پاکستان کے چالیس فیصد عوام غربت کا شکار

0,,17582050_303,00

پاکستان کی وزارت برائے منصوبہ بندی اور اصلاحات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 40 فیصد آبادی کثیرالجہتغربت کا شکار ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق غربت کی سب سے زیادہ شرح فاٹا اور بلوچستان میں ہے جبکہ شہری علاقوں میں غربت کی شرح 9.3 فیصد ہے اور دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 54.6 فیصد ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقہ جات یا فاٹا میں 73 فیصد اور بلوچستان میں 71 فیصد افراد غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں 49 فیصد، گلگت بلتستان اور سندھ میں 43 فیصد، پنجاب میں 31 فیصد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 25 فیصد افراد غربت کا شکار ہیں۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں 10 فیصد سے کم افراد غربت کا شکار ہیں اور اس کے برعکس بلوچستان کے قلعہ عبداللہ، ہرنائی اور برکھان میں 90 فیصد آبادی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

کثیر الجہت غربت میں صرف آمدنی کو ہی معیار نہیں بنایا جاتا بلکہ صحت، تعلیم اور زندگی کی بنیادی سہولیات تک رسائی کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق غربت کے شکار افراد میں 43 فیصد کو تعلیمی سہولیات میسر نہیں ہیں، 32 فیصد افراد غیر معیاری زندگی گزار رہے ہیں جبکہ 26 فیصد آبادی کو صحت کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔

اس رپورٹ کو جاری کرنے کی تقریب میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور اصلاحات احسن اقبال نے کہا کہ ’ویژن 2025‘ کے تحت کثیرالجہت غربت کو ختم کرنا حکومت کے اہم مقاصد میں شامل ہے۔

پاکستان میں اقوام متحدہ کی ایجنسی یواین ڈی پی کے کنٹری ڈائریکٹر مارک آندرے نے کہا، ’’کثیر الجہت غربت کے اعداد وشمار ہمیں یہمعلومات فراہم کرتے ہیں کہ کن علاقوں میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس فی الحال ایسا کوئی پلان نہیں جس کے تحت آنے والے سالوں میں غربت کی شرح کو کم کیا جا سکے۔غربت کو کم کرنے کے لیے کثیر الجہت اقدامات کی ضرورت ہے جس میں سرفہرست تعلیم، صحت اور امن وامان کی صورتحال کو بہتر کرنا ہے ۔حکومت بجٹ میں ان شعبوں کے لیے جو رقم مختص کرتی ہے وہ اول تو ناکافی ہوتی ہے اور دوسرے یہ رقم بھی درست طریقے سے استعمال میں نہیں لائی جاتی۔یہ رقم تنخواہوں کی ادائیگی اور انتظامی اخراجات کی نذرہو جاتی ہے۔

غربت کی شرح میں اضافے کی ایک بڑی وجہ پاکستان کے دفاعی اخراجات ہیں جس پر کوئی کنٹرول نہیں اور نہ ہی ان کا آڈٹ ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی رکن پارلیمنٹ میں اتنی جرات ہے کہ وہ دفاعی اخراجات پر بحث کر سکے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کو اپنے ہمسایوں سے مخاصمت ختم کرکے دوستانہ تعلقات قائم کرنےکے ساتھ ساتھ باہمی تجارت کو فروغ دینا چاہیے جس سے ملک میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔

DW/News Desk

Comments are closed.