تقسیم میوزیم میں برطانوی اشتراک کا کیا مطلب؟

Kuldip-Nayar-new-146286-151867-640x480کلدیپ نیر

تقسیم ہند پر مبنی میوزیم کا خیال مجھے پسند آیا ۔ اس کے لئے لوگوں میں بڑا جوش پایا جارہا تھا ۔ لیکن یہ سوچ کر میں ششدر رہ گیا کہ تقسیم سے متعلق میوزیم برٹش میوزیم کا ہی ایک حصہ ہوگا جو اس کی نگرانی بھی کرے گا ۔ اس سے تو پورا مقصد ہی فوت ہوجائے گا کیونکہ ملک کی تقسیم کے ذمہ داران برطانوی حکمراں ہی ہیں جن کی وجہ سے ایک کروڑ افراد ہلاک اور اس سے تین گنا لوگ بے گھر ہوئے ۔

ملک کی تقسیم انگریزوں کے رخصت ہونے سے پہلے ان کی طرف سے وداعی جھٹکا تھا ۔ انہوں نے مذہب کی بنیاد پر ایسی لکیر کھینچ دی جس کو یقینی طور پر سیکولر ہندوستان کے طور پر نہیں تو اسلامی پاکستان کی شکل میں ادارہ جاتی حیثیت حاصل ہوگئی ۔ یہ سچ ہے کہ ہندوستان نے سیکولر آئین اختیار کیا اور اس کی تمہید میں لفظ سیکولر شامل کیا ۔ لیکن جس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا وہ یہ ہے کہ اسی ہندوستان میں 1992 میں بابری مسجد مسمار کی گئی اور ہزاروں سکھ 1984 میں قتل کئے گئے ۔ سیکولرازم تماشا بن کر رہ گیا ۔ سیکولر ہندوستان پاکستان کی اسلامی ریاست کے خلاف دو جنگیں اور کارگل میں ناکام جنگی مہم کو نہ روک سکا ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ دونوں ملکوں کے پاس نیوکلیائی اسلحے ہیں جو شاید مزاحم کا کام کررہے ہوں لیکن دونوں طرف کے شدت پسند عناصر اس ملکیت کو ایک دوسرے کو ڈرانے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اس پس منظر کو سامنے رکھیں تو تقسیم ہند میوزیم کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا ۔

بصورت دیگر بھی اگر کوئی میوزیم اس خوف و دہشت کی عکاسی نہ کرسکے جس سے عوام گزرے ہوں تو وہ اصل واقعات کو پیش نہیں کرسکے گا ۔ اس وقت جو کچھ بھی رونما ہوا اس کی کوئی تصویر شاید زخموں کو پھر ہرا کردے گی ۔ پہلے ہی دونوں ممالک یا بالفاظ دیگر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات خراب ہیں ۔ ایک علحدہ شناخت قائم کرنے کی کوشش میں دونوں فرقے آپسی اتحاد پیدا کرنے والی باتیں کم اور تفرقہ ڈالنے والی باتیں زیادہ کرتے ہیں ۔ آخرکار دونوں فرقے صدیوں تک مل جل کر رہتے آئے ہیں ۔ یہاں تک کہ برطانوی سامراج نے علحدہ حلقہ انتخاب کا تصور رائج کیا تھا جس سے ہندو اور مسلمان دونوں کا فیصلہ رائے دہندگی ان کے پسندیدہ امیدواروں تک محدود ہوگیا ۔ آزادی کے بعد علحدہ حلقہ انتخاب کے طریقے کا خاتمہ ہوجانے کے باوجود ووٹ بینک کی سیاست نے اس کی جگہ لے لی اور دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں رہا ۔

جب آئین کا مسودہ تیار کیا جارہا تھا تو اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کی پیشکش کی تھی ۔  تاہم لیڈران نے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کی وجہ سے ہی ملک کی تقسیم کی نوبت آئی اور ہندوؤں اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے والا کوئی بھی قدم ایک اور تقسیم کی طرف لے جائے گا ۔

آج مسلم لیڈران ریزرویشن کا مطالبہ اس لئے کررہے ہیں کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حالت زار دلتوں سے بھی ابتر ہے ۔ پھر بھی خود سچر کمیٹی نے ریزرویشن کی تجویز نہیں رکھی اور حکومت نے مثبت اقدامات کرنے کے لئے کہا ، اسی طرح جیسے کہ امریکہ میں سیاہ فام افراد کے لئے کہا گیا ہے تاکہ انہیں ملازمتیں فراہم کی جائیں اور صف اول کے تعلیمی اداروں میں داخلے دئے جاسکیں ۔

خواہ کسی بھی نقطہ نظر سے دیکھیں ہندوؤں اور مسلمانوں کے متحد ہو کر رہنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے ۔ اقلیتی کردار کی بنیاد پر کوئی بھی رعایت اکثریت کی آنکھ میں کھٹکتی ہے ۔ گزشتہ برسوں میں ہوا یہ ہے کہ دونوں فرقوں کے درمیان رابطہ ٹوٹ گیا ہے ۔ وہ تاجر ، کاروباری اور صنعت کار کے طور پر آپس میں ملتے ہیں لیکن پڑوسی اور عام انسانوں کی طرح کبھی نہیں ملتے ۔ ان کے رابطہ کاروبار تک محدود رہتے ہیں اور ان کا مظاہرہ تعلقات کی شکل میں کم ہی ہوتا ہے ۔

مجھے یاد ہے کہ جب دہلی کے محلہ کشن گنج میں فرقہ وارانہ فساد ہوا تو مسلمانوں کے مصائب اور شکوک و شبہات کا اندازہ کرنے کے لئے ان کے درمیان رہا ۔ پتہ یہ چلا کہ وہ اپنی ہی دنیا میں رہتے ہیں اور کچھ ایسے اندیشے ان کے ذہنوں پر چھائے ہوئے ہیں جن کا ازالہ مشکل ہے ۔ میں نے اس وقت کی حکومت سے بات چیت کرکے ایک بڑی اراضی حاصل کی جہاں وہ پھر سے آباد ہوسکیں ۔ انہوں نے مسجد کی فراہمی پر اصرار کیا اور حکومت نے اس کی بھی رضامندی دے دی ۔

لیکن آخرکار کشن گنج کے باشندوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ اپنے محلے کے فولادی پھاٹک کے اندر زیادہ محفوظ تھے ۔ میں اپنی اس دلیل میں ناکام رہا کہ فولادی پھاٹک تو توڑنے میں کوئی دیر نہیں لگتی ۔ میری بات پر کسی نے دھیان نہیں دیا اور انہوں نے الگ جگہ پر گندی بستی میں رہنے کو ترجیح دی جس کے انتخاب کی آزادی ان کے سامنے تھی ۔

آج حالت پہلے سے زیادہ خراب ہوگئی ہے کیونکہ اس جگہ پر مسلم آبادی میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ یہ فرقہ مخلوط آبادی والے علاقے سے خائف ہے کہ کہیں ممبئی کے فسادات کی طرح انہیں بھی تاک کر نشانہ نہ بنایا جائے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوؤں میں مسلمانوں کو خود سے دور رکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ پاکستان سے کشیدگی کے دوران ہر مسلمان انہیں مشکوک نظر آتا ہے ۔ اس پس منظر میں مجوزہ میوزیم تقسیم ہند کی عکاسی کیسے کرسکے گا؟ پاکستان نے میوزیم کے بجائے پنجابی ثقافتی مرکز قائم کرکے اچھا کیا ۔ یہ مرکز دراصل ترقی پسند شاعر  فیض احمد فیض کی فکر کا نتیجہ تھا ۔ انہوں نے پرانے لوک گیت ، دیہات کے گھروں کے پرانے دروازے جمع کئے اور شادی میں گائے جانے والے گیت اور موت کے موقع پر بجائے جانے والے بین کے ریکارڈ تیار کرائے تھے ۔ اسلام آباد کے قریب واقع اس مرکز پر ہزاروں زائرین آتے ہیں جو کہ خصوصاً اپنی جڑوں کے متلاشی نوجوان ہوتے ہیں ۔

تقسیم میوزیم کے حامی افراد پاکستان کی مثال کو سامنے رکھ کر کچھ کرسکتے ہیں ۔ وہ پرانی ثقافت کے ڈھانچے کی دوبارہ تشکیل کرکے ہندوؤں اور مسلمانوں کو عام انسانوں کی طرح رہتے ہوئے تجارت اور کاروبار کی ترغیب دے سکتے ہیں ۔ آج بھی ہند ۔ پاک دشمنی کا واحد حل مشترک کاروبار اور ایک دوسرے کے ملک میں سرمایہ کاری ہے جس سے باہمی اعتماد کی فضا پیدا ہوگی ۔

اگر ایسا ہوجائے تو دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان پیرس میں اتفاقی ملاقات کی جگہ ان کے درمیان مستقل رابطے لے لے گا ۔ ادھر بیٹھا ہوا شخص کسی بھی وقت ٹیلی فون اٹھا کر دوسری طرف والے مسائل کو جان کر ان میں شریک ہوسکے گا ۔ بنکاک میں دونوں ملکوں کے قومی حفاظتی مشیروں کے درمیان چار گھنٹے تک چلنے والے مذاکرات کو بھی کوئی غیر معمولی حیثیت نہیں دی جائے گی ۔

تقسیم میوزیم جو شکل بھی اختیار کرے ہمیں برطانیہ کو کسی طرح کی بھی شرکت سے دور ہی رکھنا چاہئے ۔ ان کا اقتدار خیر خواہانہ نہیں بلکہ ظالمانہ تھا ۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں 100 اسکول کھلے تھے جبکہ برطانوی سامراج نے اپنے پورے ڈیڑھ سو سالہ اقتدار میں بھی اتنی تعداد میں اسکول نہیں کھولے تھے ۔ یہ سچ ہے کہ انگریزوں نے ریلوں کا جال بچھایا لیکن اس کا اصل مقصد آزادی کی جد و جہد میں مصروف افراد کو دبانے کے لئے فوجیں پہنچانا تھا ۔ میوزیم کا خیال ہے تو مبارک لیکن برطانوی اشتراک کی بات گلے سے نہیں اترتی ہے ۔

Daily Siasat, India

Comments are closed.