ممتاز قادری کی پھانسی۔۔۔ کیا یہ جوڈیشل قتل ہے؟

ارشد نذیر

0.10001
آج صبح جب مجھے ممتاز قادری کی پھانسی کے بارے میں معلوم تھا تو میں حسبِ معمول ’’سماجی تضادات‘‘ کی فائلیں، یعنی کہ مقدمات کے بریف، بغل میں دابے ہائی کورٹ کی طرف رواں دواں تھا۔

میرے خیال میں ’’مقدمات‘‘ کے لئے ’’ سماجی تضادات‘‘ کی اصطلاح نہایت ہی موزوں اور مناسب ہے ۔ یہ اصطلاح اپنے آپ میں ہمارے بہت سے سماجی اور سیاسی تضادات کے لئے خود وضاحتی اصطلاح ہے۔ ہمارے ملک میں تو کچھ زیادہ ہی دلچسپ اور خود وضاحتی ہے ۔

ممتاز قادری کا کیس بھی ’’عدالتی اور سماجی تضادات‘‘ کا ایک کھلا کیس تھا۔یہ اس لئے کہ آج ہی اسلام آباد جسے ملک کے دارلحکومت اور انتہائی ماڈرن شہر ہونے کا شرف حاصل ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شہر سب سے زیادہ پڑھے لکھوں کا شہر بھی ہے ۔ یہاں ملک کی کریم آباد ہے۔ لیکن ذرا غور فرمائیے کہ انتہائی جمہوری اور قانون کی پاسدار کمیونٹی یعنی اسلام آباد بار کے وکلاء نے آج ہی اس فیصلے کے خلاف یومِ سیاہ مناتے ہوئے ممتاز قادری کی پھانسی کو’’ جوڈیشئل قتل‘‘ قرار دیا ہے ۔

یہ کس طرح سے ’’جوڈیشل قتل‘‘ ہے فی ذاتہ ایک حساس سوال ہے ۔ عدالت اس پر سوو موٹو لے یا نہ لے لیکن میری اس رائے کی مخالفت ضرور ہو سکتی ہے کیونکہ مخالفت کرنے والوں کا یہ جمہوری حق ہے اور ایسے معاملات پر اس ملک میں جمہوریت نظر ہی صرف مُلا طبقے میں آتی ہے ۔ باقی بچارے دُبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ عدالت کے لئے بھی یہ ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ بار کے جنرل سیکریٹری کی طرف سے اس طرح کے الفاظ کے استعمال پر کچھ وضاحت طلب کرتی ہے یا نہیں؟ لیکن خاطر جمع رکھئے ! ابھی ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا۔ اسلام آباد میں ایک لال مسجد کا مولوی عزیز بھی موجود ہے جو اس طرح کے فیصلوں کے باوجود آج بھی دندناتا پھرتا ہے۔

جہاں تک ممتاز قادری کے کیس کے حوالے سے روشن خیالوں کے نکتہِ نظر کا تعلق ہے۔ وہ تو بس یہی واویلاکرتے رہے ہیں کہ اِس کو پھانسی ہونی چاہئے۔ رجعت پسندوں اور مذہبی شدت پسندوں کا نکتہِ نظر تو پورے ملک کے سامنے ہی ہے ۔ رجعت پسند ، مذہبی شدت پسند اور مذہبی دہشت گرد اس حوالے سے ریاست کو مانتے ہیں اور نہ ہی عوام کی جمہوری رائے کا احترام کرتے ہیں ۔ اس پر تفصیلی بات بعد میں کرتے ہیں ۔

پہلے میں یہ بتادوں کہ میرے خیال میں ممتاز قادری کی پھانسی کا حکومتی فیصلہ بہت درست اور مناسب ہے۔ حکومت نے اس پر عمل کرایا ہے ۔ اس پر اسے داد بھی دی جانی چاہئے۔ لیکن یہ خیال کہ یہ فیصلہ ’’ ریاستی بیانیہ‘‘ میں تبدیلی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ابھی قبل ازوقت بھی ہے اور بعید از قیاس بھی کیونکہ ہماری ریاست کا آج بھی غالب حصہ جو مقننہ ، قانون نافذ کرنے والے اداروں ، عدلیہ اور فوج میں موجود ہے مذہب اور اس سے متعلق رجعتی خیالا ت کے بارے میں کنفیوز ڈہے ۔

اس پر ان کا موقف ایک درمیانہ درجے کے ’’مولوی ‘‘ جو خود کو ’’مفتی‘‘ یا ’’عالم‘‘ یا ’’علامہ‘‘ کہلاتا پھرتا ہے سے زیادہ بعید نہیں ہے ۔ ہماری اس ریاست اور جمہوریت نے آج بھی مولوی کے لئے میدان کھلا چھوڑا ہوا ہے۔ مولوی ’’مذہبی دل آزاری ‘‘ جیسی ’’جمہوری اور بنیادی انسانی حقوق کی اصطلاحات ‘‘ کی آڑ میں جب بھی اور جس کے خلاف بھی چاہے کوئی فتویٰ صادر کر دے۔ اُسے کافر و زندیق قرار دے دے۔ اُسے سماج کی ناپسندیدہ ہستی قرار دے دے۔ اُسے جان سے مار دے ۔ اُس کے عزیز و اقارب اور دوستوں کو اُس کا مونس و ہمدرد سمجھ کر جان سے مار نے کی دھمکیا ں دے اور جواباً یہ تقاضا کرے کہ وہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس ریاست میں مذہبی دلآزاری کو قطعاً برداشت نہیں کرے گا۔ وہ ریاست کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔ اس ملک میں اسلام سے متصادم کوئی قانون قبول کیا جائے گا اور نہ ہی کوئی عدالتی فیصلہ ۔

ریاست اُس سے کوئی باز پرس نہیں کرتی اور نہ ہی کر سکتی ہے کیونکہ ایک کمزور جمہوری عمل میں ایسے عناصر کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرمایہ داری جمہوریت میں یہ لوگ ایسی ریاستی مشینری کے دست و بازو ہوا کرتے ہیں۔ کالے دھن میں یہ سرمایہ داروں کے دست و بازو ہوتے ہیں۔ مذہبی جنونی ایسے عناصر کے ساتھ مل کر سیاست کرتے ہیں۔

جہاں تک عوام کا مذہب سے تعلق اور رشتہ ہے ۔ وہ انتہائی سادہ اور معصومانہ ہے جو انسان کی حاجت روائی تک محدود ہے۔ اس کی اس سے بڑی اور کون سی دلیل ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں آج تک کوئی مذہبی جماعت سیاسی طور پر ملکی سطح کی سیاسی اور حکومتی جماعت بن کر نہیں ابھری ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ذوالقفار علی بھٹو نے جب الیکشن ’’ایک طرف روٹی ہے‘‘ اور ’’ایک طرف قرآن ہے ‘‘ کے نعرے سے لڑا تو پاکستان کی تمام مذہبی جماعتیں الحاق کے باوجود بھٹو سے وہ الیکشن ہار گئیں۔

لہٰذا عوام کا اللہ ، رسول اور مذہب سے جو رشتہ موجود ہے ، ہمارے مولوی کو اس کا ادراک ہی نہیں ہے ۔ مولوی نے یہاں سیاسی مذہب پھیلایا ہے اور آج تک ریاست اس سازش کا حصہ رہی ہے۔ اب بین الاقوامی سامراجی کردار بدل رہے ہیں ۔ ہماری ریاست بھی بے دلی سے ان بدلے ہوئے حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کرمولویوں کے فہمِ اسلام سے کسی قدر دست کش ہو رہی ہے۔

یہ بات بھی واضح ہے کہ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو مولویوں کی سیاست میں اس طرح دخل اندازی کو ختم کرنا ہوگا۔ یہ سفر ابھی طویل بھی ہے اور کٹھن بھی ۔ اس کے لئے ہمیں اپنے نظامِ تعلیم کو بھی سیکولر بنانا ہوگا۔ بصورت دیگر آج جو تصویر ہمارے سامنے ہے ، وہ مولویوں کا یک طرفہ آزادیِ اظہار ہے۔ جو وہ بڑی دیدہ دلیری سے کرتے ہیں اور انہوں نے ممتاز قادری کے فیصلے پر بھی کیا ہے۔ موٹر ویز اور ٹریفک بلاک کردیئے گئے ہیں۔ مختلف شہروں میں احتجاج کئے جارہے ہیں۔

لیکن انہوں نے اس یک طرفہ جمہوری ٹریفک میں ریاست کے سامنے اپنی سیاسی طاقت کا اظہار کرنے کی بھی کوشش کی ہے ۔ اس کے مقابلے میں ہمارے اس جمہوری ملک میں سیکولر لوگوں کو اتنا مضبوط نہیں ہونے دیا جاتا کہ وہ اس طرح کی آزادیِ رائے کا اظہار کر سکیں۔ مولوی ’’مذہبی جذباتی کی برانگیختگی ‘‘ اور ’’مذہبی دلآزاری‘‘ جیسے لفظ استعمال کرکے احتجاج اور آزادیِ اظہار جیسے تمام سیاسی ، شہری اور سماجی حقوق دیدہِ دلیری سے حاصل کر جاتا ہے لیکن وہ یہ حقوق دیگر کسی شخص کو استعمال نہیں کرنے دیتا۔

جب ’’مذہبی جذبات کی برانگیختگی‘‘ ، ’’مذہبی دل آزاری‘‘ اور اس طرح کی اصطلاحات کی اُن سے وضاحت طلب کرنے کے لئے اسلامی تاریخ اور فقہ سے ہی سوالات کئے جائیں تو اُس وقت پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کس حد تک رواداری کے کلچر کو دل سے قبول کیا ہے۔دوسرے بات یہ ہے کہ مولویوں کے آپسی اختلاف زیادہ دور کی بات نہیں ہیں ۔

ماضی قریب میں ہی اسلامی نظریاتی کونسل کے دو ’’جید علمائے کرام‘‘ جس طرح سے آپس میں دست و گریبان ہوئے ہیں اور ہماری ریاست کو یہ سمجھ نہیں آیا کہ دورِ جدید میں اس طرح کے ادارے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر ہر سال رمضان کے چاند دیکھنے پر جھگڑے کے مسئلہ پر ہماری ریاست کو سمجھ نہیں آتا کہ چاند دیکھنے میں ہمارے علماء کا کیا کراد ہو سکتا ہے ؟ اگر حکومت کی ایک ایم این اے یہ کہہ کر کم سنی کی شادی کے بل کو اسمبلی میں لانے سے باز و ممنوع رہ جاتی ہیں کہ اس پر شرعی فیصلہ آگیا ہے تو پھر اسمبلی یا قانون سازی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟

جس ملک میں راشد رحمان جیسا ہیومن رائٹس کا سرگرم رکن دن دہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے اور یہاں کی نام نہاد سول سوسائٹی اور ہیومن رائٹس کے چیمپین اُس کے کیس کے مدعی یا وکیل تک بننا گوارا نہیں کرتے ؟ جس ملک میں ڈی این اے پر نام نہاد مفیتوں کے فتاوے جاری ہو جائیں، جس ملک میں آئین کی 62 اور 63 شقوں پر تماشا بن جائے اور یہ فیصلہ نہ ہوسکے کہ اگر اس ملک میں صادق اور امین کی کوئی تعریف متعین نہیں ہو سکتی تو پھر ان شقوں کو آئین میں ڈالا کیوں گیاہے؟

جس ملک میں خواتین کی ’’چھترول ‘‘ جیسے موقف کو عین اسلامی موقف کے طور پرپیش کیا جاتا ہے اور اِس پر کوئی بات نہ کر سکے، وہاں ان مولویوں کے وسیع تر معاشی اور سیاسی مفادات اتنی آسانی سے ختم کرنا ذرا مشکل ہے۔ علاوہ ازیں ان کو ختم کرنے کے لئے ’’کچھ دوست اسلامی ممالک ‘‘ کی دخل اندازی بھی ختم کرنی ہوگی۔

یہ ہم سب کے لئے امتحان ہے ۔ تمام تر صورتحال کے باوجود ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اب مولویوں کا بیانیہ نہیں چل سکتا۔ نہ صرف حکومت کے لئے مولویوں کے بیانیہ سے جان چھڑانا بین الاقوامی تناظر میں ضروری ہو گیا ہے بلکہ حکومت کے لئے یہ بھی ضروری ہو گیا ہے کہ وہ نظامِ تعلیم کو سیکولر بنائے ۔

One Comment