دیہات کے لوگ :چالاک اور بے وقوف

qazi-310x387فرحت قاضی


ایک دیہہ میں جاگیردار کے علاوہ ایسے خاندان بھی ہوتے ہیں جن کے گزارہ حال قطعات زمین اور کھیت ہوتے ہیں۔

لوہار،بڑھئی،چمار،نائی،دھوبی اوردرزی ہوتے ہیں اور یہ اپنے موروثی پیشے اور ہنر سے پیسہ کماتے اور وقت گزارتے ہیں۔

چھوٹے دکاندار،سرکاری اہلکار،امام مسجد،میاں اور پیر کے اپنے اپنے ذرائع معاش ہوتے ہیں۔

جاگیردار کے کھیتوں میں کام کرنے والے کھیت مزدوروں کا تمام انحصار مالکوں کی زمینوں پر ہوتا ہے۔

جاگیردار کے پاس ضرورت کی ہر چیز موجود ہوتی ہے اسے ہر آسائش میسر ہوتی ہے اس کے اپنے خاندان کے علاوہ دیگرایسے خاندانوں سے بھی تعلقات استوار ہوتے ہیں جو اس کی طرح معاشی طور پر خود کفیل ہوتے ہیں۔

ان امیر طبقات کا میل جول ان کو ایک دوسرے سے سیکھنے اور پھر اسے عمل میں لانے کی ترغیب دیتا رہتا ہے جس کے پاس بڑی کار،وسیع کھیت اور زیادہ بینک بیلنس ہوتا ہے وہ دیگر کے لئے مثال بن جاتا ہے ہر ایک اس کے ٹھاٹ باٹ سے متاثر ہوتا ہے تو ان میں اس جیسا بننے کی خواہش بھی پیدا کرتا ہے چنانچہ یہ تمام ماحول ان میں مزید کی لالچ پیدا کرتا رہتا ہے۔

یہ مسابقت مردوں کے ساتھ ساتھ ان کی خواتین میں بھی پائی جاتی ہے اور اس کا اظہار یہ شادی اور خوشی کے دیگر مواقع پر زیادہ سے زیادہ اور قیمتی سے قیمتی لباس وپوشاک اور زیورات سے کرتی رہتی ہیں حتیٰ کہ فوتگی کے موقع پر بھی یہ اہتمام کیا جاتا ہے چنانچہ ان مواقع پر خواتین کو ایک دوسرے کو کن اکھیوں سے دیکھ کر یہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے یہی نہیں بلکہ قریبی بیٹھی دوچار خواتین انگلیوں اور ہاتھوں یا آنکھوں ہی آنکھوں میں دکھانے اور بتانے کاکام بھی کرتی ہیں اور پھر اس خاتون یا خواتین کی غیر موجودگی میں یہ ان کا موضوع بحث بن جاتا ہے۔

خواتین میں یہ مسابقت خوانین اور بالادست طبقات کے مردوں کو مزید کمانے پر مجبور کردیتی ہے۔

یہ صورت حال جاگیردار طبقہ کو ایک دوسرے کے قریب لاکر باہمی تجربات سے سیکھنے کی ترغیب دیتی ہے تو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے پر بھی اکساتی ہے چنانچہ اس طرح جاگیردار اور بالادست طبقے کی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے۔

اس طبقہ میں لالچ،سازش،گروہ بندی،رشتے، پیار و محبت،رقابت اور دشمنی کے اپنے پیمانے اور درجات ہوتے ہیں چنانچہ دوستی ہوتی ہے اور مسابقت بھی چل رہی ہوتی ہے ایک دوسرے کی محبت کا دم بھرتے ہیں اور تاک میں بھی رہتے ہیں اور کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ ان کی نظر یں شکار اور اس کی جیب پر لگی ہوتی ہیں اور اس طرح ان کی پوری زندگی بناوٹی ہے ۔۔

درمیانہ اور گزارہ حال کھیت و زمین کے مالک ان کے قریب ہونے کی وجہ سے اس طبقہ سے جلد متاثر ہوتے ہیں اور ان کی نقالی کر نا اپنی زندگی کا مقصد بنالیتے ہیں یہ بھی پر تعیش زندگی گزارنے کے متمنی رہتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ غریب اور محنت کش طبقات کے بھی قریب ہوتے ہیں۔

یہ پیسے کی لالچ بھی رکھتے ہیں اور ان کو جنت جانے کی فکر بھی رہتی ہے چنانچہ یہ غالب کی مانند

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے ہے

کی صورت حال اور کش مکش میں مبتلا رہتے ہیں ان کے پاس دو چار پیسہ زیادہ کیا آجاتا ہے گویا پر نکل آتے ہیں اور رات تو رات دن کو بھی جاگیرداروں کے پاس بیٹھے اپنے آپ کو ان کے ساتھ کھانا کھاتے اورکرسی پر بیٹھے بات چیت کرنے کے خواب دیکھتے ہیں ۔

بڑھئی،چمار،دھوبی،لوہار ،درزی،چھوٹے بابو اور دکاندار کو آسائشات تو کیا دووقت پیٹ بھر کر کھانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے یہ زیادہ سے زیادہ محنت کے ذریعے پیسہ کمانے کی فکر میں اپنا خون خشک کرتے رہتے ہیں ان کو اپنے کام اور کنبے کی فکر پریشان رکھتی ہے ان کو مالدار بننے کی امید کم ہی ہوتی ہے یا بالکل نہیں ہوتی ہے چنانچہ یہ اپنی روز مرہ ضروریات اور حاجات پوری کرنے کے لئے پیروں،فقیروں کی درگاہوں پر حاضری دیتے اور زیارتوں پر جاتے ہیں تعویزات بنواتے ہیں ان کاموں سے بچے کھچے لمحات عبادات اور معاشی پریشانیوں میں گزارتے ہیں

کھیت مزدور ان سے مختلف نہیں ہوتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ کب ہل چلانا،بیچ ڈالنا، پانی دینا اور گودام میں پڑی مالک کے غلے کی حفاظت کرنا ہے۔

چونکہ غریب اور محنت کش طبقات زندگی کی اس ہماہمی اور دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں اس لئے ان کا قسمت اور سادہ زندگی گزارنے پر یقین ہوتا ہے اور ان کو دیکھ کر اگر ایسوپ کی کہانی
’’
انگور اکٹھے ہیں‘‘ یا دآجاتی ہے تو یہ عین فطری ہوگا۔

یہ دیہہ کے تین الگ الگ طبقات ہیں یہ فقط معاشی حالات میں ایک دوسرے سے الگ اور مختلف نہیں ہوتے ہیں بلکہ روایات،رسومات،رواجات، عقائد اور زندگی کے دیگر معاملات اور امور کے حوالے سے تصورات اور نظریات بھی اسی طرح الگ الگ رکھتے ہیں۔

اعلیٰ طبقہ سرتاپا لالچ میں ڈوبا ہوتا ہے
درمیانہ طبقہ مذبذب رہتا ہے
اور محنت کش کا
زندگی فانی ہے
پر یقین کامل ہوتا ہے۔

جاگیردار طبقہ جدید سائنسی تعلیمات سے خود کو آگاہ رکھتا ہے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ممالک بھیجتا ہے ہر وہ طریقہ اور نسخہ آزماتا ہے اور نت نئے ایجاد کرتا ہے جس سے اس کے بینک بیلنس میں اضافہ ہو۔

باقی دو طبقات بہتر اور پر آسائش زندگی کی خواہش رکھتے ہیں مگر ایسا کوئی طریقہ بھی اختیار کرنے سے کتراتے ہیں جو مروجہ قوانین اور عقائد سے متصادم ہو علاوہ ازیں یہ سماج میں اپنی ناک اونچی رکھنے کی فکر یا مرض میں مبتلا رہتے ہیں لہٰذا غیرت،انتقام،توہمات،روایات اور رسومات کی دل و جان سے قدر کرتے ہیں سماجی قد و قامت کو قائم رکھنے یا بڑھانے کے لئے انتقام پر اتر آتے ہیں۔

ان طبقات خصوصاً غریب طبقہ کی اپنی الگ دنیا ہوتی ہے یہ بھی اعلیٰ طبقات کی مانند شادی اور فوتگی پر کئی دیگ پکوانا چاہتا ہے سماجی قدو قامت چاہتا ہے لہٰذا سالہاسال کی کمائی ایک شادی کی رسم یا فوتگی کے موقع پر لٹا دیتا ہے اور قرضہ بھی لیتا ہے۔

چونکہ اس طبقہ میں اپنی ناخواندگی کے باعث یہ شعور نہیں ہوتا ہے کہ اس نے جن تصورات،نظریات،روایات،رواجات اور رسومات کو سینے سے لگارکھا ہے وہ اس کی پس ماندگی اور غربت کے اسباب ہیں اس لئے یہ ان پر عمل پیرا رہتا ہے اور غربت کی دلدل میں ہمیشہ دھنسا رہتا ہے۔

غریب خاندانوں میں ہمہ وقت ایک کھینچا تانی اور کش مکش رہتی ہے اور غیرت اور انتقام کے خیالات ان کے تنازعات کو ہوا دیتے رہتے ہیں چنانچہ ان مسائل کو بندوق سے حل کرتے ہیں تو آدھے جیل پہنچ جاتے ہیں اور باقی آدھے ان کی رہائی میں تھانوں،عدالتوں اور جیلوں کی زیارت کرتے رہتے ہیں اور محنت سے کمایا ہوا پیسہ پولیس اہلکاروں اور وکیلوں کی جیبوں میں جاتا ہے جبکہ خواتین تعویزات بنوانے میں لگی رہتی ہیں۔

ان طبقات کو زندگی بھر یہ احساس نہیں رہتا ہے کہ غیرت اور انتقام کے الفاظ، مروجہ رسومات،روایات اور رواجات ان کو بے وقوف بنانے اور معاشی طور پر کنگال رکھنے کے لئے بنائے اور ایجاد کئے گئے ہیں۔

Comments are closed.