کی دستیابی پر وہ پھر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا ہے چنانچہ خوف اور محکوم اور پس ماندہ قوم کے وسائل پر قبضے کا لالچ ترقی یافتہ قوم کو پس ماندہ قوم کی ایسی نفسیات بنانے پر مجبور کرتا ہے تاکہ یہ سر اٹھانے کا اہل نہ رہے چنانچہ ایسی صورت میں جب وہ اس قوم کے افراد کا مذاق اڑاتی اور اسے بحیثیت قوم کم تر درجہ دینے اور ذہنیت پیدا کرنے کی خواہاں ہوتی ہے تو پھر اس کمزورقوم کے افراد کے مثبت پہلو ؤں اور اعلیٰ شخصیات کو نظر انداز کردیتی ہے ان کے منفی پہلوؤں کو باربار اجاگر کرکے مذاق اڑاتی ہے اور غلامانہ نفسیات پیدا کرنے کی سعی کرتی ہے اس لئے پھر یہ حس مزاح نہیں بلکہ شعوری کوشش بن جاتی ہے۔

ہم یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ یہ غالب قوم کا احساس کم تری ہوتا ہے جو اسے دوسری قوموں میں کم تری کے احساسات پیدا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

ایک پس ماندہ قوم کے خلاف لطیفے بنانے، ان کو اپنے ڈراموں اور فلموں میں کم تر درجات پر ظاہر کرنے اور مذاق اڑانے کے جہاں منفی تو وہاں مثبت پہلوؤں سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے یہ تمام عمل ان کو خواب غفلت سے بیدار کرکے اپنا تنقیدی جائزہ لینے پر بھی مجبور کرتا ہے پس ماندہ قوم کے مورخ اور لکھاری اس موقع اور حالات کے تناظر میں اپنی قوم کے افراد کو احساس کم تری سے نکالنے کے لئے ماضی کی تاریخ کے اوراق الٹنے پلٹنے لگتے ہیں وہ ان کو یاد دلانے لگتے ہیں کہ وہ ماضی میں ترقی یافتہ قوم تھے اور جہد مسلسل کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر وہ شاہراہ ترقی پر گامزن ہوسکتے ہیں اس لئے تاریخ فقط جنگ و جدل کی تفصیلات کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں قوموں کی ترقی اور زوال کے اسباب، محرکات اور اسباق بھی ہوتے ہیں۔

ماضی کی تاریخ ایک پس ماندہ قوم کے افراد کو ترقی کے اصولوں سے ضرور روشناس کراتی ہے مگر اس کا بالادست طبقہ اسی تاریخ کو ان کی مزید پس ماندگی کی طرف لے جانے کی وجہ بھی بنادیتا ہے چنانچہ وہ اسے یاد دلاتا ہے کہ ماضی میں انہوں نے توپ و تفنگ کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا اس لئے ترقی کا یہی راستہ ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ نئے آلات پیداوار اور نئے تصورات اپنانے سے ہی ایک ملک اور قوم ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھتی ہے۔

امریکہ اور یورپ فی زمانہ ترقی کی معراج پر ہیں یہاں سائنسی ایجادات نے دیو ہیکل صنعتوں کی بنیاد رکھی تو خواتین کی نصف آبادی سمیت ہر طبقہ کو متحرک کیا گیا کھیت مزدور جاگیردار کی ذاتی ملکیت نہیں رہے میڈیکل،انجنئیرنگ،معاشیات،فلسفہ،منطق،فزیالوجی،حساب،ادب،فنون لطیفہ،عمرانیات اوربیالوجی نے روایتی اخلاقی کہانیوں کی جگہ لے لی صحافت اور آزادی اظہار کے مواقع پیدا کئے گئے تعلیم کو دربار اور معبد خانوں سے نکال کر گھر گھر پہنچایا گیا ہر انسان کو شہری مان کر اس کے انفرادی وجود اور حقوق تسلیم کئے گئے قانون، انصاف اور عدالتیں چند خاندانوں کی ملکیت نہیں رہے صنعت و کارخانہ نے ناخواندہ محنت کش کو تعلیم کی اہمیت اور افادیت کا احساس دلایا اس کی خفتہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا روایتی فلسفہ اور نظریات کو عقل اور سائنس کی کھسوٹی پر پرکھا جانے لگا تمام معاشرے کو متحرک کرنے سے ذہنی ومادی انقلابات کے آثار صاف نظر آنے لگے۔

شخصی بادشاہت کی جگہ سرمایہ دارانہ جمہوریت نے لے لی اور غیر سیاسی عوام کو سیاست کے اسرار و رموز سے واقف کراکے ان کو سیاسی بنادیا گیا ان میں ریاستی امور میں دل چسپی لینے کی خو اور عادت پیدا کی گئی القصہ خواص کے ساتھ ساتھ عوام کی صلاحیتوں سے بھی بھر پور استفادہ کیا جانے لگا چنانچہ رفتہ رفتہ مغرب خواب غفلت سے جاگ اٹھا مغرب اور یورپ میںیہ تبدیلی عصری تقاضوں کے باعث نمو پذیر ہوئی جبکہ اہل مشرق نے تاحال فرسودہ روایات،رواجات،تصورات ، تہذیب اورثقافت کو سینے سے لگا رکھا ہے یہ جدیدیت سے ہراساں ہے اپنی تنگ دنیا کو ہی کل کائنات سمجھتا ہے اور اس کے لب و لہجہ پر پدرم سلطان بود کا کلمہ ہے۔

پاکستان کے سیاق وسباق مغرب اور یورپ کے تاریک ادوار کی یاد دلاتے ہیں یہاں کے ترقی یافتہ طبقات اور قومیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے طبقات اور قوموں کا مذاق اڑاتے ہیں ان کے حوالے سے لطائف گھڑتے اور ان کو کمتر اور ادنیٰ ملازمتوں پر باربار دکھا کر ان میں کمتری کے احساسات پیدا کرکے انگریز راج کے دور کا سلوک کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس نوعیت کے اقدامات اور پرچار کے ملک اور خطے پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

Comments are closed.