شام میں لڑائی، ایران پاکستانی ’شیعہ جنگجو بھرتی‘ کر رہا ہے

0,,18911339_303,00

اندازوں کے مطابق پاکستانی شیعہ گروپ زینیبون کے تقریباً ایک ہزار جنگجو ایران کی مدد سے شام میں لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں ان میں سے ان میں سے بہت سے عسکریت پسندوں کا تعلق پاکستانی قبائلی علاقے پارا چنار سے ہے۔

گزشتہ ایک عرصے سے ایرانی پاسداران انقلاب سے منسلک ویب سائٹس پر شام میں لڑائی کے دوران ہلاک ہونے والے شیعہ جنگجوؤں کی تعریف میں آرٹیکل لکھے جا رہے ہیں لیکن حال ہی میں ان دو پاکستانیوں کو بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے، جو مبینہ طور پر شام کے دارالحکومت دمشق کے مضافات میں ایک مزار کی حفاظت کرتے ہوئے ہلاک ہوئے۔

نیوز ایجنسی رائٹرز کی اطلاعات کے مطابق یہ دونوں جنگجو پاکستانی شیعہ عسکری گروپ زینیبون سے تعلق رکھتے تھے، جو شام میں مزار زینب کی حفاظت کے لیے لڑ رہا ہے اور خطے میں ایسے جنگجوؤں کی بھرتیاں ایران کے ذریعے ہو رہی ہے۔ زینیبون اور اس طرح کے دیگر شیعہ گروپوں کی طرف سے اپنے ’’شہداء‘‘ کی پوسٹ کی جانے والی تصویروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اشام میں روز بروز مزید فعال ہوتے جا رہے ہیں۔

نومبر کے وسط میں اس گروپ کی طرف سے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ترپّن ایسے افراد کی تصاویر شائع کی گئی تھیں، جو شام میں لڑائی کے دوران ہلاک ہوئے ہیں۔ ابھی تک اس گروپ کی طرف سے مجموعی ہلاکتوں کا کوئی بھی بیان جاری نہیں کیا گیا لیکن اس موضوع سے متعلق معلومات رکھنے والے ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ شام میں سینکڑوں پاکستانی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کو مزار زینب کے اردگرد تعینات کیا گیا ہے۔

ایران کی طرف سے ’پاکستانی جنگجوؤں کی بھرتی‘ شامی جنگ کو ایک نیا رخ فراہم کر رہی ہے جبکہ اس جنگ کی وجہ سے پہلے ہی مسلم دنیا میں تقسیم بڑھ چکی ہے۔ اب پاکستانی شیعہ جنگجو ایران کی اتحادی شامی حکومت کو مدد فراہم کر رہے ہیں جبکہ ان کے مد مقابل وہ سنی عسکریت پسند ہیں، جنہیں ترکی اور عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔

0,,18911336_401,00

حال ہی میں زینیبون گروپ نے ایسی تصاویر شائع کی ہیں، جن میں شلوار قمیض پہنے ہوئے افراد پاسداران انقلاب کے اہلکاروں کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس گروپ نے ان پاکستانیوں کی تصاویر بھی شائع کی ہیں، جو شام میں لڑائی کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔

میری لینڈ یونیورسٹی کے محقق اور واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ فلپ سمتھ شام میں لڑنے والے شیعہ گروپوں پر اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا اس بارے میں کہنا تھا، ’’ زینیبون پاکستانی شیعہ گروپ ہے، جسے پاسداران انقلاب ( آئی آر جی سی) کنٹرول کرتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا، ’’یہ ایک مکمل گروپ بن چکا ہے اور رواں برس موسم گرما کے بعد سے اس کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘ پاکستان کی زیادہ تر آبادی سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن اقلیت میں ہونے کے باوجود اس ملک کی شیعہ آبادی کا شمار دنیا کی بڑی شیعہ کمیونیٹیز میں ہوتا ہے۔

واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو اور پاکستان، ایران کے درمیان تعلقات پر ایک کتاب کے مصنف ایلیکس ویٹینکا کہتے ہیں، ’’شیعہ کمیونٹی کے اندر بہت سے گروپ ایسے ہیں، جو اپنی شناخت کے لیے ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار ہیں اور پاسداران انقلاب اسی چیز کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘

شام میں اب نہ صرف پاکستانی بلکہ لبنان کی حزب اللہ، عراقی اور افغانستان کی ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے عسکریت پسند لڑ رہے ہیں۔ ان تمام کی تعیناتی کا مقصد اسد حکومت کی حفاظت کرنا ہے۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز اور تصاویر کے مطابق پاکستانی گروپ زینیبون کے زیادہ تر جنگجو شامی صوبہ حلب اور دمشق کے مضافات میں موجود مزار پر تعینات ہیں۔

فلپ سمتھ کے مطابق آن لائن پوسٹ کیے جانے والے میٹریل کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا کہ زینبون کے تقریباً ایک ہزارجنگجو شام میں لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق ممکن نہیں ہے۔

اس بارے میں پاسداران انقلاب کے تعلقات عامہ کے دفتر سے بھی رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے کوئی بھی جواب نہیں دیا۔ پاکستانی زینیبون گروپ کا لوگو لبنان کے شیعہ گروپ حزب اللہ سے مطابقت رکھتا ہے۔

اس گروپ کی پوسٹنگز کے مطابق شام میں تعینات کیے جانے والے کئی پاکستانی پہلے ہی ایران میں رہائش اختیار کیے ہوئے تھے جبکہ دیگر زیادہ تر جنگجوؤں کا تعلق پاکستانی قبائلی علاقے پارا چنار سے ہے۔

بتایا گیا ہے کہ پاکستانی گروپ زینیبون نے آغاز افغان شیعہ عسکری گروپ فاطمیون سے کیا تھا۔ اس گروپ کو شام میں بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، جس کے بارے میں متعدد ایرانی ویب سائٹس باقاعدگی سے رپورٹیں شائع کر رہی ہیں۔

رائٹرز کی رپورٹوں کے مطابق متعدد افغان عسکریت پسندوں کو شام میں لڑنے کے عوض ایرانی شہریت اور ماہانہ تنخواہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جبکہ پاکستانی گروپ بھی اسی طرح کی مراعات دینے کا وعدہ کر رہا ہے۔

زینیبوں کی طرف سے دیے جانے والے اشتہارات کے مطابق اٹھارہ سے پینتیس سالہ کوئی بھی شخص شام میں لڑائی کے لیے اپلائی کر سکتا ہے۔ پینتالیس دن کی ابتدائی ٹریننگ کے بعد چھ ماہ کی ٹریننگ شام میں فراہم کی جائے گی۔ شام میں ان افراد کو ماہانہ ایک لاکھ بیس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے اور ہر تین ماہ کے بعد پندرہ دن کی چھٹی بھی۔ اگر کوئی شخص شام میں ہلاک ہو جاتا ہے تو اس کے بچوں کو مفت تعلیم اور اس کے اہلخانہ کو ہر سال ایران، عراق اور شام کا سفر کروایا جائے گا۔ دیے گئے اشتہار کے مطابق جو بھی شامل ہونا چاہتا ہے، اسے ایرانی شہر قم تک آنا ہوگا۔ مختلف فون نمبرز بھی دیے گئے ہیں، جن پر کال کی گئی تو ان سے کوئی بھی جواب نہیں ملا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق شام میں لڑنے والے عراقی شیعہ گروپ ملکی حالات کی وجہ سے واپس عراق جا رہے ہیں اور ان کا خلاء پاکستانی اور افغان جنگجوؤں سے پر کیا جا رہا ہے۔

ڈوئچے ویلے

One Comment