ابیٹ آباد میں جرگہ گردی

12491863_939910766100245_4230327276596795234_oعظمی اوشو

ایبٹ آباد کے ایک گاؤں مکول میں کچھ غیرت مندوں نے ایک سو لہ سا لہ لڑکی کو زندہ جلا دیا۔اس واقعہ کے بعد ان چند دنوں میں ملک میں غیرت کی اتنی بوچھاڑ ہوئی کہ آئے دن غیرت کے نام پر عورتیں قتل ہونے لگیں۔ویسے تو غیرت پاکستان میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہے اور غیرت کی اتنی فروانی کتنی معصوم جانیں لے لیتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا شمار غیرت کے نام پر عورتوں کو قتل کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر آتا ہے ۔عنبرین کی موت کو ہی لے لیا جائے تو یہ صرف ایک جیتی جاگتی ہنستی مسکراتی لڑکی کو ہی نہیں جلایا گیا بلکہ اس ملک کے آئین اور قانون کو جلایا گیا ہے ۔

عنبرین کو مو ت کی گھاٹ اتارنے والوں نے اس پارلیمنٹ کہ بھی چیلنج کیا ہے جس میں منتخب ہو کر آنے والوں کو عورتوں نے بھی ووٹ دیے ہوتے ہیں چند ایک علاقوں کو چھوڑ کر پورے ملک میں عورتیں بڑے جوش و خروش سے انتخابی عمل میں حصہ لیتی ہیں ،مگر بدنصیبی سے جب انہی عورتوں کے تحفظ کے لیے کوئی قانون سازی کا مرحلہ آتا ہے تو پارلیمنٹ کے اندر سے مخالفت شروع ہو جاتی ہے اور جو مخالفت نہیں کرتے و ہ مخالفت کرنے والوں سے ڈر ضرور جاتے ہیں ۔

حال ہی میں خواتین کی پروٹیکشن کے حوالے سے آنے والے بل کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا گیا چندمذہبی جماعتوں نے اتنی شدت سے اس بل کی مخالفت کی کہ گورنمنٹ کو بل پر نظر ثانی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینی پڑی یعنی دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں بل کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ۔

سانحہ ایبٹ آباد ایک جرگہ کے فیصلے کے بعد رونما ہوا ،ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں عورتوں کے حوالے سے جرگوں کے فیصلے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ،خاندانی دشمنی میں عورتوں کے قتل کے بدلے میں مخالف خاندان یا قبیلے میں شادی سے لے کر ونی اور عوتوں کو زندہ جلانا ،زندہ درگور کرنا سے لے کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانا جسے سفاک فیصلے انہی جرگوں میں ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں ۔

جرگوں میں عورتوں کے خلاف کے گئے فیصلوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ان کا یہاں بیان کرنا نا ممکن ہے اورایسے ایسے شرمناک فیصلے موجودہیں کہ جن کو بیان کرنا بھی مشکل ہے۔مختاراں مائی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بھی جرگہ کے فیصلے کے مطابق بنایا گیا،اسی طرح ہزارہ میں ایک جرگہ میں فیصلہ کیا گیا کہ ایک عورت کو ننگا کر کے پورے علاقے کا چکر لگوایا جائے اور ایسا کیا بھی گیا ۔ان جرگوں میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کو ہم اپنے پسماندہ ذہنی معیارات کے مطابق معزز سمجھتے یا مانتے ہیں ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کیسے طے کیا جاتا ہے اور کون طے کرتا ہے کہ معزز کون ہے ۔اور کون نہیں ہے ؟ہم کیسے یہ طے کریں گے کہ معزز ہونے کا معیار کیا ہے ؟اور یہ سب کون طے کرے گا ۔ملک کی تقریباً آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے ان کو ان جرگوں میں کوئی نمائندگی حاصل نہیں ہے۔تو پھر کیسے یہ سمجھ لیا جائے کہ جس طبقے کی ان جرگوں میں نمائندگی حاصل نہیں ہے۔ اس کے حوالے سے کوئی اچھا فیصلہ آئے گا۔
پھر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان جرگوں کے فیصلوں کی کیا آئینی اور قانونی حیثیت ہے ؟کیا جرگہ کسی بھی قانون یا آئین کے تحت قائم شدہ ادارہ ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہم ایسے کسی بھی ریاست کے متوازی نظام کو ہرگز نہیں مانتے ۔ریاست کا اپنا ایک آئین ہے اور اس کے تحت اس ریاستی نظام کو چلانے کے لیے کچھ قوانین بنائے گئے ہیں اور ان قوانین پر عملدرآمد کے لیے ر یاستی ادارے موجود ہیں۔ ان سب کے ہوتے ہوئے کوئی فرد گروہ یا جرگہ کسی بھی طور پر یہ اختیار نہیں رکھتا کہ وہ اپنے طور پر لوگوں کہ سزا اورجزا دیں ۔

ملک کے آئین میں عورتوں اور مردوں کو برابر کے حقوق حا صل ہیں یہ اور بات ہے ہمارے معاشرے میں فیصلوں پر زیادہ تر اختیار مردوں کا ہے۔ خاندان کا سربراہ بھی مرد کو ہی مانا جاتا ہے اس سوچ کی و جہ سے بعض جگہوں پر مرد اپنے اختیارات اور پاور سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عورتوں کے حقوق کو سلب کرتے ہیں ۔ خاص طور پر شادی جیسے اہم فیصلوں میں پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی لڑکی کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا اختیار کم ہی دیا جاتا ہے ۔عزت اور بے عزتی کی تمام ذمہ داری بھی عورت پر ہی ڈال دی گئی ہے۔

اگر بیٹا پسند کی شادی کر لے تو تھوڑی بہت مخالفت کے بعد اسے قبول کر لیا جاتا ہے مگر بیٹی کر لے توکہیں سوشل بائیکاٹ ،تو کہیں تشدد تو کبھی جان سے ہی ما ر دیا جاتا ہے ۔آج تک کہیںیہ سننے میں نہیںآیا کہ کسی باپ نے بیٹے کو غیرت میں آکر قتل کر دیا ۔غیرت کے نام پر آئے دن معصوم زندگیو ں سے کھیلا جاتا ہے جس کی بنیادی وجہ غیرت کے نام پر قتل جسے جرائم کے حوالے سے سخت قوانین کا نہ ہونا ہے اور پھر ایسے قتل کو کرائم نہ سمجھنا بھی اس میں اضافے کی وجہ بن رہا ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کرنے والے قاتل کو معاشرے میں ہیرو کی حیثیت حاصل ہے،اسی طرح جرگوں میں ہونے والے انسانیت سوز فیصلوں پر بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش رہتے ہیں ۔شاید ریاست نے ابھی تک پاکستانی عورت کو برابر کا شہری سمجھا ہی نہیں جب تک ریاست عورت کے معاملے پر بے حسی کا مظاہرہ کرتی رہے گی کئی عنبرین اس ملک کے قانون کا ماتم کرتے کرتے اپنی جان دیتی رہیں گی ۔

One Comment