وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا؟

1897820_10203370145228592_520581265565077921_n

منیر سامی۔ ٹورنٹو

جو لوگ شام اور عراق میں ’داعش کی خود ساختہ اسلامی ریاست‘ کے معاملات پر سنجیدہ نظر رکھتے ہیں ، وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ گزشتہ چند سال سے اس فتنہ کو ملیا میٹ کرنے کے لیے امریکہ نے ایک بین الاقوامی اتحاد مجتمع کر رکھا ہے۔ اس اتحا د میں ، امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، بلجیم، ڈنمارک، فرانس، اردن، مراکش، ترکی، اور ہالینڈ شامل ہیں۔ مقامی فوجوں میں عراقی فوج اور اور عراقی کردستان کے تحت قبائلی جتھے اس جنگ میں شامل ہیں۔

کینیڈا ، دنیا بھر کی ان جنگوں میں جو امریکہ یا برطانیہ کی قیادت میں لڑی جاتی ہیں، دانستہ یا بادلِ ناخواستہ ان جنگوں میں حصہ لیتا ہے، اس کی وجہہ یہ ہے کہ یہ عالمی معاشی اور سیاسی معاملات میں ان دو ملکوں پر بہت انحصار کرتا ہے، اور اس کے اکثر مفادات ان ہی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ سو عراق میں اسلامی ریاست کے خلاف جنگ کے اس اتحاد میں بھی اس نے اپنے چھ جنگی طیارے، فضا میں تیل کی رسد کا ایک طیارہ، اور دو جاسوسی طیارے بھیج رکھے تھے۔ اس کے علاوہ اس نے وہاں فوجی تربیت کے ستر ماہرین اور زمینی کاروایئوں کے لیئے پانچ چھ سو فوجی بھی بھیج رکھے تھے۔ یہ ساری کاروائی گزشتہ حکومت کے وزیرِ اعظم کے اسٹیفن ہارپرؔ کی پالیسیوں کے تحت کی گئی تھی۔

گزشتہ انتخابات میں عام طور پر مسلمانوں، مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے کینیڈین شہریوں، اور کینیڈا میں امن پرستوں ، کے ووٹ حاصل کرنے کے لیئے ، حزبِ اختلاف کی لبرل پارٹی کے رہنما اور موجودہ وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈوؔ نے یہ اعلان کرنا شروع کیے کہ وہ کینیڈا کو اس فوجی اتحاد سے نکال لیں گے، اور عراق میں داعش کے خلاف جنگ اور بمباری میں مزید شرکت نہیں کریں گے۔ وہ اس طرح اپنے آپ کو کینیڈا کے ایک سابق وزیرِ اعظم جون کریچیاںؔ کی طرح کا رہنما ثابت کرنا چاہتے تھے جنہوں نے امریکی صدر بُشؔ کے صدام حسین کے خلاف اتحاد میں شرکت کرنے سے انکار کیا تھا۔

اسلامی ریاست کی دہشت گردیوں اور ظلم و ستم کے خلاف کینیڈا کی رائے عامہ کا خیال تھا کہ لبرل پارٹی اور اس کے رہنما دراصل خام خیالی میں مبتلا ہیں، اور زمینی حقیقتوں سے دور تر ہیں۔ اور یہ کہ اسلامی ریاست کا خطرہ مشرقِ وسطیٰ کے لیے ، عالمی امن کے لیے اور خود کینڈا کے تحفظ کے خلا ف اتنا شدید ہے کہ، لبرل پارٹی اور اس کے رہنما کو عوام کو اور خصوصاً مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے یہ سنہری خواب دکھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

گزشتہ انتخابات کے بعد جب جسٹن ٹروڈو ؔ وزیر ِ اعظم بنے تو انہیں فوراً ہی احساس ہو کہ انہوں نے جو خواب بُنے تھے اور جو سپنے عوام کو دکھائے تھے وہ شدید ترین خام خیالی ، اور نا قابلِ عمل پالیسیوں پر مبنی تھے۔ خود کینیڈا کے عوام کی اکثریت داعش یا اسلامی ریاست کے خلاف بمباری اور زمینی کاروایئوں کے حق میں تھی۔ رائے عامہ کے ایک تازہ ترین سروے کے مطابق سینتیس، 37 فی صد رائے دہندگان، عراق میں بمباری مشن کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، اور چھبیس، 26 فی صد اس میںمزید اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چونسٹھ ، 64 فی صد کی رائے ہے کہ اسلامی ریاست یا داعش کا خطرہ گھٹنے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح سینتیس 37 ِ فی صد کا کہنا ہے کہ ، کینڈا کا اپنے چھ جنگی طیاروں کو واپس بلانے کا نتیجہ منفی ہو گا ، جب کہ صرف اٹھارہ ، ٨اِ فی صد کے خیال میں اس کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔

رائے عامہ کے ان خیالات اور بین الاقوامی دباؤ کے تحت کینیڈا کا اسلامی ریاست کے خلاف بین الاقوامی اتحاد میں شامل رہنا ، سانپ کے منہ میں چھچھوندر والی بات ہو گئی، نہ نکلتے بن رہی ہے، نہ اگلتے بن رہی ہے۔

لیکن جب کسی جمہوری ملک کا اہم سیاستدان انتخابات جیتنے کے لیے خام خیالی پر مبنی وعدے کر لیتا ہے تو پھر ، رائے عامہ یا عالمی دباؤکے باجود، ’میں نہ مانوں ‘ کی رٹ لگام لیتا ہے، اور اپنی بات منوانے کے لیے بچوں کی طرح مچلنے لگتا ہے۔

سو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈوؔ نے یہ اعلان کیا ہے کہ، وہ اسلامی ریاست کے خلاف استعمال ہونے والے اپنے چھ طیارے واپس بلا لیں گے۔ فضا میں تیل کی رسد والا طیار ہ، اور دو جاسوسی طیارے وہیں رہنے دیں گے، اور اس کے علاوہ وہاں مزید دو سو فوجی روانہ کر دیں گے، اس طرح اب اسلامی ریاست کے خلاف کینیڈا کے فوجیوں کی تعداد آٹھ سو، 800 ہو جائے گی، یعنی اس میں پچیس، 25 فی صد اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ کینیڈا اس علاقہ میں بہبود کے لیے آئندہ تین سال میں ایک کھرب امریکی ڈالر بھی خرچ کرے گا۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم جہاں بھی ضروری ہوگا زمینی کاروایئوں میں شرکت کریں گے، اور ہر ہر طرح اسلامی ریاست کے قبضہ سے ہر ہر کلو میٹر زمین واپس لینے میں عراقیوں کی مدد کریں گے۔

سو کینیڈا کے وزیرِ اعظم کے سبزباغوں کے جھانسے میں آئے ہوئے ان مسلمانوں کو، جو ان سے توقع لگائے بیٹھے تھے ، جان رکھنا چاہیے کہ، شاید آپ کے ارمان نکلے ہیں لیکن ، پھر بھی کم ہی نکلے ہیں۔ان مسلمانوں کو یہ بھی جان رکھنا چاہیے کہ عالمی معاملات خصوصاً ان معاملات میں جن میں مسلمان غلط توقع لگائے رہتے ہیں، کینیڈا کے حکمراں وہی فیصلے کریں گے جو ان کے عالمی حلیف چاہیں گے، اور انہیں خود کینیڈا کے تحفظ پر بھی کڑی نظر رکھنا ہو گی۔کینیڈا کے مسلمانوں کو جان رکھنا چاہیے کہ داعش یا اسلامی ریاست، اسلام کی ایک نہایت شدت پسندانہ یا ظالمانہ تعبیر پر مبنی ہے۔ اس کا ملیامیٹ ہونا اور اسے جڑ سے اکھاڑنا ضروری ہے۔

اس سارے معاملہ کا ایک اچھا رخ یہ ہے کہ کینیڈا کے وزیرِ اعظم اپنی اس نئی پالیسی کو پارلیمان کے سامنے پیش کریں گے۔ ان سے پہلے کے وزیرِ اعظم ہارپرؔ، بھی یہی کرتے تھے۔ اور وہاں ان کی جماعت کی اکثریت اسے منظور بھی کر لے گی۔ یوں یہ تو ضرور ہے کہ کینیڈا کے وزیرِ اعظم اپنی خا م خیالی پر مبنی وعدہ کو پورا نہیں کر پائیں گے۔ اور لوگ کہتے رہیں گے کہ ’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا‘۔ لیکن اس وعدہ خلافی اور وعدہ شکنی کا نتیجہ کینیڈا، اور عالمی امن کے حق ہی میں نکلے گا، یو ں جسٹس ٹروڈوؔ صاحب کی لاج باقی رہ جائے گی۔

Comments are closed.