جھنڈا اور انسانیت

شاداب مرتضیٰ

0001

جس طرح ہم امتِ مسلمہکے سراب میں مبتلا ہیں اسی طرح ہم پاکستانی قومیتکے سراب میں بھی مبتلا ہیں۔ جس طرح ہم اس مغالطے کا شکار ہیں کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک واحد امتِ مسلمہ ہیں اور ان کے مابین ریاستی حدود محض علامتی نوعیت کی ہیں۔ اسی طرح ہم اس مغالطے میں غلطاں و پیچاں ہیں کہ سارے پاکستانی ایک ہی قوم ہیں اور ان کے مابین صوبائی حدود محض علامتی معاملہ ہے!۔

مودبانہ عرض ہے کہ پاکستان میں سندھی،پنجابی،بلوچ، پختون، کشمیری،گلگتی،بلتستانی اور سرائیکی قومیں بستی ہیں،اردو بولنے والی لسانی اکائی کے ساتھ۔ اس باب میں جس قدر چاہیں کج بحثی کی گنجائش موجود ہے لیکن قوم کی تعریف جان لینے اور طے کر لینے کے بعد ہی اس بارے میں کوئی نتیجہ خیز گفتگو ممکن ہے۔

جھنڈے کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ یہ بھی ایک علامت ہے جو بعض اوقات انسانیت سے بالاتر ہو جاتی ہے۔لیکن خطِ تنسیخ کہاں کھینچا جائے؟ کیا ہر جھنڈا ہر لحظہ ہر قسم کے حالات میں یکساں مقدس و محترم ہوتا ہے؟ کیا ایسا بھی کوئی مقام آتا ہے یا آسکتا ہے جب انسانیت اور اس کے مصائب کا احساس جھنڈے سے بالاتر ہو؟ میرا جواب نفی اور اثبات دونوں میں ہے۔۔۔ کیوں؟ اس کے لیے ایک مثال عرض کیے دیتا ہوں۔ امید ہے نفی کی مثال سے اثبات تک رسائی ہو جائے گی۔

کیا نازی جرمن فاشسٹ جب لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کر رہے تھے تو فاشسٹ جرمنی کا جھنڈا جلا دینا قابل مذمت عمل تھا یا جرمن فاشسٹ فوجیوں کے ہاتھوں لوگوں کا خون بہانا؟ جب نازی جرمن افواج سے ٹکرانے والی اتحادی فوج کی بندوقوں سے اگلتی گولیاں فاشسٹ فوج کا سینہ چھلنی کر رہی تھیں تو اتحادی ممالک، برطا نیہ ، امریکہ یا سوویت یونین کا جھنڈا جلانا قابلِ مذمت عمل تھا یا فاشسٹ جرمن فوج کی جان لینا؟

جب ہیئت مقتدرہ بلوچ سیاسی رہنماؤں، نوجوانوں، طالبعلموں کو سنگینوں پر کھینچے تو ہیئتِ مقتدرہ کا جھنڈا جلانا قابلِ مذمت عمل ہے یا بلوچوں کی نسل کشی؟ جواب کا دارومدار ترجیحات پر ہے۔جو لوگ جھنڈے سے زیادہ انسانیت کو، حق و انصاف کے اصولوں کو سربلند رکھتے ہیں ان کے لیے انسانیت کا درد جھنڈے کے تقدس سے زیادہ اہم ہوتا ہے چاہے جھنڈا کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو۔

انسانیت کا احساس جھنڈے کے احترام کا تعین کرتا ہے۔ جب جھنڈا انسانیت کے عظیم آدرشوں کی علامت بنتا ہے تو اس کی سربلندی کی خاطر جانوں کا نذرانہ لازمی ٹھہرتا ہے لیکن جب جھنڈا انسانیت پر جبر و قہر کی علامت بن جائے تو اس کا وقار بھی بے معنی ہو جاتا ہے۔جھنڈا جلائے جانے پر سیخ پا ہونے میں ہر محبِ وطن شہری حق بجانب ہے۔

لیکن ڈاکٹر منان بلوچ اور ان کے ساتھیوں کے سفاکانہ قتل پر اسی قدر آزردہ خاطر اور نکتہ چیں ہونے کے بعد، بلوچستان کو اپنے ملک کا صوبہ ماننے والوں کو اپنے ایک ہموطن اور پڑھے لکھے سیاسی رہنما اور ان کے دیگرہموطن ساتھیوں کے ریاستی قتل پر بھی اتنے ہی شدید ردعمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا جتنا انہوں نے ڈاکٹر منان اور ان کے ساتھیوں کے ریاستی قتل پر احتجاج میں جھنڈا جلائے جانے کے خلاف کیا۔

قطعِ نظر کہ جھنڈا جلا دینے سے حالات میں سرمو کوئی بہتری پیدا نہیں ہوتی اور نہ اس قسم کے عامیانہ جذباتی ردعمل سے ایسا کچھ ممکن ہے لیکن اہم بات کیا ہے؟ اس عامیانہ جذباتی ردعمل کے خلاف حبِ وطن کا جذباتی ردعمل یامعاملے کی سچائی اور حقیقت کو سامنے لانا اور اسے تسلیم کرنا؟

ہم یہ دعوی لبرل حلقوں کی جانب سے بارہا سنتے آئے ہیں کہ سرمایہ داری نظام غلاظتوںکا نظام ہے۔ اس میں کئی خرابیاں ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے لیکن آج تک ان مبینہ غلاظتوں یا خرابیوں کی نشاندہی کرتی کوئی تحریر دعویداروں کے زورِ قلم سے برآمد ہوتی دکھائی نہیں دی۔

اس کے برعکس سرمایہ داری نظام کی توصیف و تعریف کے نمونہ جات وقتا فوقتا ضرور زینتِ قرطاس بنتے رہتے ہیں۔ لبرل حلقے میں یہی کچھ معاملہ بلوچستان کے حوالے سے بھی ہے کہ ہیئتِ مقتدرہ کو بلوچستان کے دگرگوں حالات کا ذمہ دار جاننے کے باوجود معاملے کو ہیئتِ مقتدرہ کی طے کردہ حدود میں ہی رکھا جاتا ہے۔

اسی طرح جمہوریت (سرمایہ دارانہ جمہوریت) کی نوعیت لازمی سروسز ایکٹ کی بحالی اور قومی ایئر لائن کے تین احتجاجی ملازموں کو پرامن احتجاج کا بنیادی جمہوری حق استعمال کرنے پر گولی مار کر واضح کر دی گئی ہے۔ کیا ان لوگوں میں لبرل دوست شامل نہیں جو اس جمہوریت کش سفاکانہ عمل کی مذمت میں اپنی توپوں کا رخ ہیئتِ مقتدرہ کی جانب موڑنے کے بجائے ایک جانب نجکاری کی تاریکی میں اپنے ذہن و قلم سے اجالے بھی بھر رہے ہیں اور دوسری جانب جمہوریت پسندی، روشن خیالی اور مساوات کا پرچم بھی اٹھائے ہوئے ہیں!۔

دوہرے پن کے ان مختلف زاویوں کو کیا کہا جائے یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ہم اسے ایک مخصوص دیسی لبرل رجحان کے طور پر جانتے ہیں جس میں دوہرے پن کو ختم کر کے بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔

2 Comments