بیچاری خار جہ پالیسی 

12491863_939910766100245_4230327276596795234_oعظمیٰ اوشو 

کیا اسے اتفاق کہاجائے،سازش کہا جائے یا کوئی اور نام دیا جائے کہ 9/11کے بعد دنیا کو مطلوب ترین دو کالعدم تنظیموں کے سربراہ پاکستان میں ہی مارے گئے۔

اسامہ بن لادن کے بعد امارت اسلامیہ افغانستان کے امیر مُلااختر منصور کا پاکستان کی حدود میں مارا جانا بہت سے سوالات کو جنم دے گیا ، اور کسی حد تک یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ مُلا منصور کی پاکستان میں موجودگی اور ہلاکت پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر گئی ہے۔

دنیا پہلے ہی پاکستان کے کردار کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھی جس میں اب مزید اضافہ ہوگا ۔ اور دہلی والوں کو پاکستان کے کردار پر انگلی اٹھانے کا موقع مل گیا ہے ۔ مُلا منصور کی ہلاکت کے بعد دنیا بھر کا میڈیا بڑے دبنگ انداز میں یہ کہہ رہا ہے کہ افغان طالبان کے لیے پاکستان کی سر زمین محفوظ پناہ گاہ ہے ، دیکھاجائے تو 9/11کے بعد دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں پاکستان سر فہرست ہے ۔

مگر اس کے باوجود دنیا پاکستان سے سوال پوچھ رہی ہے کہ دنیا کو مطلوب دو دہشت گردوں کی پاکستان کی سر زمین پر ہلاکت اور مُلا عبدالغنی برادر، مُلاعبدالسلام، مُلا میر محمد اور مُلاکبیر سمیت پاکستان سے گرفتار ہوئے مقصد طالبان ر ہنماؤں کو محفوظ ٹھکانے کس نے دیے ؟کیا ریاست اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ان کی موجودگی سے ہی بے خبر تھیں یا بے خبری محض دکھاوا ہے ، اور اس بات پر ریاست کی گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی فلسفی مزید مہر ثبت کردیتی ہے جس کی وجہ نہ صرف امریکہ بلکہ ہمارے اپنے خطے میں بھی پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔

اس وقت پاکستان کا کوئی ایسا ہمسایہ نہیں جس سے تعلقات کو مثالی کہا جا سکے۔ اگر چا ئنہ کی مثال دی جائے تو چائنہ کے پاکستان میں اپنے مفادات ہیں جن کو پورا کرنے کے چکر میں ہم پھر وہ غلطی دوہرارہے ہیں جو کبھی سعودی عرب اور امریکہ کو قریب کرنے کے لیے کی گئی تھی ۔ پاکستان کی کمزور خار جہ پالیسی ریاست کے مًنہ پر طمانچہ ہے اور اس کی بنیادی وجہ پارلیمنٹ کی بجائے فوج کا خار جہ پالیسی پر اثرانداز ہونا ہے ۔

خار جہ پالیسی میں اس بات پر ہمیشہ زور دیا گیا کہ خلیجی ممالک کو کیسے خوش کرنا ہے اور انھیں خوش کرنے کے لیے ہم نے اپنی زمیں کو پراکسی وار کے لیے پیش کردیا مگر اًس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج خلیجی ممالک ہم سے زیادہ بھارت کے نزدیک ہیں ۔ وہ سرمایہ کاری کے لیے بھارت کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں اور خیرات دے کر جنگ میں جھونکنے کے لیے پاکستان کو استعمال کرتے ہیں۔ رہی بات چین کی تو اقتصادی مفادات کے لیے کسی بھی وقت پاکستان کا ساتھ چھوڑ سکتا ہے کیونکہ چین کی پالیسی ہے کہ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے اپنے دوست اور دشمن بدلے جائیں ۔ 

اسی طرح افغانستان کا جائزہ لیا جائے تو کبھی افغان، پاکستان کی دوستی پر فخر کرتے تھے مگر ہمار ی مفادپرست خارجہ پالیسی کی وجہ سے آج افغانستان پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈر افغانستا ن کے حالات کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے بھارت کو افغانستان میں پاکستان سے زیادہ پذیرائی ملتی ہے ۔ ہرروز بھارت کا اثر و رسوخ بھارت میں بڑھتا جا رہا ہے اور پاکستان کا رول مشکوک ہوتا جا رہا ہے۔ 

یہی صورت حال ایران کے ساتھ ہے ۔حالیہ گرفتارہونے والا بھارتی ایجنٹ نے ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مزید کشیدہ کردیا ہے جس کی بڑی وجہ ایران کے سر براہ کی پاکستان آمد پر سفارتی پروٹوکول کا خیال نہ رکھنا تھا۔ شا ید ایسا کرکے ہمارے حکمران سعودی عرب کی خوشنودی حاصل کرنا چاہ رہے تھے ۔بھوشن کے معاملے کو جس بھونڈے انداز سیہینڈل کیا گیا اًس سے سوائے جگ ہنسائی کے کچھ نہیں ہوا ۔

کمزور خارجہ پالیسی پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی جا رہی ہے ۔ہمارے حکمرانوں کی کمزور یاں خارجہ پالیسی بنانے اور اًسے نافذ کرنے کا اختیار ایسے ادارو ں کو دے دیتی ہیں جن کا مطمع نظر محض دفاعی بجٹ ہوتا ہے۔ ضیاالحق نے اسلام کی سربلندی کے لیے روس کے ساتھ جنگ آغاز کیا ۔اًس جنگ نے ہمارے ہی گھر کو جلا ڈالا مگر اًس کے باوجود امریکہ ہمارااتحادی ہونے کہ آج بھی ہم سے کہیں زیادہ بھارت کے قریب ہے۔

یہی حال افغانستان اور خلیجی ممالک کا ہے مگر ہم پھر بھی خواب غفلت میں سو رہے ہیں۔ہمارے حکمران آج بھی اسٹبلشمنٹ سے یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ سرحدوں پر رہیں۔یہ خار جہ اور داخلہ پالیساں بنا نا جمہوری حکومتوں کا کام ہے۔ آپ ہمیں اپنا کام کرنے دیجیے ۔آپ اپنا کام کریں ۔ہاں ہم آپ سے مشاورت کریں گے آپ کی رائے کا احترام بھی کریں گے جو ملک اور عوام کے مفاد میں بہتر ہوگی ۔

جمہوری قوتیں اس بات کو سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ کمزور خارجہ پالیسی ہمارے کچے مکان کی ساری دیوا ریں گرا رہی ہے اور پھر دنیا بے درودیوار گھر کو آنے جانے کا راستہ بنالے گی اور ہوبھی رہا ہے۔ غریب کی جورو سب کی بھابھی والی مثال پاکستان پر فٹ بیٹھتی ہے۔ کبھی ہم گڈ طالبان کو مذاکرات کے لیے مری بلاتے ہیں تو کبھی ان پر حملے ہونے دیتے ہیں ۔ سعودی عرب کی سلامتی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کی پیشکش کرتے ہیں تو پھر مودی سرکار کو سعودی عرب میں ایوارڈ ملنے پر کھسیانی بلی کی طرح اپنا سہ مًنہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں، مگر سمجھنے کو تیار نہیں ۔ 

One Comment