سعودی عرب ظالمانہ سزائیں ختم کرے

0,,18166890_401,00

سعودی عرب میں آج بھی دور جاہلیت کی سزاؤں پر عمل کیا جاتا ہے

ایذا رسانی اور جسمانی تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے ماہرین کی ایک کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی عرب اپنے ہاں مجرموں کو کوڑے مارنے اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینے کی صورت میں دی جانے والی جسمانی سزاؤں کا سلسلہ بند کرے۔

سوئٹزرلینڈ میں جنیوا سے ملنے والی نیوز ایجنسی رائٹرز کی رپورٹوں کے مطابق عالمی ادارے کے جسمانی تشدد اور ایذا رسانی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ماہرین نے خلیج کی اس عرب ریاست سے مطالبہ کیا ہے کہ اسے مختلف جرائم کے مرتکب مجرموں کو جسمانی سزائیں دینے کا وہ سلسلہ ختم کر دینا چاہیے، جس پر وہ ایسی سزاؤں کو اسلامی شرعی قوانین کا لازمی حصہ گردانتے ہوئے اب تک عمل پیرا ہے۔

ریاض حکومت سے یہ مطالبہ اقوام متحدہ کے تشدد کے خلاف کنوینشن پر عملدرآمد کی نگرانی کرنے والی ماہرین کی کمیٹی کے ایک اجلاس میں جمعہ بائیس اپریل کی رات کیا گیا۔ سن 2002ء کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ اس کمیٹی نے عالمی ادارے کے ’اینٹی ٹارچر کنوینشن‘ کے احترام کے حوالے سے سعودی عرب میں پائی جانے والی صورت حال کا جائزہ لیا۔

اس کمیٹی کے اجلاس میں اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اس عرب ریاست میں بلاگرز اور سماجی سطح پر سرگرم کارکنوں کے علاوہ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے زیر حراست کارکنوں سے بھی برا سلوک کیا جاتا ہے۔

رائٹرز نے لکھا ہے کہ اس کمیٹی کے اجلاس میں فیلس گئیر نامی ایک خاتون رکن نے سعودی حکام سے دریافت کیا، ’’کیا سعودی عرب نے کوڑے مارنے اور ہاتھ پاؤں کاٹ دینے جیسی جسمانی سزاؤں کو روکنے کے لیے اس وجہ سے کوئی اقدامات کیے ہیں کہ ایسی سزائیں دنیا اس عالمی کنویشن کے خلاف ہے؟‘‘۔

اس استفسار پر اجلاس میں شریک سعودی وفد کے سربراہ نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ سعودی مندوب اعلیٰ نے کہا، ’’یہ کنوینشن جن اقدامات کو اور جس طرح کے رویے کو تشدد قرار دیتا ہے، اس کو سعودی قوانین کا حصہ بنانے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لیے نئی تعزیرات پر کام جاری ہے۔‘‘

رائٹرز کے مطابق سعودی عرب میں اقوام متحدہ کے اس کنوینشن سے ہم آہنگ نئی تعزیرات یا پینل کوڈ کی تیاری وہ کام ہے، جس کے لیے اس کمیٹی نے سعودی عرب کو درخواست اپنے گزشتہ جائزے کے دوران 2002ء میں کی تھی۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ گزشتہ 14 برسوں سے سعودی عرب ابھی اس موضوع پر کام ہی کر رہا ہے۔

سعودی وفد کے سربراہ نے مزید کہا، ’’اسلامی قانون بین الاقوامی معاہدوں سے متصادم نہیں ہے۔ سعودی عرب کی تشدد اور ایذارسانی کے خلاف حکمت عملی کی بنیاد ٹھوس آئینی ضابطوں پر ہے۔ ان آئینی ضابطوں کی بنیادیں اسلامی شرعی احکامات، متعلقہ قوانین، قومی سطح پر قانون سازی اور ایسے بین الاقوامی کنوینشنز پر رکھی گئی ہیں، جن میں تشدد کے خلاف عالمی کنوینشن بھی شامل ہے‘‘۔

رائٹرز نے لکھا ہے کہ اس کمیٹی کی طرف سے سعودی عرب کی صورت حال کا جائزہ لینے کا عمل پیر 25 اپریل کو جاری رکھا جائے گا۔ تشدد کے خلاف یہ کمیٹی عام طور پر کنوینشن کے رکن ملکوں میں حالات کا جائزہ ہر پانچ سال بعد لیتی ہے۔ لیکن سعودی عرب کے معاملے میں کمیٹی یہ جائزہ اس لیے وقت پر نہ لے سکی تھی کہ ریاض حکومت کی طرف سے اس کنوینشن پر عملدرآمد سے متعلق رپورٹ جمع کرانے میں چار سال سے بھی زائد کی تاخیر کر دی گئی تھی۔

DW.COM

One Comment