قومی سلامتی کی ضامن۔۔۔ تعلیم یا دفاع؟ 

ارشد محمود

537a48ffee42c
ہم آئے دن متقدر حضرات کے ایسے بیانات سنتے رہتے ہیں۔’’قومی سلامتی کے سوال پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔۔۔ دفاع کے لئے جتنے پیسے کی ضرورت ہوگی وقف کیا جائے گا۔۔۔سلامتی کوقومی پالیسی اور بجٹ میں اعلیٰ ترین حیثیت حاصل رہے گی‘‘۔ اصولی طور پر اس سوال سے کسی شہری کو بھی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ ریاست کوئی بھی ہو‘ اسے اپنی سلامتی عزیز ترین ہوتی ہے‘ ظاہر ہے قوم اور اس کے دیگر اداروں کا وجود اس وقت برقراررہ سکتا ہے جب ریاست سلامت اور محفوظ ہو‘ لیکن سوال یہ ہے‘ کیا ریاست کی ’’سلامتی‘‘ پر ریاست کے دیگر اداروں اور شہریوں کی فلاح و بہبود کو ایسے قربان کیا جاسکتا ہے کہ خود ریاست کا وجود ہی بے معنی ہوجائے یا ریاست بیرونی خطرے سے تو سلامت رہے لیکن اندرونی ڈھانچے اور دیگر اداروں کی طرف عدم توجہی ریاست کو اندر سے کھوکھلا کردے؟ تب سلامتی کے کیا معنی باقی رہ جائیں گے؟

ہم اس بات کو ایک اور مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ میرے جان ومال کو میرے ہمسائے سے خطرہ ہے‘ چنانچہ میں اپنی سلامتی کے لئے محافظوں کا ٹولہ رکھ لیتا ہوں۔ میرا غریب اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق ہے‘ لہٰذا میری آمدنی نہایت محدود اور قلیل ہے ابھی اپنے گھر میں ٹھیک طریقے سے بجلی‘ پانی‘ صحت وصفائی اور غذا معقول مقدار تک مہیا نہیں کرسکتا۔ میرے گھر کا فرنیچر بوسیدہ ہے اسے ابھی بدلنا ہے‘ بچے بڑے اور زیادہ ہورہے ہیں‘ا نہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے‘ لیکن میری ساری توجہ ہمسائے کے خطرے کی طرف ہر وقت مبذول رہتی ہے‘ میں اپنی کمائی کا زیادہ سے زیادہ حصہ محافظوں کی تعداد بڑھانے اور ان کے ہتھیاروں کی خریداری پر صرف کرتا ہوں۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے بھی بھاری سود پر قرضے لینے شروع کردیتا ہوں۔

ماہ بہ ماہ قرضے کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے‘ قرضوں کی ادائیگی اور محافظوں کاخرچہ میری قلیل آمدنی پر حاوی ہوجاتے ہیں‘ میرے گھرکے درودیوار مسلسل بوسیدہ اور بچوں کی حالت دگرگوں اور گھر کی ساری معاشیات دھرم بھرم ہو جاتی ہے‘ لیکن ہمسائے کے ساتھ دشمنی میری غیرت کا سوال ہے‘ میں اپنے بال بچوں کا مزید پیٹ کاٹ کراپنے محافظوں کے خرچے میں کوئی فرق نہیں آنے دیتا۔ اب میرے گھر دوسری تیسری نسل بھی پروان چڑھنے لگی ہے‘ سب کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے۔ اپنے گھر کے افراد کی بہبود میرا مسئلہ ہی نہیں رہتی ۔ اس کے لئے نہ میرے پاس وقت ہے نہ پیسہ۔ میرے پاس دوہی اعلیٰ ترین ترجیحات باقی رہ جاتی ہے‘ بھاری سودی قرضوں کی واپسی اور اپنی آمدنی اور گھرکے حجم سے کئی گنا بڑے حفاظتی دستے کی ضروریات کوپورا کرنا۔ 

ادھرمقابلے بازی میں میرے ہمسائے کا حشر بھی کوئی مجھ سے مختلف نہیں ہوتا‘ ہم دونوں روز چھت پر چڑھ کر لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے ایک دوسرے کو برا بھلاکہتے اور عہد کرتے ہیں‘ کہ ایک دوسرے سے بڑھ کر محافظوں پر خرچہ جاری رکھیں گے چاہے ہمارے بچے گھاس کھانے پر مجبور کیوں نہ ہوجائیں۔ چنانچہ میں نے گھر والوں کے کپڑے بھی اتروانے شروع کردئیے۔ انہیں کم سے کم کھانے کا مشورہ دیتا ہوں‘ سرمایہ کاری کے لئے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے فیملی کاکاروبار تباہ ہونے لگا۔ ادھر بستی کے دوسرے کئی گھر دیکھتے دیکھتے ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کرگئے۔ کل جو مجھ سے زیادہ غریب تھے‘ آہستہ آہستہ آج وہی میرے گھر آکر میرے بزنس اور اثاثوں کو خریدرہے ہیں۔ جب میرا دیوالیہ قریب آیا تو بستی کے کئی بڑے چودھریوں نے ہم دونوں کو آپس میں سمجھوتہ کرلینے کا مشورہ بھی دیا۔ جن بنیوں سے میں قرضے لیتا تھاا نہیں بھی میری حالت پر ترس آنے لگا۔ انھوں نے بھی حفاظتی اخراجات کم کرنے کا کئی بار مشورہ دیا لیکن یہ میری غیرت کوگوارا نہ تھا۔ میں’’اصولوں پر سودا‘‘ نہیں کرسکتا تھا۔ ہمسائے سے ’’کچھ لو اور دو‘‘ نہیں ہوسکتا اور ادھر میرا سب کچھ جارہا تھا۔ جس سے میں مطلق لاپرواہ تھا۔ گھر کے افراد کی زبان پر گھرانے کی تباہی کی باتیں عام ہونے لگیں لیکن میں اپنا موقف بدلنے والا نہیں تھا۔ آخر وہی ہوا۔ میرے گھر کے افراد بقائے حیات کی لڑائی میں ایک دوسرے پر ہی ٹوٹ پڑے اور ایک دن گھر کی بوسیدہ دیواریں اور چھت نیچے آن پڑے۔ زمانہ میری حماقت پر ہنس رہا تھا!! میری موت دشمن کے ہاتھوں نہیں بلکہ میں اپنی بنائی قبر میں خود اتررہا تھا۔

آئیے دیکھیں زندگی‘ سلامتی اور آزادی کے کیا معنی ہے۔ زندگی ہر ذی روح کو بے حد عزیز ہوتی ہے۔۔۔۔ فطرت کے عمل میں جس کسی کوزندگی ملتی ہے اس کی ساری تگ وتاز زندہ رہنے کے محور پر گھومتی ہے کیوں کہ ’’زندگی‘‘ ہی ذی روح کی پہچان ہوتی ہے‘ وہ اس کا وجود بھی ہوتی ہے اور ایغو بھی۔ ہرذی روح فقط زندہ ہی نہیں‘ آزادی سے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ لیکن زندگی اور اس کی سلامتی و آزادی کا سوال ریاضی کے دو جمع دو کی طرح سیدھا سادہ نہیں۔ انسانی دنیا بڑی پیچیدہ اور پیراڈاکسزپر مشتمل ہے‘ یہاں قدم قدم پر زندگی‘ سلامتی اور آزادی کے معنی تبدیل ہوجاتے ہیں‘ بہت ممکن ہے جسے آزادی کہا جائے وہ کسی نئی زنجیروں کا نام ہو اور وہ آزادی محض کسی چھوٹے سے طبقے کے مفادات کی حفاظت کا سارا چکر ہو۔

یہ وطن ہمیں بنابنایا نہیں ملا۔ یہ اپنی جگہ ایک انوکھا تاریخی واقعہ ہے۔ ورنہ قوموں کو وطن بنے بنائے ملتے ہیں ہم نے اس وطن کوکیوں بنایا؟ ’’اسلام‘‘ کے لئے بنایا‘ ’’آزادی اور عزت نفس‘‘ کے لئے بنایا۔ جیسی غیر واضح خیالی نعرے بازی جتنی بھی کرلیں زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہم انسان ہیں‘ اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر‘ خوشحال اور ترقی یافتہ زندگی کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ وطن تاریخ کے زبردست بحرانی ابھار کے دوران وجود میں آیا‘ جب مختلف قوتیں اپنے اپنے مفادات کے مطابق برسرپیکار تھیں۔ جس کی وجہ سے اس وطن کے کچھ جغرافیائی خدوخال ہماری پسند اور خواہش کے مطابق نہ ڈھل پائے۔ جسے ہم نے اپنی قومی زندگی کا سب سے بڑا روگ بنالیا۔ اتنا بڑا شاندار جو وطن نصیب ہوا، غنیمت جاننے کی بجائے اسے ایک فی صدنہ ملے حصے پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔

چنانچہ اس نوزائیدہ وطن کی تعمیر وترقی کے لئے جن وسائل اور بھرپور توجہ کی ضرورت تھی‘ وہ ہم اسے نہیں دے سکے۔ اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی بجائے دس گنا بڑے ہمسایہ ملک سے بقیہ ایک فی صد حصے کے حصول کو اپنی قومی زندگی کی سب سے بڑی ترجیح قرار دے دیا۔ اب کیا تھا وفاع کے پھیلاؤ اور اخراجات کا مقابلہ شروع ہوگیا‘ چنانچہ ایک نارمل ریاست کے اندر دفاع کی جو حیثیت ہوتی ہے‘ اسے اس سے بہت زیادہ بڑھ کر غیر معمولی اہمیت اور تقدس مل گیا۔ پاکستان ایک پسماندہ‘ جاگیرداری معیشت ومعاشرت کاملک تھا۔ جسے جدید صنعتی جمہوری اور فلاحی ریاست میں تبدیل کرنا تھا لیکن جناح کی سب امنگیں اور عوام کے سب خواب’’ایک پیسہ‘ ایک ٹینک‘‘ کے جذبات آفریں نعروں میں بہہ گئے۔ عوام کی وطن سے محبت کے معنی ہی بدل گئے۔ وطن کو اقتصادی‘ تعلیمی‘ کاروباری اور صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ بنانے کا عزم اور عمل ترجیحات کی نچلی ترین سطح پر جابیٹھے۔ ہمارے لئے پہلی اور آخری صداقت بس یہی رہ گئی‘ ہم دو دشمن اس خطے میں رہ رہے ہیں‘ یہ دشمنی ازلی اور ابدی ہے۔ آزادی کا’’نامکمل ایجنڈا‘‘ جب تک پورا نہیں ہوتا۔ ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ہمارے سارے کے سارے وسائل صرف سلامتی کے شعبے کے لئے حاضر اور وقف ہیں۔ ناخواندہ عوام کو ایٹم بم بنانے کی رومانیت میں مبتلا کیا جاچکا ہے‘جنہیں کوئی شعور نہیں کہ ہم یوں خود کو ایٹم بموں کی امکانی قیامت کے سپرد کررہے ہیں۔

کسی بھی وطن اور قوم کی آن اس کے تعلیمی پھیلاؤ اور معیارسے ہوتی ہے‘ اس کی عزت صنعتی پیداواری صلاحیت سے کی جاتی ہے۔ قوموں کی بڑائی عام آدمی کے اعلیٰ معیار زندگی سے ناپی جاتی ہے۔ الحمداللہ ہمیں کبھی پرواہ نہیں رہی کہ یہ قوم جاہلوں اور ان پڑھوں پر مشتمل ہے۔ آج بھی اکثریتی آبادی کو بجلی‘ پینے کا صاف پانی‘ حفظان صحت کا حال ماحول میسر نہیں۔ وسیع وعریض آبادیاں قدیم قبائلی اور جاگیرداری ماحول میں زندہ ہیں۔ جہاں20ویں صدی نام کی کوئی چیز نہیں‘ ہمیں اس وطن کی ٹوٹی پھوٹی تنگ شاہراہوں اور گرداور دھوئیں سے اٹے بازاروں کی پرواہ نہیں کہ بے تحاشا بڑھتی آبادی کا اژدھام مستقبل قریب وبعید میں کیا حشرڈھانے والا ہے۔ مسائل بڑھتے بڑھتے عذاب کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ ریاست بھی خود کو گمبھیر بحران میں محسوس کرنے لگی ہے‘ لیکن پالیسی اور قومی فکر میں انقلابی تبدیلی لانے کی بجائے عوام کے معیار زندگی کو مزید پست کرنے اور ناگزیر معمولی ترقیاتی کاموں کامزید گلہ گھوٹنے کے سواکوئی حل نہیں۔ عوام کے لئے یہی ہے کہ وہ ہمسائے کی دھمکیوں کی طرف توجہ مبذول رکھیں۔

ہمارا بنیادی زیر بحث مسئلہ یہ ہیکہ قومی زندگی‘ اس کی سلامتی اور آزادی کے کیا معنی ہیں۔ لیکن اس کی آڑ میں ہم جو ’’قیمت‘‘ اداکررہے ہیں اس سے نہ صرف ہماری اس ’’سلامتی اور آزادی‘‘ کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا‘ بلکہ ملک مالیاتی‘ اقتصادی اور اخلاقی لحاظ سے اسی قدر کھوکھلا اور دیوالیہ ہورہا ہے کہ اس ملک اور قوم کا ایک خوفناک مستقبل تمام نسلوں کے اعصاب پر سوار ہوکر اسے خانہ جنگی اور کرپشن کے بتاہ کن انجام کی طرف لے جارہا ہے۔ قومی زندگی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہر آنے والی نسل کے لئے بہت بہتر ماحول کو یقینی بنایا جائے‘ انہیں زندہ رہنے کے بہترامکانات میسر آئیں۔ برے مستقبل اور غیر یقینی کے خوف میں زندہ رہنا کیا’’ سلامتی اور آزادی‘‘ کہی جاسکتی ہے‘ ایک ایسے ماحول میں جہاں چارسوپس ماندگی، افلاس اور جہالت منہ چڑا رہی ہو‘ ایسی ’’سلامتی اور آزادی‘‘ پرکون فخر کرے گا۔سوائے ان کے جو مروجہ نظام سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔

معقولیت کا تقاضا تھا کہ قومی دولت ترجیحی طور پر پیداواری سکیڑ میں لگتی‘ تاکہ ملک پہلے قومی دولت کی وسیع تر پیداوار کے قابل بنتا۔ ہم نے دولت پیدا کرنے والے ذرائع اور وسائل(صنعت‘ زراعت اور تعلیم) پر پیسہ صرف کرنے کی بجائے اپنی قلیل قومی دولت غیر پیداواری سیکٹر پر صرف کردی‘ گویا ہم نے وہ شاخ ہی کاٹ دی جس نے مستقبل میں ملک کے سب اداروں کی ترقی اور خوشحالی کاباعث ہونا تھا۔ ہمیں سوچنا چاہیے‘ کہ پچاس سال سے یہ وطن علاقائی تناؤ کی سولی پر لٹکا ہے۔ تین جنگیں اور ایک بڑی خانہ جنگی کو پاکر ہم نے کیا حاصل کیا ہے‘ مستقل’’نہ جنگ اور نہ امن کی کیفیت‘‘ ہر لحاظ سے قوم کے لئے تباہ کن ہے۔ وطن کی آزادی کاساٹھ سال سے زائد عرصہ محض دشمنی نبھانے میں ضائع ہوچکا ہے۔ اگر یہی عرصہ اور وہ وسائل جو ہم نے دفاع اور جنگوں پر لگائے۔ اس ملک کی تعمیر وترقی میں لگے ہوتے تو پاکستانی اقتصادیات اتنی دولت پیدا کررہی ہوتی کہ یہی ہمارا دشمن ہمیں حسرت کی نگاہ سے دیکھ رہا ہوتا۔ بھاری سودی عالمی قرضوں اور اپنی ترقی کے ذرائع کو تباہ کرکے مانگ کے ہتھیاروں سے کسی قوم کا دفاع مضبوط نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ساٹھ سال میں دفاعی اخراجات کو بجٹ کے ٹاپ پر رکھنے سے اندرونی قومی سلامتی داؤ پر لگی بیٹھی ہے۔ ریاست‘ سماج اور تہذیب کے سب ادارے نہایت پس ماندہ اور لنگڑے لولے ہوگئے ہیں‘ معیشت اور سائنسی ترقی نے آگے چل کر دفاع کو Feedکرنا تھا۔ ہماری الٹی ترجیحات نے انہیں ہی چوس کررکھ دیا۔

کسی ملک کی آزادی اور خود مختاری کا کوئی مطلب باقی نہیں رہ جاتا‘ اگر اس کے اپنے باسیوں کے پھلنے پھولنے کے امکانات سلب ہوجائیں۔ زندگی کی سلامتی اس لئے چاہی جاتی ہے کہ زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارا جاسکے‘ لیکن اگر ’’سلامتی‘‘ کا مطلب گھٹ گھٹ کرجینا ہوتو ایسی سلامتی محض فریب بن کررہ جائے گی‘ لہٰذا ہمیں سب سے بڑا مسئلہ ’’سلامتی‘‘ کو نہیں ’’ترقی‘‘ کو بنانا چاہیے اور سلامتی کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ قوم کی ترقی کے اس عمل میں کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے۔ ہمارے ہاں اس کے برعکس ہورہا ہے۔ کروڑوں لوگوں کی فلاح وبہبود اور ان کی آزادی و خوشحالی سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں اور ہم نے اسے مشروط کر رکھا ہے کہ جب تک ہمسایہ ملک کے قبضے سے ایک چھوٹے سے رقبے پر مشتمل علاقہ ہمارے ساتھ آنہیں ملتا۔ اس علاقے میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا قومی وسائل کا خطیر حصہ دفاع کے لئے مختص رہے گا۔ پچھلے ساٹھ سال کا تجربہ ومشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ صورت حال آگے کی کئی نصف صدیاں مزید کھا جائے گی۔ کیا یہ اس ملک کے ساتھ ظالمانہ مذاق نہیں جسے اتنی بڑی قربانیوں سے حاصل کیا گیا کہ اس کی تعمیر وترقی کو غیر معینہ مدت تک کے لئے موخر کرنے کا اعلان کردیا جائے اور اس پر معاشرے کے تمام طبقے تالی بجانے پر مجبور ہوں کہ اس کانام جب الوطنی ہے۔ کوئی بھی پالیسی اور نظام ہو‘ کچھ لوگوں کے مفادات اس کے ساتھ پیوست ہوجاتے ہیں اور یہیویسٹیڈ انٹرسٹ اسے بدلنے نہیں دیتے‘ سلامتی کے شعبے پر مسلسل غیر متناسب خرچے کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور ان کے مزید حصول کا ایک خوفناک بھوت قومی معیشت کے سر پر آبیٹھا ہے‘ گویا یک نہ شد دوشداب محض تباہی کی خبر دیتے ہیں۔ قومی اثاثوں اور صنعتوں کو نیلام عام میں بیچ کرکتنے دنوں کا ’’خسارہ‘‘ پورا ہوسکے گا۔ اگر خسارے کی موجب یہی پالیسی مسلسل جاری رکھی جائے گی۔

بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم تعلیم کو اپنی سب سے بڑی ترجیح بنا لیں۔ پوری قوم یک نکاتی ایجنڈا بنالے کہ ہمیں تمام انفرادی اجتماعی اور قومی وسائل صرف اور صرف تعلیم کے لئے وقف کرنے ہیں‘ ناخواندگی کانام ونشان مٹانا ہے۔ تعلیمی اخراجات کا سوال سامنے آئے تو وہ ایسے ہی ناقابل سمجھوتہ ہونا چاہیے جیسے پچھلے پچاس سال سے ہماری کمٹمنٹ سلامتی کے شعبے سے رہی ہے۔ ہماری خوشحالی‘ ترقی اور سلامتی کی سب راہیں صرف تعلیم اور تعلیم ہی کھول سکتی ہے۔ تعلیم سے بڑا پیداواری سیکٹر اور کوئی نہیں۔ ہمارے تمام انفرادی‘ سماجی اور قومی مسائل کا حل صرف تعلیم کے فروغ سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم ہمارے مزدور اور کسان کی پیداواری صلاحیتوں کو کئی گنا بڑھا سکتی ہے‘ پیداوار بڑھے گی تو عوام کا معیار زندگی بڑھے گا۔ جہالت‘ توہم پرستی‘ ملائیت‘ مذہبی فرقہ واریت کا خاتمہ ہوگا۔ شرح آبادی میں اضافے کی رفتار تعلیم کے آنے سے رک جائے گی۔ عورتوں کے تعلیمی اور پیشہ وارانہ سرگرمیوں میں آجانے سے کم عمری کی شادیاں بھی رکیں گی اور عورت کی زندگی کا مقصد صرف بچے پیدا کرنا اور پالنا نہیں رہے گا۔ تعلیم ہوگی تو ہمارے ہاں صنعت فروغ پائیگی‘ جدید فنون وعلوم سے واقفیت رکھنے والے ہنرمندورکرز پیدا ہوں گے۔ زمیں میں چھپے قدرتی وسائل کی تلاش اور ان کی صنعت میں منتقلی کاکام تیز ہوسکے گا۔ تعلیم، معیار زندگی کو بڑھائے گی تو ہمارے شہر اور گاؤں دیہات کی بستیاں بھی صاف ستھری ہونے لگیں گی۔ تعلیم سے ہمارے قومی تفاخر اور اعتماد میں اضافہ ہو گا‘ ہم پاکستانی سراٹھا کر دنیا کی قوموں کا سامنا کرسکیں گے۔ ہم عالمی بھکاری نہیں رہیں گے۔ دنیا کو علوم وفنون ایکسپورٹ کرنے کے اہل بن جائیں گے۔

عوام تعلیم یافتہ ہوں گے تو سیاسی اور جمہوری بحرانوں کا بھی خاتمہ ہوجائے گا‘ قانون کی صحیح معنوں میں حکمرانی آئے گی۔ شخصیت پرستی‘ آمریت فیوڈل سوچ بیوروکریسی کی کرپشن پیشہ ور سیاسی خاندانوں کا خاتمہ ہوگا۔ تعلیم یافتہ باشعور عوام کے سامنے حکمران قومی دولت کی لوٹ مار نہیں کرسکیں گے۔ ہمارے ہاں مختلف طاقت ورطبقے قومی دولت کو اس لئے لوٹتے رہتے ہیں کہ ان کو پتہ ہے عوام ان پڑھ‘ جاہل اور بے بس ہیں۔ ہمارے اس دانشور کی بات غلط ہے کہ اس ملک کو تعلیم یافتہ طبقے نے لوٹا ہے‘ سچ یہ ہے کہ یہ ملک اس لئے لٹا جاتارہا ہے کہ عوام غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ تعلیم یافتہ معاشرے مہذب اور قانون کی پاسداری کرنے والے معاشرے ہوتے ہیں‘ قانون کی پامالی صرف جاہل معاشروں میں ہی ممکن ہوتی ہے۔ نہایت قلیل‘ ادھوری‘ غیر معیاری اور لنگڑی لولی تعلیم سے معاشرے کو کیا فیض مل سکتا ہے۔ تعلیم علم اور خوبصورتی کانام ہے۔آج کے معیار انسانیت پر صرف تعلیم سے ہی پہنچ سکتے ہیں‘ ورنہ غیر تعلیم یافتہ فرد جانور سے بدترہے۔ یہی وجہ ہے‘ ہمارے ہاں نیچے سے لے کر اوپر تک جنگل کا قانون چلتا ہے۔ طاقت ور کا قانون کمزور کو کچل دینے کا قانون۔ غیر تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب غیر تہذیب یافتہ ہونا ہے اور اگر ہم غیر تہذیب یافتہ ہیں تو پھر دنیا میں ہماری عزت کیسے ہوسکتی ہے۔

ہم دنیا کی منڈی میں فقیر اور سستیلوگ ہیں‘ ہم سستے ہیں‘ ہماری محنت سستی ہے۔ ہم سستی چیزیں بناتے ہیں‘ ترقی یافتہ ہمیشہ مہنگا ہوتا ہے‘ خواہ وہ پراڈکٹ ہویا انسان۔ مہنگے کی عزت ہوتی ہے‘ سستی چیز کو حقیرانہ نظروں سے دیکھا جاتا ہے‘ اس سے لاپروائی کی جاتی ہے‘ جعلی اناؤں پر ہم کب تک زندہ رہیں گے‘ حقیقت یہ ہے ہم ترقی یافتہ اقوام کے مقابلے میں نہایت بے وقار لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں ظلم کی وہ بھیانک شکلیں موجود ہیں کہ ہمیں خود کو انسان اور انسانی معاشرہ کہنے کا کوئی حق نہیں۔ہم اپنی اور دنیا کی نظروں میں عزت صرف تعلیم یافتہ بن کرہی حاصل کرسکتے ہیں‘ ہمارے تمام روحانی‘ نفسیاتی‘ سماجی اور سیاسی مسائل کا علاج صرف اور صرف تعلیم میں مضمر ہے‘ ہمیں تعلیم سے زیادہ عزیز کوئی شعبہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہماری عزت زندگی‘ اور سلامتی تعلیم سے وابستہ ہے۔ تعلیم ہوگی تو ہم ترقی کریں گے‘ ترقی ہوگی تو دولت میں اضافہ ہوگا‘ دولت میں اضافہ ہو گا تو ہم دفاع پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کے قابل ہوں گے‘ ورنہ ہم کتنا بھی اپنی افواج کی صلاحیت پراترائیں۔ وہ ایک پس ماندہ ملک کی غریب الحال افواج ہی رہیں گی۔

مستقبل کی کئی نسلوں کا خون نچوڑ کر ادھار کی سکینڈ ہینڈ دفاعی ٹیکنالوجی خرید بھی لی جائے تو اس سے ہماری افواج ترقی یافتہ اقوام کے مقابل تو کھڑی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ملک کو ٹوٹنے سے بچاسکتی ہیں۔ اصل طاقت وقوت کا سرچشمہ کسی قوم کی معیشت ہوتی ہے اور معیشت تعلیم کے بغیرنہ فروغ پاسکتی ہے نہ ترقی کرسکتی ہے۔ ہمارے عوام نے ساٹھ سال ابنارمل حالات میں گزاردی ہے‘ ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ کن عناصر کے مفاد میں ہے‘ جو پاکستان کو1947ء سے آگے نکلنے نہیں دے رہے۔ ہم کب تک1947ء میں پھنسے رہیں گے۔ اپنے خطے میں کشیدگی کاماحول ہمارے لئے زہر قاتل ہے‘ ہمیں اب اپنی نفسیات بدلنی ہوگی۔ آج تک ہم نے طاقت کے نام پر خود کو کمزور کیا ہے‘ اس سے پہلے کہ ہم اپنے ہاتھوں کود ہی ختم ہوجائیں۔ہمیں فوراً اپنی قومی ترجیحات موڑ دینی چاہئیں ہمیں قومی سطح پر کوئی ایسی بات اور پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ جو اس خطے میں کشیدگی‘ اسلحے کی دوڑ کاباعث بنے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی اور اہداف میں تبدیلیاں پیدا کرکے دفاع کے اوپر بوجھ کم کرنا چاہیے۔

اپنی زندگی سے بڑا اور کوئی اصول نہیں ہوسکتا۔ اصول زندہ رہنے کے لئے ہوتے ہیں‘ حساب اور منظق کی بات ہے چند لاکھ لوگوں کی آزادی کے لئے کیا18کروڑ لوگوں کی آزادی کو بے معنی بنایا جاسکتا ہے اور معاملے کو یوں صدیوں تک طول دیا جائے کہ نہ ان چند لاکھ لوگوں کاکوئی بھلا ہو اور نہ ہی کروڑ ہا لوگ چین کی زندگی بسر کرسکیں۔ اصولوں پر اختلاف ہے تو وہ ہونا بھی چاہیے‘ لیکن اس کے لئے قوم اور ملک کا مستقبل اس کی ترقی کا سارا عمل ہی تباہ کردیا جائے‘ یہ کہاں کی دانشمندی ہے۔ ایمرجنسی ایک عارضی عمل ہوتا ہے‘ ہمارا ملک ساٹھ سال سے ایمرجنسی میں ہے‘ ہم نے نصف صدی سے زائد عرصہ اپنی قوم کے تمام شعبوں کو معطل کرکے سلامتی کے شعبے کو اعلیٰ ترین ترجیح دے رکھی ہے۔ کیا یہ ہمارانارمل رویہ ہے‘ کیا ہماری سب نسلیں ایمرجنسی کے حالات میں ہی ختم ہوتی رہیں گی؟۔

Comments are closed.