ہماری زمین، ہماری ثقافت، ہمارا فیصلہ

0,,19251231_303,00

یورپ میں مسلمانوں کے انتہا پسند رویوں ، القاعدہ اور داعش کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی کاروائیوں کے باعث مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے اور نتیجتاً یورپ میں دائیں بازو کی تنظیمیں زور پکڑتی جارہی ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ یہاں بڑی تعداد میں مسلمان مہاجرین کی آمد سے اور انہیں مذہبی آزادیا ں دینے سے یورپ کی ثقافت کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

مسلم مخالف تنظیم پیگیڈا اور ابھرتی ہوئی جرمن سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے حامی جرمن شہر ایرفرٹ میں صوبے تھیورنگیا کی پہلی مسجد کی تعمیر کے منصوبے کے خلاف سخت مزاحمت کر رہے ہیں۔

جرمنی میں ایک مذہبی کمیونٹی ایرفرٹ شہر کے صنعتی اداروں کے لیے مخصوص علاقے میں یعنی شہر سے کافی ہَٹ کر اپنی ایک عبادت گاہ تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ مقامی پریس کے مطابق اس کے پڑوس میں ایرفرٹ کا فائر بریگیڈ، تکنیکی امداد کی تنظیم اور جرمن موٹر گاڑیوں کی نگران انجمن ہوں گے۔ گویا اس مسجد میں عبادت کے خواہاں ستّر کے قریب مسلمان نہ تو ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ بنیں گے، نہ ہی اس علاقے کی پارکنگ کی تمام تر جگہوں پر قبضہ کر لیں گے اور نہ ہی وہ قریبی کھیتوں کے تمام جنگلی پھول چُن لیں گے۔

اس کے باوجود تھیورنگیا میں اے ایف ڈی کے قائدِ حزب بیورن ہوئکے کے خیال میں مسجد کی اس تعمیر کے پیچھے زمین پر قبضے کا ایک طویل المدتی منصوبہ کارفرما ہے اور اسی لیے اُنہوں نے اس تعمیراتی منصوبے کے خلاف مختلف النوع ’اقدامات‘ کا اعلان کیا ہے۔ ان اقدامات کا نقطہٴ آغاز بدھ کے روز منعقدہ ایک کنسرٹ ہے، جس کا عنوان ہے، ’ہماری زمین، ہماری ثقافت، ہمارا فیصلہ‘۔

اس تحریک میں پیگیڈا بھی شانہ بشانہ سرگرم عمل ہے۔ گویا غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والے تمام عناصر یکجا ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ صوبے تھیورنگیا میں اپنی نوعیت کے اس پہلے اور نئے مشرقی جرمن صوبوں میں سرے سے تیسرے منصوبے میں معاملہ کسی انوکھے گرجا گھر یا سائنٹالوجی کی کسی شاخ کی تعمیر کا نہیں بلکہ مینار والی ایک چھوٹی سی مسجد کی تعمیر کا ہے۔

لیکن اے ایف ڈی، پیگیڈا اور اُن کے حامی عناصر یہ چاہتے ہیں کہ مشرقی جرمنی میں مسلمان اب تک کی طرح آئندہ بھی رہائشی عمارات یا سابقہ دفاتر میں ہی عبادت کیا کریں۔اب جرمن سماج میں یہ بحث ہورہی ہے کہ یہاں کی مساجد میں غیر ملکی امام، جو جرمن معاشرے اور اقدار کے بارے میں بہت کم واقفیت رکھتے ہیں، اپنے خطبوں میں کیا کچھ کہتے ہیں؟

یاد رہے کہ یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی میں مساجد کا بھی اہم کردار ہے جہاں پاکستان اور عرب ممالک کے امام مسجد اور مبلغ یورپ کے سیاسی نظام ، اس کی ثقافت اور رسوم ورواج کونفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جمہوریت یا جمہوری رویے اپنانے کی بجائے ڈکٹیٹر شپ یعنی خلافت کے قیام پر زور دیتے ہیں۔ اس معاشرے میں بسنے کی بجائے پندرہ سو پرانے عرب رسوم ورواج اپنانے پر زور دیتےہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مسلمان انسانی حقوق کی آڑ میں مذہبی آزادی کے نام پر اپنی آئیڈیالوجی زبر دستی سماج میں نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری ثقافت کو شدید خطرہ ہے لہذا مسلمانوں کو کم سے کم مذہبی آزادی دی جائے۔

News Desk

Comments are closed.