پالیسی کا تضاد۔۔۔۔

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹرحمیدباشانی

پاکستان میں ڈرون حملوں کی تو سب ہی مخالفت کرتے ہیں۔لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو تازہ ترین ڈرون حملے کے خلاف باقاعدہ احتجاج کر رہے ہیں۔ مُلااختر منصور کی موت کو وہ شہادت قرار دینے پر بضد ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ انکا خیال ہے کہ مُلا کوہلاک نہیں ہو نا چاہیے تھا۔یا کم از کم امریکی ڈرون کے ذریعے با لکل نہیں۔گویا ایک دہشت گرد کو بھی اپنی موت کے طریقہ کار اور وقت کا تعین کرنے کا اختیار ہے۔یہ جو احتجاجی ریلیاں کر رہے ہیں ان کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کوئی بھی کام اللہ اور آرمی کی مرضی کے بغیر نہیں کرتے۔

جہاں تک اللہ کی مرضی کا تعلق ہے تواگر اللہ کی مرضی ان کے شامل حال ہوتی تو یہ لوگ اب تک پوری دنیا کو فتح کر چکے ہوتے اور اس طرح گلیوں اور بازاروں میں چند لوگوں کو جمع کر کے امریکہ کے خلاف سینہ کوبی کے بجائے امریکہ کو دنیا کے نقشے سے ہی مٹا چکے ہوتے۔گویا خدا کسی کے ساتھ اپنی مرضی شامل کرنے سے پہلے اس کا ظرف اور ارادہ ضرور دیکھتا ہے۔اور ان لوگوں کے دلوں کا حال اللہ سے زیادہ کون جانتا ہے۔

جہاں تک آرمی کی مرضی کی بات ہے تو کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آرمی کو ان لوگوں کو اپنی مرضی بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ اس سلسلے میں یہ لوگ خود ہی اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھتے ہیں۔ اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں ۔اور ایسے موقعوں پر خود ہی میدان میں کود پڑتے ہیں۔خواہ یہ جلسہ جلوس ہو یا پھرپراکسی وار۔اور ان کی اس حرکت کا فائدہ ان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا۔نہ ملک کو اور نہ ہی آرمی کو۔مُلا منصور کی ہلاکت کو ہی لے لیجیے۔اس کی ہلاکت کے خلاف جلوس نکالنے اور احتجاج کرنے سے صرف دو باتیں ثابت ہوتیں ہیں۔

پہلی یہ کہ پاکستان میں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں،اور دوسری یہ کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے حامی اور مددگار موجود ہیں۔اب ان ہی دو باتوں کو دنیا دوسرے الفاظ میں اس طرح پیش کرتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کو پناہ اور تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ احتجاج کرنے والے لوگوں کی اپنی کوئی اہمیت ہو یا نہ ہو لیکن یہ لوگ اس مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتے ہیں جو پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اس کے تعلقات کا تعین کرتا ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کی پالیسی ناکام اور بانجھ ثابت ہو چکی ہے۔اور اس پالیسی کی وجہ سے اب پاکستان بند گلی میں پہنچ چکا ہے۔

چار میں سے تین پڑوسیوں کے ساتھ اس کے تعلقات نا خوشگوار اور بسا اوقات دشمنی کی حد تک خراب ہوتے ہیں۔پڑوس سے باہر عالمی سطح پر خارجہ پالیسی کے حوالے سے اس سے بڑی بند گلی میں پہنچ گیا ہے۔ اب پاکستان کے پالیسی ساز بالکل وہی غلطی دوہرا رہے ہیں جو ان کے پیشرو پالیسی سازوں نے ملک کی خارجہ پالیسی کے ابتدائی خد خال طے کرتے امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدے اور سوویت یونین کے ساتھ دشمنی کا فیصلہ کر کہ کی تھی۔اس کے بعد پاکستان کے حکمران طبقات نے جتنی غلطیاں کیں ہیں انہوں نے اس بنیادی غلطی کے بطن سے جنم لیا۔

پاکستان میں جمہوریت کا قتل، بار بار فوجی آمریتوں کا قیام، اور اس کے نتیجے میں بھوک ننگ، استحصال اورمعاشی اور سماجی نا انصافیوں کا طویل تسلسل کہیں نہ کہیں جا کر اس غلطی سے جڑتا ہے۔افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں شرکت بھی اس غلطی کا شاخسانہ تھی۔ اور یہ غلطی سب غلطیوں پر بھاری تھی۔ آج پاکستان جس دلدل میں پھنسا ہوا ہے اس کی اصل اور بنیادی وجہ یہی غلطی تھی۔اور اس کے پیچھے جو مائنڈ سیٹ بیٹھا ہوا ہے وہ اس کو غلطی نہیں بلکہ اپنا کارنامہ تصور کرتا ہے۔ چنانچہ وہ اس سے سبق سیکھنے کے بجائے اپنی حرکات جاری رکھنے پر بضد ہے۔

مُلا منصور کی موت اور اس پر ہونے والا رد عمل اس کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔ ان حرکات کی وجہ سے دنیا یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ اگر آپ کا افغانستان کے اندر موجود طالبان سے کوئی تعلق نہیں تو مُلا منصور پاکستان میں کیا کر رہاتھا۔اور اگر وہ امریکی ڈرون کے ذریعے مارا گیا تو اس پر اتنا طوفان کیوں ؟ ڈرون حملے تو پاکستان میں اور بھی ہوئے۔ لیکن احتجاج صرف اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی اہم طالبان دہشت گرد مارا جاتا ہے۔

اس شدید احتجاج اور سینہ کوبی کے باوجود اس بات پر بھی اصرار جاری رہتا ہے کہ ہمارا افغانستان کی اندرونی صورت حال، طالبان کی لڑائی اور دہشت گردوں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ پالیسی کا یہ تضاد کبھی بھی کوئی خفیہ بات نہیں رہی۔لیکن امریکہ میں اب اس طرز عمل پر رد عمل سامنے آ رہا ہے اور مستقبل میں مذید واضح اور شدید رد عمل کے امکانات ہیں۔

Comments are closed.