شام سے روسی فوجی انخلاء ،ممکنہ عوامل وپیش منظر

میراث زِروانی

286707


روس کا کسی پیشگی اطلاع کے بغیر شام سے اچانک اپنی افواج کی واپسی کا اعلان دنیا کیلئے باعث حیرت تھا ، حیرانی کی وجہ شام میں جاری جنگ کے کسی فیصلہ کن انجام یانتیجے سے قبل ہی روسی انخلاء کا اقدام بنی ،دنیا بھر سے سامنے آنے والا ردعمل ملا جلا تھا ، ایک حلقہ اسے روس کی پسپائی سے تعبیر کر رہا ہے ، کچھ کا خیال ہے کہ روس نے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کیلئے امریکہ سے شام کے تنازعے پر سود ے بازی کرتے ہوئے اپنے قریبی حلیف صدر اسد سے بے وفائی کی ہے اور روس نے اُسے بیچ منجھدار میں چھوڑ دیا ہے ۔

جبکہ بعض مبصرین کے مطابق اپنے اہداف کے حصول کے بعد انخلاء کے اقدام کو روس کی کامیاب حکمت عملی قرار دے رہے ہیں ، اسی امر کا روس بھی دعویدار ہے، پیوٹن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جس مشن پر روسی افواج کو شام بھیجا گیا تھا وہ پورا ہو چکا ہے ، جس کے باعث وہاں بڑی تعداد میں فوج کی مزید تعیناتی کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے، تاہم مغرب نواز شامی باغیوں ،اقوام متحدہ ،امریکہ و یورپ سمیت عالمی سطح پر روسی فیصلے کو سراہتے ہوئے اسے شام میں امن کے قیام کیلئے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

اس کیفیت میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امن کی فاختہ شام میں پھر لوٹ سکتی ہے ،جس کا مطلب ہے کہ روس و امریکہ سمیت شام میں گہرے مفادات رکھنے والی عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں کے مابین کوئی ایسا سمجھوتہ طے پا گیا ہے ، جو تمام سامراجی قوتوں اور ان کے حواریوں کے مفادات کا یکساں محافظ ثابت ہو، لیکن خطے سمیت دنیا میں بدلتے ہوئے تصادم خیز اور بحرانی حالات حالیہ ٹھہراؤ کی بالائی تہہ کے نیچے مفاداتی گہرے تضاد کے گرد پائے جانے والے طوفانوں کے ابھار کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں ۔کیونکہ انخلاء کے اعلان کے روسی اقدام کی وسعت محدود ہے۔

اگر صورتحال کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ روس شام سے نکلنے کی بجائے وہاں ،مستقل اور طویل مدت تک رہنا چاہتا ہے، جس کی عکاسی انخلاء کے اعلان کے باوجود وہاں بحری اور فضائی فوجی اڈوں کی بر قراری وتعمیر کا اقدام ہے ۔ یہ فوجی اڈے ہر قسم کی جدید ترین عسکری طاقت سے لیس ہوں گے ،اگر اب تک کے شام میں روسی فوجی کردار کو مد نظر رکھا جائے تو وہ زیادہ تر فضائی حملوں کی صورت میں سامنے آرہا ہے ، یہ حملے طیاروں کے ذریعے بمباری کے علاوہ دور مار میزائل باری کی شکل میں تھے ۔

اگرچہ زمینی دستے بھی تعینات کئے گئے مگر ان کا کردار اگلے مورچوں پر براہ راست لڑائی کی بجائے شامی فوجیوں کی تربیت اور دیگر امور کی انجام دہی پر مشتمل تھا ، اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ فوجی اڈوں کی موجودگی اور شام سمیت خطے میں اپنے جنگی عزائم کے سبب روسی انخلاء کا اعلان برائے نام ہے ، جبکہ روس صدر اسد کی سرکاری فوج کو انتہائی جدید ترین بھاری اسلحہ اور بارود فراہم کر رہا ہے جن میں ایسے ٹینک بھی شامل ہیں جنہیں مغرب نواز باغیوں کو فراہم کردہ امریکی اینٹی ٹینک میزائل بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ،اس کے علاوہ شامی فوج کی تربیت سمیت روس بھر پور عسکری مدد کر رہا ہے ،لہٰذا یہ خیال کرنا کہ روس شام سے لا تعلق یا امریکی دباؤ کا شکار ہوگیا ہے کسی طور درست نہ ہو گا۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس نے فوجی انخلاء کے اعلان کے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے ،جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی تصور کیا جاتا ہے ، جیسا کہ اس اعلان کے ردعمل سے نظر آتا ہے کہ روس نے شام کے تنازعے پر جنگ کی شدت بڑھانے والے کی بجائے اسے کم کرنے اور امن چاہنے والے کے طور پر خود کو پیش کیا ہے ، اس سے قبل روس کا کردار بھی شام میں جنگ کے شعلے بھڑکانے والے نیٹو،عرب اور ترک سامراجی جنگی اتحاد کے مساوی تصور کیا جا رہا تھا، اور اس کی حیثیت بھی مغربی اتحادیوں کی طرح ایک جارح اور بیرونی حملہ آور کے طور پر پیش کی جاتی تھی ۔

روس کی جارحیت پسند تصویر پیش کرنے میں مغربی سامراجی حکمران اتحادیوں کے ساتھ ان کا حواری میڈیا بھی کافی سرگرم رہا اور روس کو شام میں عام آبادی کا قتل عام کرنے والا جنگی مجرم قرار دیا گیا ، اس کے علاوہ روس کے بارے میں یہ تاثر بھی مضبوط تھا کہ وہ شام میں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں بلکہ صدر اسد کی آمرانہ شخصی حکمرانی کو ہر قیمت پر قائم رکھنے کیلئے جنگ میں کودا ہے، لیکن انخلاء کے اعلان سے یہ تاثر کمزور پڑا ہے ، کیونکہ صدراسد اپنے اقتدار اور زندگی کے خاتمے کے جس خطرے سے دو چار ہیں وہ ابھی ٹلا نہیں ہے ، اسی لئے بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس کا یہ اقدام صدراسد کے مفادات کو ثانوی اور اپنے مفادات کو اولین حیثیت دینے کو ظاہر کرتا ہے ۔

کیونکہ صدر اسد کی بھر پور پشت پناہی کے پس پردہ روس کے خطے میں گہرے اور نا قابل نظر انداز مفادات کارفرما ہیں ، ان مفادات کی تکمیل اگر صدر اسد حکومت کے خاتمے کے بعد بھی ممکن ہو سکتی ہے تو اس کے ہٹانے پر روس معترض نہیں ہوگا ،دوسری طرف روس شام میں جنگ بندی کے معاہدے کے امکانی طور پر ناکامی کا ذمہ دار بھی قرار نہیں دیا جا سکے گا ، اور تنقیدی رائے عامہ سے محفوظ رہے گا جس سے روس کا بین الاقوامی امیج بہتر ہو گا،جبکہ بعض مبصرین یہ بھی خیال کر رہے ہیں کہ روس نے اپنے اس اقدام کے بدلے ممکن ہے کہ یوکرائن سمیت یورپ و ایشیاء میں پائے جانے والے مفادات کے حوالے سے کچھ مراعات بھی حاصل کی ہوں ۔

کیونکہ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ روس کی شام میں فوجی مداخلت امریکہ و یورپ کی یوکرائن سمیت مشرقی یورپ میں روس مخالف دخل اندازی اور حریفانہ سرگرمیوں کا جواب تھا ، لہٰذا یہ بعید ازقیاس نہیں ہے کہ امریکہ و یورپ شام کی دلدل سے نکلنے اور وہاں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے یوکرائن و دیگر مشرقی یورپی ریاستوں میں جاری نیٹو کی سر گرمیوں کو محدود اور روس کیلئے بے ضرر بنانے پر آمادہ ہو چکے ہوں ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ روسی مفادات کے تحفظ کی یقین دہانی کی سرحد یں مغربی اور خاص طور پر وسطی ایشیاء تک پھیلی ہوئی ہوں ، کیونکہ یہ ایسے خطے ہیں جو علاقائی و عالمی سطح پر پائے جانے والے روسی مفادات اور سلامتی کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ، خاص طور پر سینٹرل ایشیاء میں روس کسی دوسرے کی مداخلت و بالادستی کو کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا ۔

متذکرہ بالا تمام پہلو روسی انخلاء کے اقدام کے پس پردہ امکانی محرکات اور مفاداتی حاصلات کی تصویر کاایک خاص رخ پیش کر رہے ہیں ،جن میں کمزوریوں کی بجائے محض روس کی مضبوطی اور کامیابیوں کے اظہار کا عنصر غالب ہے ، لیکن اس تصویر کے ایک نہیں کئی رخ ہیں ،جن میں روس اتنا توانا اور کامیاب نظر نہیں آتا جتنا پیش کیا جا رہا ہے ، تجزیہ کاروں کے نزدیک فوجی انخلاء کے اقدام کے پس پشت محض خارجی کامیابیاں نہیں ہیں بلکہ یہ روس کی داخلی اقتصادی وسیاسی کمزوریوں کو بھی آشکار کررہا ہے، خاص طور پر تیل کی قیمتوں میں شدید ترین گراوٹ نے روسی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ، کیونکہ روسی اقتصادی استحکام اور آمدن کا انحصار تیل وگیس کی فروخت پر ہے ۔

رپورٹس کے مطابق روسی آمدن میں تیل و گیس کا حصہ 65فیصد سے زائد ہے، اور تیل کی قیمتوں میں 70فیصد سے زائد کی کمی کا مطلب روسی آمدن میں اسی تناسب سے گراوٹ آنا ہے ، اسی گراوٹ کے پیش نظر روس کو اپنے حالیہ بجٹ پر نظر ثانی کرنا پڑی ہے ، جس میں تنخواہوں وپینشنز کے علاوہ دیگر ریاستی وترقیاتی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کی گئی ہیں ، جبکہ دوسری طرف امریکہ ویورپ کی اقتصادی پابندیوں کے منفی اثرات بھی روسی معیشت کو کمزور بنا رہے ہیں ، اس کے علاوہ ترکی پر عائد کی جانے والی روسی معاشی پابندیوں کا اثر جہاں ترکی پر منفی طور پر پڑا ہے وہاں روس کو بھی اقتصادی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

لہٰذاایسی حالت میں روس کیلئے یہ کسی بھی طور ممکن نہیں تھا کہ وہ غیر پیداواری بھاری جنگی اخراجات کا بوجھ برداشت کر سکے ، خاص طور پر ایسی معاشی بحرانی کیفیت میں کہ جب اس کیلئے گھر کا کچن چلانا محال ہوگیا ہو۔ علاوہ ازیں افغان تجربے سے بھی روس نے بہت کچھ سیکھا ہے ، جہاں طویل مدتی فوجی موجودگی نے روس کو صرف افغانستان میں ہی ناکامی سے دوچار نہیں کیا بلکہ اس کی جغرافیائی تحلیل کا عمل تیز ہو کر سوویت یونین کے خاتمے کا بھی باعث بنا ۔شام میں طویل مدتی فوجی موجودگی بھی آخری تجزیے میں افغان تجربے سے زیادہ مختلف نتائج نہ دیتی جو روس کی رہی سہی طاقت اور دبدبے کا خاتمہ کر دیتی ۔

انخلاء کے اعلان کا ایک پہلو داخلی سیاسی استحکام کا بھی ہے ، کیونکہ صدر پیوٹن یوکرائن میں فوجی وسیاسی مداخلت پر شدید داخلی تنقید کا بھی شکار ہیں ، اس ایشوپر بعض طاقتور روسی اپوزیشن جماعتیں پیوٹن سے شدید اختلاف رکھتی ہیں ، ان جماعتوں کے مطابق پیوٹن کی خارجہ پالیسی روس کے اقتصادی مفادات اور سلامتی کیلئے خطرناک نتائج کی حامل ہے،پیوٹن کی پالیسیوں کیخلاف حزب اختلاف کی جانب سے متعدد احتجاجی مظاہرے بھی منعقد کئے جا چکے ہیں ، اور اقتصادی بحران کے نتیجے میں پیوٹن کی عوامی حمایت میں کمی آنے کی بھی اطلاعات ہیں ،جو پیوٹن کے اقتدار کا مستقل تاریک بنا سکتی ہے ۔

عوامی مقبولیت میں کمی کے باعث ہی امریکہ ومغرب کی طرف سے پیوٹن حکومت کی تبدیلی کی کوششوں کی بھی رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں ، مغربی حکمران اور میڈیا اس تاثر کو پھیلا رہا ہے کہ روسی معیشت میں بڑھنے والا عزم و استحکام پیوٹن کی سرد جنگ کے زمانے کی خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے، اگرچہ بعض مبصرین اس عنصر کو انخلاء کے پس پردہ فیصلہ کن محرک تصور نہیں کرتے مگر داخلی سیاسی عدم استحکام میں شدت پیدا ہونے کا خدشہ موجود ہے جو خارجی پالیسیوں پر براہ راست اثر انداز ہوگا ،اسی لئے یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ اپنے داخلی سیاسی ومعاشی عدم استحکام کو دبانے اور عوامی توجہ ہٹانے کیلئے پیوٹن جارحانہ خارجہ پالیسی اختیار کر رہے ہیں ، اور روسی قوم پرستی کو ابھار رہے ہیں۔

روسی فوجی انخلاء کے اعلان کے پس پردہ کارفرما مذکورہ بالا ممکنہ عوامل سے واضح ہوتا ہے کہ روس کو علاقائی تنازعات میں مداخلت سے صرف کامیابیوں ہی نہیں ناکامیوں اور پیچیدگیوں کا بھی سامنا ہے ،جس کے باعث یہ بعیداز قیاس نہیں ہے کہ روس کی پیش قدمی میں سست رفتاری آئے ،لیکن یہ تب تک ہوگا جب تک کہ روسی مفادات کو کوئی ایسا خطرہ لاحق نہیں ہوگا جو جان لیوا ہو، اگر امریکہ ویورپ سمیت روس کی حریف قوتیں شام ومشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں اس کے مفادات کو نظرانداز یا پامال کرتی ہیں تو روسی پیش قدمی میں تیزی آنا لازمی ہوگا۔

اس تناظر میں مشرق وسطیٰ سمیت مغربی ووسطیٰ ایشیاء اور مشرقی یورپ میں حالیہ بحرانی وتضاد اتی کیفیت کا مستقبل روس کی فوجی سمیت ہر قسم کی سیاسی واقتصادی مداخلت میں آنے والی شدت کا امکان ظاہر کر رہا ہے، کیونکہ سرمایہ دارنہ اقتصادی نظام میں آنے والے عالمگیر بحران نے تمام سامراجی طاقتوں کو بری طرح لپیٹ میں لیا ہوا ہے، اور سامراجی اقتصادی ماہرین یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ عالمی معاشی زوال پر تا حال قابو نہیں پایا جا سکا ہے،جبکہ یہ ماہرین مستقبل قریب میں بھی بحران کے جاری رہنے کا یقینی امکان ظاہر کر رہے ہیں ۔

اقتصادی زوال پذیری میں آنے والی وسعت وشدت تمام ریاستوں کو اندر سے کھوکھلا اور سیاسی وسماجی عدم استحکام سے دو چار کر رہی ہے، جس کا اظہار امریکہ ویورپ میں قومی وطبقاتی تضادات کے ابھار سمیت نسل پرستانہ انتہا پسندی کی شکل میں سامنے آرہا ہے ۔بلا تخصیص تمام ریاستوں میں داخلی طور پربڑھنے والا یہ عدم استحکام حکمران وبالادست طبقے کی خارجہ پالیسیوں میں مزید توسیع پسندی ،غلبے اور جارحیت کو شدید سے شدید تربنا رہا ہے۔

عالمی اقتصادی بحران کی نوعیت ظاہر کرتی ہے کہ اب وہ دور گزرگیا جب ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کی گنجائش بن جاتی تھی، مگر اب حریف تو کجا اتحادیوں کے مابین بھی مکمل طور پر مفاداتی ہم آہنگی نہیں رہی ہے، یہی وہ سبب ہے جس نے بین الاقوامی سیاست میں ایک نہ ختم ہونے والا خلفشار پیداکر دیا ہے ،یہ خلفشار بڑھ کر ایک ایسے کینسر کی شکل اختیار کر گیا ہے،جس نے عالمی معیشت وسیاست اور معاشرے کے وجود میں انتہائی جان لیوا اور خطرناک بیماریاں جنم دے دی ہیں ، جو داعش و القاعدہ سمیت مختلف اقسام کی مذہبی وفرقہ وارانہ شدت پسندی ، نسلی انتہا پسندی اور دیگر رد انقلابی رجعتی وعوام دشمن فکروعمل کی صورت میں نہ صرف سیاسی و سماجی تباہی لا رہی ہیں بلکہ سرمایہ دارانہ سامراجی اقتصادی و سیاسی بحرانوں میں بھی مزید اضافہ کر رہی ہیں ۔

اس بربادی کے مناظر پیرس حملوں کے بعد 22مارچ2016ء کے برسلز دھماکوں میں بڑے نمایاں نظر آتے ہیں ، یورپ کے یہ مناظر مستقبل میں تصادم خیز انتشار میں بڑھاوے کا پتہ دے رہے ہیں، جو ایک ناسور کی شکل اختیار کرنے والے عالمی سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل بیخ کنی کے بغیر روکا نہیں جا سکتا ۔ اس ناسور یا کینسر کا علاج آپریشن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

بعض ماہرین و معلمین کے مطابق یہ آپریشن سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے ، یہ فریضہ سامراجیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال اور جبرو استبداد کی شکار محکوم اقوام اور مظلوم طبقات کی آزادی اور نجات کیلئے سر گرم انقلابی قوتوں وتحریکات پر عائد ہوتا ہے۔آزادی اور انقلاب کی داعی ان انقلابی قوتوں وتحریکوں کو روس، امریکہ ،یورپ اور دیگر سامراجی مفادات کی حامل طاقتوں کے درمیان جاری دنیا پر غلبے کے حصول کی باہمی جنگوں و تصادموں میں کسی ایک کا حصہ بننے کی بجائے ان کے تسلط سے چھٹکارے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنا ہوں گی۔

One Comment