احمد بشیر :کچھ یادیں کچھ باتیں

محمد شعیب عادل

0123698741

میری رائے میں اردو ادب میں جو مقام سعادت حسن منٹو کا ہے صحافت میں وہی مقام احمد بشیر کو حاصل ہے ۔ سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانوں میں جس خوبصورت طریقے سے سامراج، مُلا اور معاشرے کی منافقت سے پردہ اٹھایا ہے بعینہ یہی کچھ احمد بشیر کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ اردو میں ان کی تحریریں بہت کم ہیں کیونکہ اردوکاکوئی اخبار یا میگزین ان کی تحریریں چھاپنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔اس لیے ان کے مضامین انگریزی اخبارات ( ڈان اور فرنٹئیر پوسٹ ) میں شائع ہوتے تھے۔ انہوں نے صحافت کا آغاز روزنامہ امروز سے شروع کیا تھا وہ مولا نا چراغ حسن حسرت کے چہیتے شاگرد تھے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت آج حالات اتنے بہتر ہوگئے ہیں کہ کوئی خبر یا تجزیہ چھپا نہیں رہ سکتا ۔ جب مئی 2000 میں ماہنامہ ’’نیا زمانہ‘‘ کی اشاعت شروع ہوئی تو اس وقت اردو میں نیا زمانہ کے علاوہ کوئی ایسا فورم نہیں تھا جہاں کھل کر مذہبی انتہا پسندی، عسکریت پسندی اور مُلا ملٹری گٹھ جوڑ کو زیر بحث لایا جاتا ہو۔احمد بشیر نے سیاست، مذہب ، معیشت ، موسیقی اور کلچر پر کھل کر لکھا ۔ مُلا ، سرمایہ دار اور فیوڈل کی منافقت کو بھرپور طریقے سے بے نقاب کیا۔احمد بشیر کے نقطہ نظر سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے مگر جس بے رحم انداز سے نشتر زنی کرتے تھے اس سے اختلاف ممکن نہیں۔

یہ احمد بشیر کی ہی تحریریں تھیں جن کی وجہ سے’’ نیا زمانہ ‘‘ اپنے آغاز سے ہی مقبول ہوگیا۔ماہنامہ نیا زمانہ ، نے مئی 2000 میں لاہور سے اپنی اشاعت شروع کی تھی جو مسلسل چودہ سال اور دو ماہ تک جاری رہی۔ جون 2014کو مُلاؤں کے ایک گروپ کی طرف سے نیا زمانہ کے دفتر پر حملے کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اور پھر اگست2015 کو نیازمانہ کا واشنگٹن ڈی سی امریکہ سے آن لائن میگزین شروع کیا گیا ہے۔

سچ کیا ہے؟ حالات کا سائنسی تجزیہ کیسے کیا جاتا ہے؟ بالادست طبقے خبروں کو کس طرح توڑ موڑ کر شائع کرتے ہیں اور اس کے پیچھے اصل حقیقت کیا ہے ؟ وہ تفصیل سے ہمیں سمجھاتے۔ وہ کہتے جب بھی لکھو اس میں ’’مَیں‘‘ نہیں ہونی چاہیے اور اپنی ذات کی نفی کرکے حالات کا تجزیہ کرنا چاہیے ۔ انھوں نے کہا کہ آج ہر کالم نگار کا کالم مَیں سے شروع ہوتا ہے اور مَیں پر ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ کالم پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ کسی کے گردے فیل ہوگئے ہیں کسی کی آنکھیں خراب ہیں کسی کے پیر میں موچ آگئی ہے یا کوئی دل کے عارضے میں مبتلا ہے اور وزیر اعظم سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک ان کی خیریت پوچھ رہا ہوتا ہے۔

انہی دنوں وہ اپنی سوانح حیات ’’دل بھٹکے گا‘‘ لکھ رہے تھے اور ہم سے گفتگو میں اس کے کئی حصے ڈسکس کرتے۔ ہمیں اپنی بھرپور زندگی کے واقعات سناتے بمبئی میں کرشن چندر کے گھر رہے ، تقسیم کے وقت انھوں نے جو قتل و غارت دیکھی، چراغ حسن حسرت اور مولانا حسرت موہانی کے ساتھ گذرا وقت ، فلم کی تربیت کے لیے امریکہ جانا،اپنی آرٹ فلم نیلا پربت کا بنانا ، حفیظ جالندھری اور ابن انشاء کے ساتھ گذرا وقت، روزنامہ مساوات کا اجراء پھر سٹیٹ فلم اتھارٹی میں ملازمت اور ضیاء الحق کے سیاہ دور میں ان پر کیا گذری۔

یہ تمام واقعات وہ مزے لے لے کر سناتے اور کہتے کہ میری زندگی میں اب ایسی کوئی خواہش نہیں جو پوری نہ ہو گئی ہو۔ سٹیٹ فلم اتھارٹی میں ملازمت کے دوران انھوں نے صحرا پر ایک فلم بنائی۔ اس دوران انھوں نے سندھ کے دور افتادہ گاؤں میں ایسا خوفناک منظر دیکھا کہ وہ لرز گئے انھوں نے بتایا کہ بیل گاڑی میں ایک طرف بیل اور دوسری طرف عورت جتی ہوئی تھی اور یہ گاؤں والوں کے لیے معمولی بات تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ بلا شبہ ضیاء الحق کا دور پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور کہا جا سکتا ہے جب منافقت ،کرپشن اور ناجائز دولت کو معاشرے میں اسلام کے پردے میں پروان چڑھایا گیا۔آج ہم اسی کی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں۔یہ انتہائی جبر کا دور تھااور اردو اخبارات تو ایک طرف انگریزی اخبارات بھی احمد بشیر کے مضامین چھاپنے سے احتراز کرتے تھے۔ احمد بشیر نے نام بدل کر بلھے شاہ، احمد خان کھرل اور شاہ عنایت کے نام سے لکھنا شروع کردیا۔

مگر یہ سلسلہ بھی زیادہ دیر نہ چل سکا۔ کیونکہ ہمارے ہاں روایتی نکتہ نظر سے اختلاف رکھنے والوں کو برداشت کرنے کی روایت ہی نہیں ۔ احمد بشیر کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ ضیاء دور میں دائیں بازو کے کالم نگار ان پر تنقید کرنے کی بجائے گالی گلوچ اور دشنام طرازی کرتے رہے ۔ نوائے وقت کے ایک کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں لکھا کہ ’’ یہ کون کھوتے دا پترہے جو نام بدل بدل کر کالم لکھتا ہے‘‘۔

ایک بار عطا الحق قاسمی نے اپنے کالم میں کہیں لکھ دیا کہ میں ضیاء الحق کے سخت ترین نقاد میں شامل تھا جس پر احمد بشیر نے مسکراتے ہوئے کہا اب تو مجھے ضیاء الحق کے مخالفین کی صف میں جگہ ہی نہیں مل رہی کیونکہ ساری جگہ تو موصوف نے گھیر رکھی ہے۔جرنیل کتنے اندھے تھے جنھیں میں ہی نظر آتا تھا اور ہر جگہ سے نکالا جاتا رہاجبکہ موصوف نہ صرف سرکاری ملازم رہے بلکہ ان کا کالم بھی چھپتا رہااور ترقی کی منازل بھی طے کرتے رہے۔

پاکستان میں فنون لطیفہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے کہ ہمارے ہاں قراردادِ مقاصد کی منظوری کے بعد یہی سکھایا گیا کہ کتھک ناچ ، بھارت ناٹیم ،کتھا کلی یا منی پوری قسم کے ناچ حرام ہیں اس سے ہمارا اسلامی تشخص مجروح ہوتا ہے اور ہمارے اخلاق بکھرتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں مجرا جائز ہے چاہے وہ ہیرا منڈی میں ہو یا فلم میں ۔

احمد بشیر کا کہنا تھا کہ ہمارا کلچر فیوڈل ہے جس کا مطلب ہے کہ بغیر محنت کیے مال کھا یا جائے اور ضروری نہیں مفت خور صرف جاگیر دار ہو ہمارے ہاں افسر ہو یا چپراسی کام کرنے سے گریز کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے بیٹھے بٹھائے تنخواہ مل جائے۔مُلا، فیوڈ ل اور فوج لوٹ مار کا ذریعہ ہیں جن کا آپس میں گٹھ جوڑہے ۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں تبدیلی آئے تو دولت کی منصفانہ تقسیم کا نظام اپنانا ہو گا۔ اس کے لیے انقلاب ضروری ہے اور انقلاب کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ڈی کلاس کیا جائے۔ مگر ایسا کون کرے گا؟

وہ ایک محب وطن پاکستانی تھے، وہ کہتے کہ ہمیں یہ حقیقت قبول کر لینی چاہیے کہ جب ایک دفعہ پاکستان بن گیا ہے تو اس عمل کو واپس نہیں کیا جا سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نہرو اور گاندھی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بنا ہے وگرنہ قائد اعظم نے تو کیبنٹ مشن کی تجاویز منظور کر لی تھیں لیکن آخر وقت میں نہرو اور گاندھی مکر گئے۔ اس بات کی تصدیق قائد اعظم کے سوانح نگار ہیکٹر بولتھو نے بھی اپنے مضمون میں کی ہے ۔

گو احمد بشیر پکے مارکسسٹ تھے مگر کبھی کمیونسٹ پارٹی کے باقاعدہ رکن نہیں رہے تھے ۔ ہاں اس کے ہمدرد ضرور تھے اوراکثر پارٹی پر غیر جمہوری رویے اختیار کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے۔سوویت روس پر بھی وہ سخت تنقید کرتے، سوویت یونین کے زوال کے بعد پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک کے دم توڑنے پر کہتے کہ ہماری اصل غلطی یہ تھی کہ ہم سوویت یونین کا ماڈل پاکستانی سوسائٹی پر فٹ کر رہے تھے۔ وہ کہتے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک نیا مینی فیسٹو لکھا جائے جس کی روشنی میں جد وجہد کو آگے بڑھایا جا سکے۔

آج ہم میں احمد بشیر نہیں ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ سچ کی بالا دستی کون قائم رکھے گا ۔ حالات دن بدن بہتر ہونے کی بجائے خراب ہوتے جارہے ہیں ۔شاید ہم میں سے کسی میں بھی احمد بشیر جتنا حوصلہ نہیں کہ وہ سچ کے لیے زندگی کی آسائشیں قربان کرے۔

(25 دسمبر2015 کو احمد بشیر کی 11ویں برسی منائی گئی)

Comments are closed.