آرمی پبلک سکول کا واقعہ اور دہشت گردی کا مائنڈ سیٹ

ارشد نذیر
0,,18918699_303,00

کسی واقعہ کے عظیم یا معمولی ہونے ، اس کے اہم یا غیر اہم ہونے ، المناک اورغیر المیہ ہونے، اس کی ملکی تاریخ کو بدلنے یا مسخ کرنے جیسے سوال کون تراشتا ہے اور کس لئے تراشتا ہے ، کس وقت تراشتا ہے اور اس سے کون فریق کیا فائدہ حاصل کرتا ہے ۔

ہر واقعہ کے ساتھ ان سوالات پر بھی تحقیق ہونی چاہئے اور سنجیدگی سے ہونی چاہئے۔ لیکن انسانی نفسیات کی کمرشلائزیشن کرنے والےنہ صرف واقعات کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں بلکہ ان سے اپنے مفادات حاصل کرنے کا ہنر اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لئے وہ قوم کے مزاج آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے بزنس مین کا ثبوت دیتے ہوئے مورخ کے ساتھ بھی ہاتھ کر جاتے ہیں۔

مورخ واقعات کی تحقیق کے بعد ہی ان کی اندوہناکی ، دہشت و وحشت ناکی کا تعین کرتا ہے جب کہ انسانی نفسیات کی کمرشلائزیشن ان واقعات میں سے فوری بزنس تلاش کرتی ہے۔ وہ انسانی عزت و وقار کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ اس کمرشلزم میں وہ ہم سے غیر محسوس طریقے سے آزادانہ رائے کا حق چھین لیتے ہیں۔

وہ صرف یہی ظلم نہیں کرتے بلکہ ایک اور ظلم وہ یہ کرتے ہیں کہ جب وہ کسی واقعہ کو انتہائی اندہناک اور المناک بنا کرپیش کرتے ہیں تو اُس وقت وہ ہمارے جذبات کے ساتھ اس طرح کھیلتے ہیں اور اس طرح وہ ہمارے ساتھ دوہرا ظلم کرتے ہیں ۔ ایک تو وہ ہم سے ہماری آزادانہ رائے چھین لیتے ہیں دوسرا واقعہ سے متعلق انتہائی بنیادی نوعیت کے سوالات کی سمت بھی موڑ دیتے ہیں۔ اور ہماری جذباتیت کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں۔

مذہب اور مذہبی جذباتیت بھی ایسی ہی کیفیات ہیں جن کو انسان اور بالخصوص پاکستان کے عوام کے انتہائی حساس گوشے تصور کرکے ان سے کھیلا جاتا ہے ۔جنت الفردوس اور شہادت جیسے مرتبوں کی آڑ میں سنجیدہ سوالات کی سمت آسانی سے موڑ دی جا تی ہے۔

آرمی پبلک سکول کا واقعہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے دیگر واقعات سے کس طرح زیادہ اندوہناک ہے۔ اس کا تعین نہیں کیا جانا مشکل ہے ۔اس دہشت گردی نے سینکڑوں سکولز اور بالخصوص بچیوں کے سکولز کو تباہ کیا۔ مساجد میں نمازیوں پر حملے ہوئے ۔ جنازوں پر بم پھوڑے گئے ۔امام بارگاہوں پر حملہ ہوا۔ بازاروں اور سینماؤں پر حملے ہوئے ، ان حملوں میں سینکڑوں عام شہری ہلاک ہوئے، اس وقت تک یہ متعین نہیں ہو سکا کہ بس کافی ہو چکا۔یہ ظلم کی انتہا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ بچے تو پھول جیسے ہوتے ہیں وہ سب کو پیارے لگتے ہیں۔ ماں باپ کا تو لختِ جگر ہوتے ہی ہیں۔ اس لئے ان کی ہلاکتیں غم کی ناقابلِ بیان اور انمٹ داستان بن گئی۔ کسی ایک واقعہ کی یاد منانا میرے خیال میں غریبوں اور عا م شہریوں کے بچوں اور انسانوں کے قتل کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے عزم کا اعادہ کرنا ہے۔

لیکن ہم آج بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ ’’دہشت گردوں‘‘ ، ’’جہادیوں‘‘ اور ’’نام نہاد سیاسی اسلام پسندوں‘‘ کی تعریف متعین کئے بغیر لڑ رہے ہیں ۔ اگر ہم تسلیم کر چکے ہیں کہ دہشت گردی ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے تو اس مائنڈ سیٹ کا علاج فوج کے پاس نہیں ہے اس کا علاج تو معاشرے میں تعلیم ، روزگار اور تہذیب و ثقافت کی ترویج سے ہے ۔

دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنے نصاب کو تبدیل کرنے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔ ہمارا نصاب تو روز بروز پہلے سے بھی زیادہ ’’اسلامائزڈ‘‘ ہوتا جا رہا ہے ۔ ہمارے ہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کو عقلی بنیادوں پر کم اور اسلامی بنیادوں پر زیادہ قبول کیا جا رہا ہے۔ہمارے یونیورسٹیز کے پروفیسرز سائنس کو اسلامائزڈ کرنے کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔ اِن پر کوئی سوال نہیں اُٹھایا جا رہا۔

ہماری نام نہاد سول سوسائٹی بھی روایتی ملاؤں اور ان پروفیسرز کی طرح کنفیوزہے ۔ وہ دہشت گردی کی تعریف متعین کئے بغیر ہی پاک آرمی کی چمچہ گیری پر لگے ہوئے ہیں۔ انہیں یہ پتا ہی نہیں ہے کہ دہشت گردی کے ڈانڈے سویلین کے ساتھ جا کر مل رہے ہیں۔ اسی طرح ہماری حکومت میں آج بھی ایک کنفیوزڈ اسلامی تصور رکھنے والے سیاستدان ہماری اسمبلیوں کا حصہ ہیں ۔ نہ سول سوسائٹی اور نہ ہی لبرل سیاستدان سیاسی عمل سے اس سوچ کی تطہیر کی سنجیدہ کوشش کر رہے ہیں۔

اس سب کے پیچھے کالی معیشت اور کالا دھن بھی شامل ہے۔ ان باتوں کا ادارک کئے بغیر دہشت گردی کے مائنڈ سیٹ سے نمٹنا ممکن نہیں۔

اس طرح تحقیق کے تمام سنجیدہ گوشے ہمارے ذہن سے محو ہو جاتے ہیں اور ہمیں ایسے واقعات کی محض عظمت اور المناکی جیسی جذباتی کیفیت میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ۔ جذباتیت کی اس کیفیت میں قرآن خوانی کرکے شہداء کے لئے ایصالِ ثواب کی محفلیں تو منعقد کی جا سکتی ہیں لیکن قوم کے لئے مستقبل کا راستہ تلاش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قوموں کے مستقبل کی حیات اورترقی کے تمام راستے واقعات کی غیر جذباتی ، منطقی اور سائنسی بنیادوں پر تحقیق سے گزر کر آگے بڑھتے ہیں۔

اس طرز کی جذباتیت پھیلانے سے بنیادی سوالات کہ آخراس قسم کی شدت پسند ی ، عدم رواداری ، دہشت گردی ، دہشت گردوں کے مالی وسائل کی دستیابی اور ان کے تمام نیٹ ورکس کے آپس میں روابط کا کون ذمہ دار ہے اور کس طرح ایک ایسے ملک جہاں بیسیوں انٹیلی جینس ایجنسیوں جن کو ملک کی ’’بہترین انٹیلی جینس ایجنسیاں ‘‘ تصور کیا جاتا ہوں کی موجودگی میں یہ لوگ کسی بھی جگہ ایسی دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ہمیشہ تشنہِ جواب رہتے ہیں۔

وہ کون سے عوامل میں جو ہمارے اس قسم کے جذبات کے رُخ کو مثبت سمت میں موڑے جانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔آخر تاریخ کے کس موڑ پر ہم نے غلطی کی ہے اور اس سے کچھ سیکھا بھی نہیں ہے۔جب تک ہم اپنی سوچ کے دھارے کو اس سمت نہیں موڑیں گے ، دہشت گردی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔

نہ صرف ہمارے ہاں کے دائیں بازو کے زیادہ تر دانشور بلکہ کچھ ’’ نام نہاد لبرل‘‘ بھی جذبات کی رو میں بہہ کر ان سوالوں جو کہ انتہائی بنیادی اور مستقبل کے لئے فیصلہ کن ہیں کے تحقیقاتی جوابات کی تلاش کی راہ میں خود رکاوٹ بن رہے ہیں۔

One Comment