یہ نظریے کی موت ہے ؟

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹر حمید باشانی

امریکی سائنسدان سٹیفن ہاکنگ نے سچ کہا ہے۔اس ممتاز ماہر طبیعات نے کہا کہ ہمیں روبوٹ سے نہیں، سرمایہ داری نظام سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔اس سائنس دان نے مارکسی فکر کو جدید سادہ سانئسی زبان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ دار ذرائع پیداوار کو مزدور کے ساتھ بانٹنے کے لیے تیا ر نہیں ہیں۔اس کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔آنے والے مشینی دور میں اگر یہی عالم رہا تو بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

سٹیفن ہاکنگ، ظاہر ہے، کارل مارکس کی طرح کوئی انقلابی نہیں کہ وہ اس مسئلے کا کوئی حل تجویز کر سکے۔چنانچہ اس نے اس نیک خواہش کا اظہار کیا ہے کہ جو لوگ مشینوں یعنی ذرائع پیداوار کے مالک ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اپنی دولت ان لوگوں کے ساتھ بانٹ کر کھائیں جن کے پاس کچھ نہیں ہے۔

اس بات کو برسوں پہلے کارل مارکس اپنی داس کیپیٹل میں زیادہ درست، واشگاف اور دوٹوک انداز میں پیش کر چکا ہے۔ سرمائے اور محنت کے حوالے سے یہ نابغہ روزگار شخص آج بھی نا قابل چیلنج ہے۔جن لوگوں نے ایڈم سمتھ کو اس کے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی وہ بھی سرمایہ داری کے مسلسل بحرانوں کے بعد اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔سٹیفن نے جو مسئلہ اٹھایا ہے وہ ہمارے دور کا ایک اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔امیر اورغریب کے درمیان وسیع خلیج اب کوئی محض ترقی پزیر دنیا کا ہی مئسلہ نہیں یہ اب بہت تیزی سے ترقی یافتہ دنیا کا بھی اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

جس شہر اور جس ملک میں میں بیٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں یہ اس شہر اور اس ملک کا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔حالانکہ عالمی رپوٹوں میں ہر سال کینیڈا اور اس کے کچھ شہر دنیا کہ ان پہلے چند ممالک میں شمار ہوتے ہیں جہاں میعار زندگی سب سے زیادہ بلند ہے۔جہاں عام آدمی کو روزگار، رہائش، خوراک، بنیادی تعلیم، علاج کے مواقع میسر ہیں۔ پینے کے لیے صاف پانی اور سانس لینے کے لیے صاف ہوا مہیا ہے۔لوگوں کی جان و مال کو تحفظ حاصل ہے۔ان کی عزت نفس محفوظ ہے۔مگر امیر و غریب کے درمیان خلیج ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

اب کینیڈا کے بیشتر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کی تقریبا ستر فیصد دولت ملک کے امیر ترین طبقات کے پاس ہے۔اور یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ملک کے دارلحکومت اٹاوہ کے ایک انسٹیٹیوٹ کے حالیہ سروے کے مطابق ملک کے پچاسی فیصد لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ امیر اورغریب کے درمیان آمدنی میں اتنی گہری خلیج ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے حکومت کی مداخلت ضروری ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ یہ صرف بائیں بازوں کے خیالات رکھنے والے لوگوں کی ہی رائے نہیں ہے۔ 

اس سروے کے مطابق دائیں بازوں کے قدامت پرست ووٹروں میں چار میں سے تین کی یہی رائے ہے۔گویا کینیڈا کی عام آبادی کی ایک واضح اکثریت، نظریات اور سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر اس بات پر متفق ہیں کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ صرف کینیڈا میں ہی نہیں امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ملکوں بھی ایسا ہی ہے۔یعنی غریب اور امیر کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ عوام کی ایک بڑی اکثریت کے اندر اس کا گہرا ادراک اور شعور موجود ہے۔

اس کا اظہار اس سلسلے میں مختلف اوقات میں کیے جانے والے سروے اور گاہے انتخابات میں بھی ہوتا رہتا ہے۔انتخابات مین جو پارٹیاں مراعات یافتہ طبقات کے ٹیکسوں میں اضافے اور دولت کی زیادہ منصفانہ تقسیم کی بات کرتے ہیں ان کے ووٹوں اور مقبولیت میں اضافے کے رحجانات دیکھے گئے ہیں۔اس سے اس رائے کو تقویت ملتی ہے کہ انسان جتنا زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب ہوتا جا تا ہے وہ اپنے گرد و بیش کے بارے میں زیادہ حساس ہوتا جاتا ہے۔وہ اپنے وسائل دوسرے انسانوں کے ساتھ بانٹنے کے امکانات پر ہمدردانہ غور پر تیار ہتا ہے۔

اسی خیال کے تحت سوویت یونین ٹوٹنے پر ایک امریکی دانشور نے بڑا دلچسب تبصرہ کیا تھا۔اس نے کہا تھا کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سوشلزم ناکام ہو گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سوشلزم ناکام نہیں ہوا بلکہ ہم ابھی تک اتنے مہذب نہیں ہوئے کہ سوشلزم جیسے جدید اور ایڈوانس نظام کو اپنا سکیں، جب ہم اس مقام پر پہنچ جائیں گے تو سوشلزم کو خود بخود اپنا لیں گے۔

اگرچہ یہ ایک ارتقائی نظریہ ہے جو انقلابی قبول نہیں کرتے لیکن اس کے پیچھے اچھی خاصی سائنس ہے جس کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ترقی یافتہ دنیا میں اب انقلاب کی بات کرنے والے بہت کم لوگ ہیں۔ نظریاتی بحران کے اس دور میں یہ بھی غنیمت ہے کہ عام لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد دولت کی منصفانہ تقسیم پر یقین رکھتی ہے۔ اگرچہ اس کے لیے وہ کسی انقلابی راستے کے بجائے بھاری ٹیکس اور اس جیسے دوسرے اصلاحی اقدامات کے حامی ہیں۔

اسی سوچ کی وجہ سے بائیں بازوں کی طرف جھکاو رکھنے والی سوشلسٹ پارٹیاں گاہے انتخابات میں کامیاب ہوتیں ہیں۔بیشتر ترقی یافتہ دنیا میں اگر پہلی نہیں تو دوسری یا تیسری بڑی سیاسی پارٹی بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی اور دولت کی مزید منصفانہ تقسیم کی حامی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہے ۔ حالانکہ وہاں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور غربت انتہائی خوفناک شکل میں موجود ہے۔لیکن وہاں پہلی ، دوسری تیسری ، چوتھی، پانچویں بڑی بلکہ بیشتر پارٹیاں دائیں بازوں کی طرف جھکاؤرکھتی ہیں یا پھر کنفیوزن کا شکار ہیں۔یہ نظریے کی موت کی علامت ہے۔

Comments are closed.