ایک بلوچ ڈاکٹر کا قتل

ذوالفقار علی زلفی

10455f7e-0489-458d-be7a-6566ed3daa9d

بلوچستان کے طاقتور ترین سرداروں میں سے ایک، چیف آف ساراوان نواب اسلم رئیسانی کے قبائلی ہیڈکوارٹر مستونگ کے نواح میں واقع دیہات کلی دتومیں 30 جنوری 2016 کی صبح پاکستانی فورسز نے ایک کامیاب آپریشن کے بعد پاکستان کو ایک بار پھر بچالیا“_

آمدہ اطلاعات کے مطابق بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عبدالمنان بلوچ تنظیمی دورے پر کلی دتو میں اپنے سیاسی دوستوں کے گھر مقیم تھے کہ علی الصبح فورسز کی بھاری تعداد نے مکان پر چھاپہ مار کر ان سمیت مکان میں موجود چار افراد کو گرفتار کرلیا۔شناخت کے بعد پانچوں افراد کو سر پر گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔

دوسری جانب فرنٹیئر کور کا اصرار ہے کہ ڈاکٹر منان بلوچ ایک عسکریت پسند رہنما تھے جو مقابلے کے بعد چار ساتھیوں سمیت مارے گئے۔ایف سی کے مطابق ملزمان کے قبضے سے چار ایس ایم جیز، دو دستی بم اور دو پستول بھی برآمد ہوئے۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ڈاکٹر منان کے قتل کو حکومت کی اہم ترین کامیابی قرار دے کر خوشی کا اسی طرح اظہار کیا جس طرح سابق فوجی جنرل پرویز مشرف نے نواب اکبر بگٹی کے قتل پر کیا تھا۔

ڈاکٹر منان بلوچ ایک اعلی تعلیم یافتہ قوم پرست رہنما متصور کیے جاتے ہیں۔ان کا آبائی تعلق بلوچستان کے پسماندہ مگر باشعور خطے مشکے سے تھا۔انہوں نے بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقے جھاؤ میں عرصہ دراز تک طبی خدمات انجام دیں جہاں آج بھی انہیں ایک مشفق اور مہربان ڈاکٹر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

زمانہ طالبعلمی میں انہوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا تاہم طب کا پیشہ اختیار کرنے کے بعد انہوں نے اپنی تمام تر توجہ اپنے پیشے پر مبذول کردی۔

سنہ2004 کے بعد جب بلوچستان کے حالات بگڑنے لگے تو ڈاکٹر منان بلوچ نے ایک بار پھر سیاسی حالات میں دلچسپی لینی شروع کردی۔2008 کو انہوں نے معروف بلوچ رہنما غلام محمد بلوچ کی قائم کردہ جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرکے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا۔

غلام محمد بلوچ کو اپریل 2009 کو خفیہ اداروں نے تربت سیشن کورٹ کے احاطے سے اغوا کرلیا اور بعد ازاں تربت شہر کے قریب مرگاپ کے مقام پر ان کی مسخ شدہ لاش دیگر دو رہنماؤں کے ساتھ برآمد ہوئی۔غلام محمد بلوچ کی شہادت کے بعد ڈاکٹر منان بلوچ اور خلیل بلوچ نے بلوچ نیشنل موومنٹ کی باگ ڈور سنبھالی۔

سنہ2011 کے پارٹی انتخابات میں وہ پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل کے عہدے پر منتخب ہوگئے اور زندگی کی آخری سانس تک وہ اسی عہدے پر ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔

قوم پرستوں حلقوں میں ڈاکٹر منان بلوچ کو ایک سیاسی مدبر اور نظریاتی استاد کا درجہ حاصل تھا۔ان کا تعلق بلوچ سیاست کے اس پود سے تھا جو پڑھنے لکھنے کی بری لت میں مبتلا ہیں۔سیاسی سرگرمیوں کے باعث انہیں لکھنے کی فرصت تو بہت کم ملتی تھی تاہم مطالعہ ان کی ذات کا حصہ بنا رہا۔وہ دی اکنامسٹ جیسے عالمی جریدوں سے لے کر پاکستان کے تمام روشن خیال اخبارات و رسائل کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے جبکہ کتابوں سے تو گویا انہیں عشق تھا۔وہ نہ صرف خود مطالعہ کرتے بلکہ پارٹی کارکنوں پر بھی مطالعے کی عادت اختیار کرنے پر ذور دیا کرتے تھے۔

ڈاکٹر منان بلوچ کے سیاسی موقف اور ان کے نظریے سے ہزار اختلاف کیے جاسکتے ہیں(مجھے کوئی اختلاف نہیں) مگر یہ طے ہے کہ وہ ایک جمہوریت پسند سیاسی رہنما تھے ان کو ایک عسکریت پسند رہنما قرار دے کر ایک پرامنمقابلے میں قتل کرنا پاکستانی حکمرانوں کی اس مخصوص ذہنیت کا اعادہ ہے جس کا اظہار وہ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں یعنی ہر مخالف آواز کو جبراَ خاموش کرنا۔

اسلحہ برآمدگی کا دعوی بھی ایک سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں یہ کیسا مقابلہ تھا جس میں فورسز کے کسی اہلکار کو خراش تک نہ آئی اور مقابل کے عین سر میں گولی لگ گئی اور تو اور دیواروں تک پر گولیوں کے نشانات نہ ملے۔

پاکستان کے وہ تمام دانشور اور سیاسی کارکن جو ہمیشہ بلوچوں کو پرامن سیاسی جدوجہد کا درس دیتے ہیں اس قتل عام کی کیا توجیہہ پیش کرینگے؟ ایک انتہائی تعلیم یافتہ رہنما کو کسی گلی کے غنڈے کی طرح قتل کرکے سینہ چوڑا کرنا اور شیخیاں بگھار کر اسے اہم کامیابی قرار دینا بلوچ قومی جذبات اور احساسات کے ساتھ کیا گیا ایک ایسا ناقابل معافی جرم ہے جسے شاید ہی بلوچ معاف کرسکے۔

ڈاکٹر منان بلوچ بلاشبہ پاکستانی آئین و قانون کی رو سے پاکستان کے غدار تھے انہوں نے بلوچستان کو کبھی بھی پاکستان کا اٹوٹ اور قانونی حصہ نہ سمجھا۔ بلوچ اور پاکستان کے درمیان موجود تضادات کو مخاصمانہ قرار دے کر انہوں نے ایک آزاد اور جمہوری بلوچستان کا حل پیش کیا۔

وہ مکالمے کے قائل تھے اس لیے انہوں نے اپنے نظریے کی ترویج اور اس کی حقانیت ثابت کرنے کیلئے تحریر و تقریر کا راستہ اختیار کیا اگر پاکستانی حکمرانوں کو اس فکر و فلسفے سے اختلاف ہے تو وہ ان کو گرفتار کرکے مقدمہ چلاتے اور اپنی ہی عدالتوں کے ذریعے ثابت کرتے کہ ان کے خیالات غلط اور بے بنیاد ہیں۔

انہیں اس طرح بہیمانہ انداز میں قتل کرکے حکمرانوں نے دراصل ڈاکٹر منان بلوچ کے اس نظریے کو درست ثابت کردیا ہے کہ پاکستان میں بلوچ کا مستقبل سوائے اجتماعی موت کے اور کچھ نہیں۔

2 Comments