تہذیب و تمدن کو ترقی کے پاؤں تلے مت کچلئے

قمر ساجد

56381873826c3

یہ صحیح ہے کہ بڑے بڑے پراجیکٹ انسانی فلاح کے لیے بنائے جاتے ہیں اور بنانے والوں کے ذہن میں انسانی بھلائی مقدم ہوتی ہے تاہم جب یہ پراجیکٹ عجلت اور پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر شروع کئے جاتے ہیں تو ان کی وجہ سے انمول اور تجدید نہ ہونیوالے نقصا نات جنم لیتے ہیں۔


نئے ڈیم ، بڑی بڑی عمارات ، سڑکوں کی تعمیر، پہا ڑوں کی شکست و ریخت اور جنگلات میں گزرگاہیں وغیرہ پرندوں اور جانوروں کی گزرگاہوں اور رہائشوں  اور تاریخی ورثوں کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں اور بعض جانور اور پرندے تو صفحہءہستی سے مٹ چکے ہیں ۔گہری اورحساس سوچ رکھنے والوں کے نزدیک یہ نقصان انسان کا تاریخی نقصان ہے جسے انسان کبھی نہ پورا کر پائے گا۔

پنجاب گورنمنٹ کا اورنج لائن منصوبہ ، جیسا کہ کہا جا رہا ہے، لاہور کے قدیم تاریخی ورثوں چوبرجی، زیب انساء کا مقبرہ، لکشمی بلڈنگ، جی پی او، ایوان اوقاف، سپریم کورٹ رجسٹری کی عمارات، سینٹ اینڈریو کا چرچ، پل موج دریا اور شالا مار باغ سمیت گیارہ تاریخی مقامات کی تباہی پر تعمیر ہو گا اور انسانوں کی آیندہ نسلیں میٹرو ٹرین میں بیٹھے ہوئے یہ احساس تک نہ کر پائیں گی کہ ان کی ٹرین کے پہئے ان کے اکابرین کی محنت اور سوچ کی تعمیر کی تخریب پر چرچرا رہے ہیں نیز ان عمارات کو دیکھنا تو درکنار ان کے لئے سوچنا بھی ممکن نہ رہے گا۔

یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی منزل پر پہنچنے کا عزم باندھنے سے پہلے ضروری ہے کہ مسافر جہاں سے چل رہا ہے اس جگہ کا تعین کرے۔ تاریخ میں انسان کی ترقی کے لئے جہاں ہم آگے کے نشانات باندھتے ہیں وہاں ہم سابقہ نشانات کو بھی ریفرنس کے طور پر قا ئم رکھتے ہیں تاریخی عمارات اور ورثے انہیں نشانات کا کام دیتے ہیں اور با شعور قومیں ان نشانات کو قائم رکھنے کے لیے بجٹ کی خطیر رقم مقرر کرتی ہیں اور ایک طرح سے یہ سودا نقصان میں بھی  نہیں ہے ٹورزم کی شکل میں بہت سے مما لک اس قسم کی عمارات سے بیش بہا دولت کما رہے ہیں

اونج لائن منصوبہ 27.1 کلومیٹر لمبی لائن پر مشتمل منصوبہ ہے جو ڈھائی لاکھ افراد کو روزانہ آسان سفر مہیا کرے گا یہ خوش آئند بات ہے اس پر 165 ارب روپیہ خرچ آئے گا جو شائد پنجاب کی عوام ادا کردے مگر اس سے ہونے والا تا ریخی عمارات کا نقصان وہ یقینا”  کبھی  نہ بھر پائیں گے۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ بہت اچھے منتظم اور وژن والے انسان ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اکثر اپنے منصوبے ذاتی منصوبہ بندی اور عجلت میں کرتے ہیں اور ان کے نزدیک خدمت سے زیادہ سیاست اہم رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ میٹرو منصوبہ بناتے وقت تاریخی عمارات کو زیر نظر رکھا ہی نہیں گیا وگرنہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ لاہور کی ترقی کا وژن رکھنے والا انسان لاہور کے لاہور ہونے کا زعم مٹا نے کا سہرا اپنے سر باندھے
یوں بھی ہر مسئلے سے نمٹنے کے لیے سو طریقے موجود ہوتے ہیں کیا ہم اپنی تاریخی املاک کو بچانے کے لیے  دیگر آپشنز پر غورکرنے کے لیے تحمل سے کام نہیں لے سکتے؟ ذرا کچھ دیر ٹھہر کر غورکرنے کی تکلیف گوارا نہیں کرسکتے؟

جناب وزیر اعلیٰ صاحب ترقی کیجیے مگر ترقی کے پاؤں تلےاس بے سہارا تمدن کو مت کچلیے۔ تاریخ کے اصل نصاب سے تو ہم پہلے ہی منہ موڑ چکے ہیں اس کے بچے کھچے زمینی نشانات کو تو باقی رہنے دیجیے۔ طالبان جو کام جہالت کی وجہ سے کرتے تھے آپ وہی کام ترقی کے نام پر کر رہے ہیں۔۔

One Comment