داعش نے افغانستان میں ریڈیو خلافت شروع کردیا

21554

دہشت گرد جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے افغانستان میں اپنے ظلم و بربریت کے سلسلے کی شروعات کر دی ہے۔ اِس بربریت سے گھبرا کر کئی افغان خاندان جلال آباد سے مہاجرت کر کے کیمپوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔

افغانستان میں نیٹو افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان ایف کیمبل کا کہنا ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے وفادار اب اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کی جدو جہد میں ہیں اور اپنے قبضے میں مزید علاقہ لا کر عراق اور شام میں قائم خود ساختہ خلافت کو وسعت دینے کی کوشش میں ہیں۔

کیمبل کے مطابق افغانستان میں یہ جہادی تنظیم خراسان کے نام سے صوبہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تا کہ اِس علاقے کے ایک قدیمی صوبے کا احیاء کیا جا سکے۔ اِس وقت ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو ننگر ہار کے چار اضلاع آچین، نزیان، باٹی کوٹ اور اسپن گار میں تقریباً مکمل کنٹرول حاصل ہو چکا ہے۔ امریکی جنرل کیمبل کے مطابق جہادی تنظیم افغان صوبے ننگر ہار کو اپنا گڑھ بنانے کی کوشش میں دکھائی دیتی ہے۔

شام اور عراق کے انداز میں افغانستان میں قدم جماتی ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے اپنا ایک ریڈیو بھی قائم کر لیا ہے اور اِس پر جہادی روزانہ ایک گھنٹے کی نشریات پیش کرتے ہیں۔ اِس کوشش سے وہ نوجوان افغانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اِس ریڈیو کا نام ’ریڈیو خلافت‘ رکھا گیا ہے۔

ایسا خیال کیا گیا ہے کہ جس انداز میں افغانستان میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، وہ نوجوانوں میں مایوسی کا سبب بن رہی ہے اور اِس لاچارگی کے وقت میں وہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی چھتری تلے پناہ لے سکتے ہیں۔ افغانستان میں بیروزگاری کی شرح چوبیس فیصد سے زائد ہے۔

ننگر ہار کے مشرقی حصے میں رواں برس اگست کے مہینے میں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے باردوی سرنگ کے دھماکے میں دس افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اِس ہولناک واقعے کی ویڈیو بھی انٹرنیٹ پر نشر کی گئی تھی۔

ہلاک شدگان میں افغان شہر رحمن ولی کا چھوٹا بھائی رحمان گُل بھی تھا، جو ایک مسجد میں امام تھا۔ اُس کا قصور یہ تھا کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے سلفی عقیدے سے دور تھا۔ اِس ویڈیو کے ذریعے رحمان ولی کو اپنے بھائی کی ہلاکت بارے معلوم ہوا تھا۔ اُس کو دوچار ہفتے قبل اغوا کر لیا گیا تھا۔ اب ولی اور اُس کا سارا خاندان دیہات سے فرار ہو کر جلال آباد کے کیمپوں میں مقیم ہے۔

ننگر ہار کے چار اضلاع سے مہاجرت کرنے والے افراد کے مطابق اِن علاقوں پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ظلم و جبر کا خوف چھایا ہوا ہے۔ یہ مسلح افراد بھتہ خوری، جبری بیدخلی، اغوا اور زبردستی کی سزاؤں کے ساتھ ساتھ نوعمر لڑکیوں کے ساتھ جبری شادیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب کابل حکومت کو ملک کے مختلف حصوں میں طالبان کی بڑھتی مسلح سرگرمیوں کا سامنا ہے۔ اُس نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو ایک طرح سے طالبان کے لیے چھوڑ رکھا ہے کہ دونوں عسکریت پسند گروپ اپنے اختلافات کو اپنی مسلح چپقلش سے ختم کریں۔ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ افغان خفیہ ادارے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے شدت پسندوں کی کارروائیوں پر نگاہ مسلسل رکھے ہوئے ہیں۔

DW

Comments are closed.