دہشت گردی: پاکستانی ریاست کا دہرا معیار

رحیم خان
hafiz-saeed-new

کم وبیش تین عشروں سے زیادہ عرصہ پر محیط پاکستانی تاریخ رجعت پسندی،انتہا پسندی اوردہشت گردی کی شدید دھند میں لپٹی ہوئی ہے۔ اس دوران مختلف مافیاز طاقت کے مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔یہ عمل ریاست اور اس کے اداروں کی مکمل سرپرستی اور آشیر باد سے پروان چڑھا ہے۔جس نے پاکستان جیسے متحرک معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔

اس کھیل میں افغانی اور کشمیری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔جبکہ چند درجن جاگیرداروں،جرنیلوں اور ملاؤوں نے اپنے تزویراتی و توسیع پسندانہ عزائم کی آڑ میں اربوں روپے کمائے ہیں۔دوسرے کے آنگن میں دہشت اگانے اور اپنے کھیتوں میں ہریالی کے خواب کی فلاسفی کو جب خطرہ لاحق ہوا تو پاکستانی اسٹبلیشمنٹ نے افغان بارڈر سے ملحقہ پہاڑوں پر بارود برسانا شروع کردیا۔

جب کشمیر محاذ پر طالبان ہی کے ہم خیال ان کے پسندیدہ ہیں۔پاکستان نے نے اپنے کنٹرول والے علاقے آزادکشمیر میں عالمی طور پر ڈکلیرڈ دہشت گرد تنظیموں لشکر طیبہ اور جیش محمد کو اپنی سرگرمیاں کرنے،فنڈز اکھٹے کرنے ،کروڑوں روپے مالیت کی کھالیں ،چندہ صدقات جمع کرنے کے علاوہ نوجوانوں کو دہشت گردی،جہاد اور دہگر مہمات کے لیے ذہن سازی کرنے کی مکمل آزادی دے رکھی ہے۔

جبکہ دوسری طرف آزادی پسند سیکولر عناصر اور تنظیموں کو سیاسی سرگرمیوں سے باز رکھنے کے لیے انھیں تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ انھیں پابند سلاسل بھی کیا جاتا ہے۔جس کی مثال حالیہ دنوں میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیرمین سردار صغیر اور ان کے ساتھیوں اکتوبر 1947کو کشمیر میں قبائلیوں کی یلغارکے خلاف پرامن احتجاج کرنے سے روک دیا گیا اور ان پر تشدد کے علاوہ انھیں کئی دنوں تک پابند سلاسل رکھا گیا۔

بربریت کا ایک اور دردناک واقعہ دو سال قبل پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر اس وقت پیش آیا جب آزادی پسند رہنماء عارف شاہد کو گردن میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ہندوستان کی جانب سے پاکستان کے سلامتی کے اداروں پر کشمیر میں دخل اندازی اور دہشت گردی کے الزامات لگتے رہے ہیں جن میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

لیکن حال ہی میں جب جیش محمد اور لشکر طیبہ کی جانب سے پھر سے دخل اندازی کو جواز بنا کر ہندوستانی فوج نے لائن آف کنٹرول پر بسنے والے معصوم کشمیریوں پر مارٹر گولے برسانے شروع کردئیے۔جس سے درجنوں معصوم کشمیریوں کو جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔دہشت کی اس آگ نے کنٹرول لائن سے ملحقہ علاقوں کو ہجرت پر مجبور کردیا ہے۔اورکنٹرول لائن کے قریب زندگی کے آثار ختم ہوتے جارہے ہیں۔

پنجابی جاگیرداروں کا پس منظر لیے ہوئے جرنیلوں نے پہلے افغانستان کو عالمی طاقتوں سے مل کر تارتار کیا۔خوب مال کمایا اور پاکستانی معاشرے میں نفرتوں کے بیج بونے میں کامیاب ہوئے ۔اور اب انتہاء پسند مودی کی سوچ ان کے لیے غیبی مددسے کم نہیں جس کو جواز بنا کرآزادکشمیر میں لشکر طیبہ کو منظم کیا جارہا ہے۔افغانیوں کی تین نسلوں کو ذلت میں ڈبونے کے بعد اب سارا تماشا کشمیر میں رچایا جا رہا ہے۔پاکستانی ریاست اپنے عوام کو بہتر سوشل انفراسٹرکچر دینے کی بجائے بتدریج سیکورٹی ریاست میں تبدیل ہوچکی ہے۔

جس کا حتمی نتیجہ ریاستی وسائل کو عملی کنٹرول میں لینے سے لیکر ریاستی اقتدار پر براہ راست قبضے کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔پاکستانی حکمران طبقہ جو اب ریاستی اداروں کی گرفت میں محصور ہو چکا ہے۔مذہبی شاؤنزم کو ابھار رہا ہے۔جس ہزاروں سال کی تاریخ پر محیط وادی سندھ کی شاندار تہذیب و تاریخ پر بد نما داغ لگاے جارہے ہیں۔کشمیر تاریخی،آئینی اور قانونی طور پر کبھی پاکستان کا حصہ نہیں رہا۔

اس کے ایک حصے آزادکشمیر کو منظم حکمت عملی کے تحت دہشت گردوں کی جنت بنانے کا خواب دیکھا جارہا ہے۔جس کو کشمیر کے آزادی پسند کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیں گے۔ایک طرف دہشت گرد تنظیموں جن کے مراکزپنجاب میں ہیں کو ہر طرح کا زہر اگلنے کی آزادی فراہم کی جارہی ہے۔

جبکہ آزادی پسندوں کو سیاسی سرگرمیوں اور تقریر سے روکنے کے علاوہ ان کے خلاف مسجدوں سے فتوے لگوائے جارہے ہیں۔ایسے ماحول میں سیکولر عناصرکے لیے زندگی اور زمین تنگ کی جارہی ہے۔ان کو شدید گھٹن اور خوف کی زندگی جینے پر مجبور کردیا گیا ہے۔

Comments are closed.