اپنی دفاع پر کمربستہ نوکر اور قوم

qazi-310x387فرحت قاضی

ایک مالک ملازم کو بے وقوف کہتا ہے ایک ادارے کے ملازمین کسی ایک ملازم کا مذاق اڑاتے ہیں ایک علاقے کے باشندے دوسرے علاقے کے باشندوں کے خلاف لطیفے بناتے اور ہنستے ہیں ایک قوم دوسری قوم کے افراد پر پھبتیاں کستی ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ واقعی ان کی حرکات و سکنات اور بات چیت سے حماقت ٹپکتی ہے یا ان میں احساس کمتری پیدا کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا جاتا ہے یا پھر وہ اپنے آپ کو ہوشیار اور عقل مند ظاہر کرنے کی خواہاں ہوتی ہے۔
ان کے علاوہ دیگر وجوہات بھی ممکن ہیں

ایک ملازم اور قوم کا اس مذاق اور رویہ پر برا منانا،مزاحمت اور برافروختہ ہونا اس کا حق بنتا ہے اگر اس فرد یا قوم میں چند افراد کے باعث تمام قوم کی جانب انگلی اٹھائی جاتی ہے تو اس کا اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا حق بھی بنتا ہے لیکن کیا یہ اس کے لئے زیادہ بہتر نہیں ہے کہ اس کے حوالے سے جو لطائف،کہانیاں اور فلمیں بنائی گئی ہیں ان کا،اپنا اوراپنی قوم کا ناقدانہ جائزہ لے اور ان میں اگر
یہ کمی کمزوریاں
کوتاہیاں
اور جہالت موجود ہے تو اپنی قوم کے افراد کی توجہ اس جانب کرکے ان کو یہ دور کرنے کا مشورہ دے۔

ایک ملازم کا مذاق اس لئے اڑایا جاتا ہے کہ وہ غریب ہوتا ہے وہ ناخواندہ ہوتا ہے باپ دادا کے زمانے کے تصورات کو حرف آخر سمجھتا ہے اپنی بات پر اڑا رہتا ہے اپنے کو عقل کل سمجھتا ہے اسی طرح ایک قوم کا بھی حال ہوتا ہے یہ غریب ہوتی ہے اکثریت ناخواندہ ہوتی ہے جدید تعلیم کی مخالفت پر کمر بستہ رہتی ہے پدرم سلطان بود کے زحم میں مبتلا رہتی ہے اس کے افراد روزگار اور سیاحت کے لئے دیگر علاقوں اور ملکوں کو نہیں جاتے ہیں ان میں ذات پات کا نظام ہوتا ہے۔
مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے نہیں نکالتے ہیں
ان کے ہاں
لفظ غیرت کا بکثرت استعمال ہوتا ہے مسئلہ کو بزور قوت حل کرتے ہیں ان کے گلی محلوں،دیہات اور شہروں میں تعلیمی ادارے اور کتب خانے نہیں ہوتے ہیں معاش کے جدید ذرائع فیکٹریاں اور کارخانے نہیں ہوتے ہیں ایسی قوم کے ناخواندہ نوجوان اور افراد کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے تاریخ کا سہارا لیتے ہیں اور ایک ایک شخصیت کو سامنے لاتے ہیں ایسا کرنا برا نہیں ہے اس سے اس قوم کے افراد میں یہ احساس تو پیدا ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا نہیں تھے اگر وہ اس کے ساتھ ہی ساتھ اپنے ماحول،ذرائع معاش،تصورات،سماجی قدروں،روایات،رواجات اور ثقافت،شرح خواندگی،سیاسی اور سماجی آزادیوں اور صنعتی زونز اور باہمی تعلقات کا جائزہ لینا بھی شروع کردیں تو یہ پتہ چلے گا کہ مخصوص حالات مخصوص افراد پیدا کرتے ہیں اور ان حالات کو بدل کر ہی مہذب اقوام کی فہرست میں آیا جاسکتا ہے۔

سماجی،سیاسی اور اخلاقی قدریں ایک نظام کے ساتھ ہی آتی ہیں یہ رفتہ رفتہ انسانوں کے ذہنوں میں رچ بس جاتی ہیں چنانچہ وہ ان سے ملتی جلتی کو تو قبول کرلیتے ہیں مگر نئی اور متصادم کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں یا پھر اس حوالے سے شکوک و شبہات میں مبتلا رہتے ہیں جبکہ غیر منطقی اصول کی رو سے عقل مندی صرف وہی ہے جسے علاقے کے سب ہی لوگ مانتے ہیں یہ بھیڑ چال ذہنیت ان کو آگے بڑھنے نہیں دیتی ہے یہ فرد یا افراد دیگر اقوام کی روایات، رواجات اور سماجی قدروں سے موازنہ کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے ہیں کہ بالآخر یہ مختلف کیوں ہیں ان میں فرق کیا ہے
کون سی روایت
رواج
رسم
اور سماجی قدر
ان کو پیچھے اور کون سی ان کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتی ہے

کون سی قبائلی،جاگیردارانہ اور کون سی سرمایہ دارانہ ہیں اس کے برعکس وہ اپنی فرسودہ قدروں کی تائید و حمایت میں دلائل تلاش کرنے لگتے ہیں جبکہ ایک علاقہ اور قوم کی ترقی کا اس علاقے اور قوم کی روایات،رواجات،رسومات ،ثقافت، سماجی قدروں اور مشترکہ تاریخ سے بھی رشتہ و تعلق ہوتا ہے اور یہ اگر فرسودہ ہیں تو منفی کردار بھی ادا کرتے ہیں گو کہ اب صورت حال مختلف ہے مگر چند برس پہلے ایک خاندان کی بیٹی جدید تعلیم کے حصول کے لئے تعلیمی ادارے کا رخ کرتی
ایک نوجوان پتلون شرٹ پہنتا
روزگار کے لئے دور دراز علاقے اور ملک کا سفر کرتا
نائی، درزی یادھوبی کا پیشہ اختیار کرتا
تجارت کرتا
گھر ٹی وی لاتا
تو اسے غیرت کے منافی سمجھا جاتا تھا
نائی، دھوبی اور درزی کو سماجی طور پر کم مرتبہ اور دکاندار کو بنیا کہ کر عوام کو یہ اختیار کرنے سے روکا جاتا تھا البتہ سرکاری ملازمت پولیس اور سپاہ گری باعث عزت وافتخار پیشہ سمجھا جاتا تھا پختون میں اس طرف زیادہ رحجان رہا۔

جاگیردار طبقہ اپنی قوم کے افراد میں فخر و نخوت کے احساسات پیدا اور بھرتا رہتا تھا اس لئے پختونوں نے نئے تصورات کے لئے اپنے ذہنوں کے دریچے بند رکھے ہوئے تھے۔
پختونوں کا معاشرہ ایک بند معاشرہ رہا انہوں نے تعمیر و ترقی کے دروازے بھی اپنے پر بند رکھے مگر آج صورت حال بد ل رہی ہے پختون اپنے بچے اور بچی کے تعلیم کی راہ میں غیرت کی لاٹھی لئے کھڑا نہیں ہے وہ مسائل کو جرگوں اور بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کو اپنی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔
ہر ایک کو دشمن اور حریف نہیں ہر ایک کو دوست بنانے کی راہ پر گامزن ہے اب کوئی اس کا مذاق اڑاتا ہے تو یہ اس ہنسی میں برابر شریک ہوجاتا ہے وہ فرسودہ لباس اتار اور نیا پہن رہا ہے۔

Comments are closed.