سوات میں ٹارگٹ کلنگ اور سکیورٹی فورسز کی ناکامی

fazal rabi

فضل ربی راہی

سوات میں ’’کامیاب فوجی آپریشن‘‘ کے بعد نامعلوم ٹارگٹ کلرز ایسے سرگرم ہوئے ہیں کہ کامیاب آپریشن کو ساڑھے چھے سال ہوچکے ہیں لیکن ٹارگٹ کلنگ کے شکار درجنوں بے گناہ سواتیوں کے قاتلوں میں سے کسی ایک کو بھی ابھی تک گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔

ٹارگٹ کلنگ کا ہدف وہ افراد بن رہے ہیں جو سوات میں مقیم فوج کی طرف سے قائم کی گئی۔ امن کمیٹیوں کے ممبرز ہیں،مقامی پولیس اہل کار ہیں، مقامی سیاست دان ہیں اور یا معاشرے کے وہ چنیدہ افراد ہیں جوسوجھ بوجھ رکھتے ہیں، سوات کے مخصوص حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے مقامی انتظامیہ اور سوات میں مقیم فوج کے اعلیٰ حکام سے چبھتے ہوئے سوالات پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں۔

جب بھی کسی شہری، پولیس اہل کار یامقامی سیاست دان کو نامعلوم افراد گولی کا نشانہ بناتے ہیں تو سوات میں مقیم فوج کے جوان پورے علاقہ کی ناکہ بندی کرتے ہیں، نامعلوم قاتلوں کو پکڑنے کے لیے گھر گھر تلاشی شروع کرتے ہیں اور بعض مقامات پر نئی سکیورٹی چیک پوسٹیں قائم کرتے ہیں۔ سوات کے ایک نہایت اہم قصبہ چارباغ اور اس کے قرب و جوار کے مکینوں کو گزشتہ دنوں سے اسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

چند دن قبل نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے مسجد کے اندر نماز پڑھنے والے سپیشل پولیس کے ایک اہل کار کو قتل کر دیا تھا جس کے ردِ عمل میں فوج نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کیاجس میں 60 سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ سرچ آپریشن کی وجہ سے چارباغ بازار کی زیادہ تر دکانیں بند رہیں۔ فضا گٹ، ملم جبہ اور چارباغ میں سکیورٹی چیک پوسٹیں قائم کرکے سخت چیکنگ کا آغاز کردیا گیا ہے جس سے پورے علاقے میں ٹریفک جام رہی اور علاقے کے مکینوں اور سوات آنے والے سیاحوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

یوں تو سوات میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ کامیاب فوجی آپریشن کے بعد مسلسل چلا آ رہا ہے لیکن نئے سال 2016ء میں اس میں خاصی تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔12 جنوری کو تحصیل کبل، تھانہ کانجو کی حدود میں واقع علاقہ ڈھیرئ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے دو پولیس اہل کار عبدا لرزاق اور حضرت عثمان جاں بحق ہوئے۔ دونوں اہل کار تھانہ کانجو میں تعینات تھے۔

انیس جنوری کو ڈیوٹی پر جانے والے سب انسپکٹر وحید اللہ پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس سے وہ شدید زخمی ہوگیا۔22 جنوری کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے دو افراد کو ابدی نیند سلا دیا۔ ایک واقعہ رات کے وقت تحصیل مٹہ کے علاقہ دارمئی میں پیش آیا جس میں بنارس خان نامی مقامی شخص کو گھر سے باہر بلا کر گولیوں سے بھون دیا گیا جب کہ دوسرا واقعہ مینگورہ کے نواحی علاقہ قمبر میں پیش آیا جہاں نامعلوم افراد نے گھات لگاکر اپنے گھر جانے والے شخص عطاء اللہ کوفائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔

اٹھائیس جنوری کو سوات کے ایک مشہور گاؤں کبل میں گھر میں گھس جانے والی نقاب پوشوں کی فائرنگ سے میاں بیوی ہلاک اور بیٹا شدید زخمی ہوگیا۔ صرف ایک مہینے کے دوران پانچ بے گناہ افراد نامعلوم قاتلوں کے ہاتھوں اپنی قیمتی جانوں سے محروم ہوگئے جب کہ ایک پولیس اہل کار شدید زخمی ہوگیا۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ جب کسی بے گناہ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو سوات میں مقیم فوجی حکام پورے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کرتے ہیں، چیک پوسٹوں پر گاڑیاں روک کر سخت تلاشی لیتے ہیں جس کی وجہ سے سڑکوں کی دونوں جانب گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور عوام کو ایک طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد تلاشی کے مرحلے سے گزر کر اپنی منزل مقصود کی طرف روانگی کا پروانہ مل جاتا ہے۔

لیکن اس کے باوجود سکیورٹی اہل کار نامعلوم قاتلوں کی گرد تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔ تاہم اس کے نتیجے میں کئی دنوں تک علاقے کے لوگ ایک دردناک عذاب میں ضرور مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کاروباری مراکز اور اپنے گھروں کو آتے جاتے انھیں مجرموں کی طرح تلاشی دینی پڑتی ہے اور سکیورٹی اہل کاروں کے نامناسب رویے کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

سوات میں اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پورے علاقے میں فوج موجود ہے۔ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کے علاوہ ضلع بھر کے تمام اہم علاقوں میں مستقل چیک پوسٹیں قائم ہیں۔ یہاں تک کہ مالاکنڈ ڈویژن کے داخلی اور خارجی مقام درگئی میں قائم چیک پوسٹ پر تو ہر آنے اور جانے والی گاڑی کے ایک ایک مسافر کی شناختی دستاویزات آن لائن چیک کی جاتی ہیں۔ ان کے سامان کی مکمل تلاشی لی جاتی ہے اور حساس سکینروں سے گزرنے کے بعد انھیں مالاکنڈ ڈویژن کی حدود میں داخل ہونے اور ان سے باہر نکلنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

درگئی چیک پوسٹ پر چیکنگ کا معیار اتنا بلند رکھا گیاہے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں داخل ہونے اور اس سے باہر جانے والے افراد یوں محسوس کرتے ہیں جیسے وہ وطن عزیز کے کسی علاقہ کی بجائے کسی غیرملک میں داخل ہو رہے ہوں۔

پاک فوج اور حکومتی زعماء مسلسل اس بات کا کریڈٹ لیتے رہے ہیں کہ انھوں نے سوات میں دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچا کر امن قائم کردیا ہے لیکن سوات میں گزشتہ کئی سالوں سے نہ صرف ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، وہاں پہ نامعلوم افراد مخیر لوگوں سے بھتہ وصول کررہے ہیں بلکہ اَپر سوات میں رات کی تاریکی میں گھروں میں ڈاکے بھی پڑ رہے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ناخوش گوار واقعات کو قومی پریس میں رپورٹ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مقامی صحافیوں کو سختی سے ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ وہ ایسے واقعات کے علاوہ سوات میں ظہور پذیر ہونے والے بعض دیگر ’’حساس معاملات‘‘ کی رپورٹنگ میں خصوصی احتیاط برتیں۔

یوں لگتا ہے جیسے اہل سوات میں خوف و ہراس پھیلانے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہو اور اس کے ذریعے سوات میں حالات کی پیہم خرابی کا پیغام دینا مقصود ہو۔ اس طرح کے واقعات کا تسلسل عوام کے ذہنوں میں نہ صرف غم و غصہ پیدا کر رہا ہے بلکہ ان کے ذہنوں میں یہ سوالات بھی اُبھر رہے ہیں کہ پاک فوج کی موجودگی کے باوجود ایسے ناخوش گوار واقعات مسلسل کیوں رونما ہو رہے ہیں؟

اور جب کسی بے گناہ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کے بعد بے نتیجہ سرچ آپریشنوں میں مقامی آبادی کو کیوں اذیت میں مبتلا کردیا جاتا ہے؟ اہل سوات کا یہ سوال حق بہ جانب ہے کہ سوات میں فوج کی موجودگی ان کے لیے باعثِ رحمت ہے یا وہ ایک نہ ختم ہونے والی زحمت کا سبب بن رہی ہے؟

Comments are closed.