ہندوستان کی پہلی روشن خیال مسلم خاتون ۔۔۔عطیہ فیضی

جاوید اختر بھٹی

xem73rad_medium


ہم علامہ شبلی نعمانی اور علامہ اقبال کا ذکر تو بڑے احترام سے کرتے ہیں لیکن ان کے ساتھ جب عطیہ فیضی کا ذکر آتا ہے تو معنی خیز مسکراہٹ ہمارے چہرے پر نظر آتی ہے۔ عطیہ فیضی ہمارے قدامت پسند معاشرے میں روشن خیالی کی پہلی کرن تھی۔ جس کے ساتھ ہمارا رویہ بھی اچھا نہیں رہا۔ جس کی علمیت کو شبلی اور اقبال نے تسلیم کیا، اسے ہم نے نظر انداز کر دیا۔ یہ وہی عطیہ فیضی ہے کہ جس نے اپنے شریک سفر کے لیے ایک مصور رحمین کا انتخاب کیا۔

عطیہ فیضی (1877ء– 1967ء) ترکی کے شہر استنبول میں پیدا ہوئیں (وہ 90برس تک زندہ رہیں) جہاں ان کے والد حسن علی فیضی کا روبار کی غرض سے مقیم تھے۔ ان کی والدہ امیر النساء بیگم نہ صرف ادبی ذوق کی حامل تھیں بلکہ صاحبِ تصنیف تھیں۔ اس خاندان کے بانی طیب علی نے اردو کی اولین خود نوشت لکھی ۔ انہوں نے اپنی مادری زبان گجراتی کو ترک کر کے اردو کو اپنانے کا فیصلہ کیا اور اپنے خاندان میں روزنامچہ متعارف کرایا۔ جسے ’’کتاب اخبار‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس روزنامچے کو بعد میں ان کی اولاد نے جاری رکھا۔ امیرالنساء بیگم نے بھی جو طیب علی کی پوتی تھیں۔انہوں نے اپنے خاندان کے تمام افراد کے لیے کچھ نہ کچھ لکھنا لازم قرار دیا تھا۔

عطیہ فیضی کی بڑی بہن زہرا بیگم ، تہذیب نسواں، خاتون اور عصمت کی اشاعت کے آغاز سے ہی ان رسائل میں مضامین لکھا کرتی تھیں۔ زہرا بیگم سے بھی شبلی کے قریبی روابط تھے۔ ان کے نام شبلی کے خطوط ہیں۔ 

عطیہ کی تیسری بہن نازلی رفعیہ بیگم بھی صاحبِ تصنیف تھیں۔ وہ نواب حنجیرہ کی بیگم تھیں۔ ان کا تحریر کردہ سفر نامہ ’’سیر یورپ‘‘ اردو میں خواتین کے لکھے گئے اولین سفر ناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ عطیہ فیضی کا خاندان سلیمانی بوہرہ جماعت سے تعلق رکھتا تھا۔ 

’’زمانۂ تحصیل ‘‘ عطیہ فیضی کی واحد اردو تصنیف ہے۔ پہلی بار یہ کتاب 1921ء میں شائع ہوئی۔ 2010ء میں اس کتاب کو محمد یامین عثمان نے مرتب کیا اور اس کے حواشی لکھے۔ عطیہ فیضی شادی کے بعد اپنا نام عطیہ بیگم رحمین لکھنے لگی تھیں۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ان کے اسی نام کے ساتھ آیا لیکن موجودہ ایڈیشن پر ان کا معروف نام عطیہ فیضی ہی لکھا گیا ۔ عطیہ فیضی کی باقی تمام کتابیں انگریزی میں ہیں۔

’’زمانہ تحصیل‘‘ کی سب سے بڑی خصوصیت اور اہمیت یہ ہے کہ اس کی مصنفہ ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتی تھیں۔ جہاں گھر میں خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم کا رواج نہیں تھا۔ اسے جائز نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مسلم گھرانے اپنی بچیوں کو حصول علم کے لیے گھر سے باہر بھیجنے کے لیے رضا مند نہیں ہوتے تھے۔ بیسویں صدی کی ابتداء میں کسی مسلمان لڑکی کے لیے یہ محض خواب ہی میں ممکن ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے گھر سے ہی نہیں بلکہ اپنے وطن سے بھی دور سات سمندر پار جا کر تعلیم حاصل کر سکے۔

ایسے ماحول میں عطیہ فیضی نہ صرف لندن کے لیے روانہ ہوئیں بلکہ روانہ ہونے کے دن سے لے کر اپنے قیام کے آخری ایام تک مسلسل اپنی سرگرمیوں سے خواتین کو آگاہ رکھنے کے لیے روزمرہ کی روداد بھی لکھتی رہیں تاکہ ’’تہذیب نسواں‘‘ کے ذریعے سے مسلم خواتین تک ان کے حصولِ علم کی جدوجہد کی تفصیلات پہنچتی رہیں۔ اگرچہ 1906ء میں ’’تہذیب نسواں‘‘ کا دائرہ اشاعت بہت وسیع نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی یہ رسالہ کئی مسلم گھرانوں میں باقاعدگی سے پڑھا جاتا تھا۔

’’زمانہ تحصیل‘‘ شائع ہونا شروع ہوا تو بہت دلچسپی سے پڑھا گیا تھا ۔اور یہ عطیہ بیگم کی شہرت کا باعث بنا اور نہ صرف ہندوستان بلکہ لندن تک ان کی شہرت پہنچ گئی تھی۔ جس کا تذکرہ مصنفہ نے ’’زمانہ تحصیل‘‘ میں کیا ہے۔ جب علامہ اقبال لندن میں ان سے پہلی بار ملاقات کے لیے آئے تو انہوں نے بھی اس روزنامچے کی ’’تہذیب نسواں‘‘ میں اشاعت اور اس کی دلچسپی و مقبولیت کا ذکر کیا تھا۔ 
عطیہ فیضی نے اس کتاب کا مختصر دیباچہ تحریر کیا۔
’’
میں 1906ء ___میں گورنمنٹ اسکالر شپ لے کر لندن گئی تھی۔ مقصدِ سفر یہ تھا کہ معلمہ بن کر وہاں سے واپس آؤں اور اپنی ہم وطن بہنوں کی خدمت کروں لیکن وہاں پہنچ کر علیل ہو گئی اور تیرہ (13)مہینے پردیس میں بہ مشکل گزار کر بے نیل مرام واپس آگئی ۔ 

قیام لندن کے زمانے میں جو خطوط میں نے اپنے گھر بھیجے تھے۔ ان کا انتخاب میری ہمشیرہ محترمہ زہرا بیگم خواتین کی دلچسپی کے لیے اخبار تہذیب نسواں میں وقتاً فوقتاً شائع کرتی رہتی تھیں۔ جو بہت شوق سے پڑھے گئے۔ اس لیے میرا ارادہ ہوا کہ یہ خطوط کتابی صورت میں چھپوا کر شائع کروں لیکن بعض وجوہ سے یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا۔ چونکہ بہنوں کا تقاضا برابر جاری ہے۔ اس لیے اب یہ مجموعہ شائع کرتی ہوں۔ اگر اس کتاب میں کچھ نقائص ہوں تو درگزر فرمائے جائیں۔‘‘ (عطیہ بیگم رحمین)۔

یہ 1906ء ___کا حیرت کدہ ہے۔ یعنی آج سے ایک سو دس سال پہلے کا زمانہ ، جب ایک روشن خیال ہندوستانی لڑکی لندن میں تعلیم حاصل کرنے گئی۔ آزادی کے بعد یہ لڑکی (خاتون) پاکستانی ہو گئی۔ 1967ء میں کراچی میں آسودہ خاک ہوئی۔ افسوس کہ یہ خاتون اپنی فہم و فراست اور علمیت سے جو فائدہ ہمارے معاشرے کو دے سکتی تھیں۔ وہ ممکن نہ ہوا۔ وہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرتے ہوئے تنہائی اور بے بسی میں اس دنیا سے گزر گئیں۔

’’زمانہ تحصیل‘‘ سے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں۔ ان میں ایسے لوگوں کا ذکر آتا ہے۔ جن سے ہم زیادہ واقفیت رکھتے ہیں۔ 
_______
شاید اب تک کُل اخباری بہنوں میں ایک بات کا چرچا پھیل چکا ہو گا کہ جو اس کا اسکالر شپ ہماری گورنمنٹ نے ایک ہندو بی بی اور ایک مسلمان بی بی کے لیے دینا تجویز کیا ہے۔ اس میں ایک مسز متر بنگالی ہندوانی اور دوسری عاجزہ کو منتخب کیا ہے۔ اس کے متعلق ڈائریکٹر جنرل بنگال سے خط و کتابت کر کے معاملہ طے ہو کر یہ قرار پایا کہ پہلی ستمبر کو ہم پی اینڈ او مول دیویا نامی آگبوٹ بحری جہاز میں دو برس معلم کا کام سیکھنے کے لیے ولایت روانہ ہوں۔ 
_______
یکم ستمبر 1906ء ___اب میں آپ کو یہ بھی بتاؤں کہ میرے ہمراہی کون کون ہیں۔ خوش نصیبی سے میرا منجھلا بھائی ڈاکٹر علی ازہر بیگ، ڈاکٹری میں دوبارہ زیادہ بڑا درجہ حاصل کرنے کے لیے اس موقع پر میرے ساتھ جا رہا ہے اور طیب علی اکبرمیرا بھتیجا ، اور وہ مسز متر جو ہندواسکالر ہیں اور جنہیں میرے مطابق سرکاری اسکالر شپ ملا ہے اور مس داس ایک بنگالی دولت مند بی بی صرف اپنے شوق سے معلمہ کا کام سیکھنے کے لیے اسی ٹریننگ کالج میں ، جس میں ہمارے لیے سرکار نے بندوبست کیا ہے ہمرا ہ ہیں۔
_______
چھبیس؍جنوری1907ء ___مسٹر یوسف علی (غالباً عبداللہ یوسف علی) کل یا پرسوں ہندوستان کے لیے روانہ ہوں گے۔ ان کا آخری لیکچر اتنا عمدہ نہیں تھا ۔ جیسا ہمیشہ ہوتا تھا ۔ اس میں ہندیوں کو اپنے علم کی طرف شوق دلایا۔ کتنا الٹا زمانہ آیا ہے۔ 
_______
چار؍مارچ1907ء ___مسٹر عبدالقادر نے (سر شیخ عبدالقادر ان دنوں لنکنز ان میں بارایٹ کی تکمیل میں مصروف تھے) حافظ کی یہ غزل اچھے طرز میں پڑھی۔
جاناں ترا گفت کہ احوال امپرس
بیگانہ باش و قصہ ہیچ آشنا مپرس
اس کا ترجمہ بھی کیا۔ سب کو پسند آیا اور حاضرین خوش ہوئے۔
_______
بائیس؍ اپریل1907ء ___آج تو کیمبرج کی سیر کر آئے اور مسز سید علی دعوت پر شریک ہوئے۔ گیارہ بجے ٹرین میں سوار ہوئے اور ساڑھے بارہ بجے پہنچے ۔ گاڑی تیار تھی اس میں سیدھے مسز سید علی بلگرامی صاحبہ کے یہاں چلے۔ بھائی جابر راستے میں شریک ہو گئے۔ اچھا چھوٹا سا مکان ہے جیسے اکثر یہاں ہوتے ہیں۔ جناب سید علی صاحب(شمس العلماسید علی بلگرامی 1906ء میں کیمبرج یونیورستی میں مراٹھی زبان کے لیکچرار مقرر ہوئے) سامنے نظر آئے اور بیگم صاحبہ اندر تشریف رکھتی تھیں۔ ان سے ملنے کا مجھے پہلا ہی اتفاق ہوا۔ مہربان وضع اور لائق طرز سے پہچان ہوئی۔ ان کی چھوٹی لڑکی ٹوٹو تو بڑی پیاری لڑکی ہے۔ چٹ پٹ انگریزی بولتی ہے اور نہایت پسندیدہ اطوار انگریزی بچوں کے سے ،اس میں ہیں۔ ایک گڑیا جیسی معلوم ہوتی تھی۔ رنگ سرخ و سفید ، آنکھیں اور بال بالکل بھورے، خوش رو لڑکی ہے۔ مسٹر اقبال (علامہ اقبال) بھی تشریف رکھتے تھے۔ یہ صاحب نہایت درجے عالم فاضل اور فیلسوف اور شاعر ہیں۔

♠ 

One Comment