وزیر اعظم نریندرہ مودی کا دورہ لاہور

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹر حمید باشانی

یہ امن کی سمت ایک قدم ہے۔کوئی امن پسند شخص اس کی مخالفت نہیں کرسکتا۔بر صغیر کی سیاست کے تناظر میں امن پسند کون ہے ؟ اور جنگ باز کون ؟ اگرچہ یہ ایک پیچیدہ سوال ضرور ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ اس کا کوئی آسان جواب نہ دیا جا سکے۔

مسئلہ یہ ہے کہ بر صغیر کی بیشتر سیاسی قوتیں امن و جنگ کے سوال پر کوئی مستقل موقف نہیں رکھتیں۔اس کے بر عکس اس سوال پر ان کا نقطہ نظر وقت اور حالات کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔وزیر اعظم نریندرہ مودی کا اچانک دورہ لاہور اس کیفیت کی درست عکاسی کرتا ہے۔اس پر ہونے والا رد عمل بذات خود اس سوال کا جواب بھی فراہم کرتا ہے۔امن و جنگ کے سوال پر عموماً پاکستان میں اسلامی بنیاد پرستوں اور بھارت میں ہندو شدت پسندوں کا موقف بڑی حد تک یکساں ہوتا ہے۔

یہ لوگ امن کی بات صرف اپنی خواہشات اور شرائظ کے تحت ہی قبول کرتے ہیں۔ورنہ یہ امن کی جگہ جنگ یا کم ازکم خوف کے توازن کو ترجیح دیتے ہیں۔بھارت میں اب کی بار ہندو بنیاد پرست مودی جی کے اس دورے کی مخالفت سے تو رہے۔اس کے برعکس اس دفعہ یہ بیڑا کانگرس کے کچھ حلقوں اور ان کی یوتھ ونگ نے اٹھایا۔ یہ اس خیال کی تصدیق ہے کہ بر صغیر کی سیاسی جماعتیں ایشوز کی سیاست پر زندہ ہیں۔اور بسا اوقات مخالفت برائے مخالفت ہی ان کی سیاست ہے۔

چنانچہ کانگرس کے کسی حلقے کو مودی جی کے دورے کا طریقہ پسند نہیں آیا۔ کسی کو اس دورے کا اعلان بذریعہ ٹوئیٹر کرنے کا عمل پسند نہیں آیا۔اور کسی کو اچانک ایک برس قبل پونچھ سیکٹر میں ہونے والی کوئی جھڑپ، کوئی شہید یاد آگیا۔کانگرس کے باب میں یہ طرز عمل سمجھ میں آ سکتا ہے۔یہ پارٹی آج کل رہنمائی کے اعتبار سے قحط الرجال کا شکار ہے۔بلکہ اپنی طویک تاریخ میں بیشتر اوقات یہ اسی مسئلے کا شکار رہی ہے۔محدودے چند رہنماوں، بالخصوص پنڈت جواہر لال نہرو کے سوا کانگرس کا یہی حال رہا ہے۔ اب یہ اپنے زوال کے سفر کا دائرہ مکمل کر رہی ہے۔

شخصیات کی مخالفت میں اپنے ہی آدرشوں کی مخالفت کا عمل اسی زوال پذیری کا شناخسانہ ہے۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اپنی آدرش پسندی کا اظہار ان الفاط میں کیا ہے کہ ہم بائیں بازو کے لوگ ہیں اور بائیں بازو کے لوگوں کو امن کی حمایت بہرحال کرنی ہوتی ہے۔گویا انہیں اس بات کا یقین تو نہیں ہے کہ مودی جی جیسا شدت پسند امن کے حوالے کوئی اہم پیش رفت کر سکتا ہے۔

بھارتی کشمیر میں کشمیری حلقوں کا رد عمل معقول تھا۔عرف عام میں علیحدگی پسند کہلانے والوں نے بھی مودی جی کے دورے کی توصیف کی۔یہاں تک کے شدت پسند اور بنیاد پرست کہلانے والی حریت کانفرنس نے بھی۔اگرچہ اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی مخالفت کوئی ذی شعور شخص کر ہی نہیں سکتا۔گویا انہوں نے ذی شعور ہونے کی اتمام حجت کی۔پھر بھی یہ نیک شگون ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کشمیری سیاست اب بچپنے سے نکل کر بلوغت کے ابتدائی مراحلے میں داخل ہو رہی ہو۔

کچھ نے اس عمل کی غیر مشروط حمایت کی۔کچھ نے ملاقات کے اس اچانک عمل کو شک کی نظر سے دیکھا اور کشمیریوں کو نظر انداز کرنے کا شکوہ کیا۔کچھ کشمیری لیڈروں کا رویہ ایسا ہے گویا اگر بھارت و پاکستان کے وزرائے اعظم بھی اگر ایک دوسرے سے ملنا چاہیں تو وہ کشمیریوں سے اس کی پیشگی اجازت لے لیں یا اس ملاقات میں ان کو بھی شامل کر لیں۔ حالانکہ ان کو یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان اور بھارت کے ارباب اختیار جتنی ملاقاتیں اور مذاکرات چاہیں ضرور کریں۔ مگر وہ کشمیر کا کوئی آخری حل نکالنے سے پہلے کشمیری عوام کی آزادانہ رائے لینے اور اس کے مبطابق عمل کرنے کے پابند ہیں۔

دوسری طرف پاکستان کے بنیاد پرستوں نے اس اچانک دورے کے خلاف اچانک مظاہرے کیے۔ان کا کہنا یہ تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش پر مودی جی سے ہاتھ ملانا گویا گناہ کبیرہ تھا۔گویا محمد علی جناح کوئی جنگ باز اور بنیاد پرست قسم کے جنگجو تھے جنہوں نے بھارت سے کبھی ہاتھ نہ ملانے کی قسم اٹھا رکھی تھی۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کے روحانی و سیاسی پیشواوں نے قائد اعظم کو کافر اعظم کے خطاب سے نوازا تھا۔ان کی جماعتوں کے بانی قائد اعظم کو بر صغیر کے مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے تھے۔اور یہاں تک کہ انہوں نے قائد اعظم کا جنازہ تک پڑھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اب یہ قائد اعظم کے اصل وارث اور عشاق ہیں جو ان کے بانیوں کے نزدیک ایک مغرب پرست اور بے دین شخص تھا۔

مگر اب ہم اس قائد اعظم کا کیا کریں جس نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے باب میں یہ کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات امریکہ اور کنیڈا کی طرح ہوں گے۔جس نے اپنا بمبئی کا گھر اس امید پر فروخت کرنے سے انکارکر کر دیا تھا کہ وہ گاہے اپنی ہفتہ وار چھٹیاں وہاں گزارہ کریں گے۔اور جنہوں نے تقسیم سے چند ماہ پہلے بھارت میں جا ئیداد خریدی تھی۔

اب یہ لوگ قائد اعظم کے چہرے پر داڑھی اگانے اور ان کے ہاتھ میں تلوار تھمانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ان لوگوں کے اس طرز عمل سے یہ بات مزید عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان کی مذہبی بنیاد پرست قوتیں بنیادی طور پر جنگ باز اور امن دشمن ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے باب میں ان کی خواہشات،نظریات اور حکمت عملی عوام دشمن اور شدت پسندانہ ہے۔اس دورے کے خلاف اٹھنے والی ان معدودے چند آوازوں کے علاوہ برصغیر کے عام لوگ اسے امن کی جانب ایک درست قدم جان کر اس کی حمایت کرتے ہیں۔

Comments are closed.