کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی

12695990_10206729873699704_2066619818_n

منیر سامی

گزشتہ ہفتہ امریکہ کے شہر فلوریڈا میں دہشت گردی کا ایک اور بھیانک واقعہ ہوا ،۔جس میں ایک شقی القلب دہشت گرد ، افغانی نژاد امریکی مسلمان نوجوان ، عمر ؔمتین نے ہم جنس پرستوں کی ایک تفریح گاہ پر حملہ کرکے پچاس سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اور تقریباً اتنے ہی لوگوں کو زخمی کردیا۔

اس واقعہ کے بعد امریکی صدر اوباما، امریکی صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن اور دیگر بہت احتیاط سے اس واقعہ کو مسلمانوں اور اسلامی شدت پرستی سے منسلک نہ کرنے کی روایتی ناکام کوششیں کرتے رہے۔ جب کہ واضح ترین حقیقت یہ تھی کہ مارنے والا ایک مسلمان نوجوان تھا، جس کے دنیا کے خطرناک ترین اسلامی دہشت گردگروہ، ’اسلامی ریاست‘ یا ISIS سے تعلقات کے بارے میں امریکی جاسوسی اداروں کو خبر تھی۔ اور خود اس نے مبینہ طور پر اس واقعہ سے پہلے 911 پر فون کر کے اس دہشت گرد گروہ سے اپنے تعلقات کا اعلان کیا تھا۔

مذہب کی بنیاد پر ہم جنس پرستوں سے نفرت کے بارے میں خود اس کے باپ نے یہ بیان دیا تھا، ’’میر ا بیٹا ہم جنس پرستوں کو پسند نہیں کرتا تھا، اس نے ایک دفعہ ہم جنس پرستوں کو برسرِ عام اور اس کی آنکھوں کے سامنے بوس و کنار کرنے پر غصہ کا اظہار کیا تھا۔ ‘‘ ایک اور بیان میں صدیقؔ میر متین نے کہا کہ خدا ہم جنس پرستوں کو خود سزا دے گا، ان کو سزا دینا انسانوں کا کام نہیں ہے‘‘۔

صدیقؔ میر متین ، کیلی فورنیا میں ایک ٹیلی ویژن پروگرام Durand Jirga Showچلاتے رہے ہیں۔ جس میں وہ طالبان کی حمایت ، افغانستان کے سابق صدر کرزئیؔ’، اور موجود صدر اشرف غنیؔ کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ، ’’وزیرستان میں ہمارے طالبانی جنگجو بھائی، اور قومی طالبان سے تعلق رکھنے والے کھڑے ہو گئے ہیں، اور ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ انشااللہ جلد حل ہو جائے گا‘‘۔ اپنے ایک اور بیان میں انہوں نے کہا کہ، ’’میں قومی فوج ، پولیس، اور جاسوسی اداروں کو حکم دیتا ہوں کہ، کرزئی، اشرف غنی، زلمے خلیل زاد اور دیگر کو فوراً گرفتار کیا جائے۔ وہ ہمارے وطن اور ہم وطنوں کے خلاف ہیں‘‘۔ گزشتہ پیر کے روز انہوں نے اپنے ایک بیان میں دوبارہ کہا کہ ’’پاکستان ، افغانستان کی سب مشکلات کا ذمہ دار ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے۔ آخر میں ، میں پھر کہوں گا، کہ افغان انقلابی قوم زندہ باد، پاکستان مردہ باد‘‘۔

یہاں یہ حوالے دینے کا مقصد صرف یہ اجاگر کرنا تھا کہ فلوریڈا میں پچاس ہم جنس پرستوں کا قاتل نوجوان ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جس کا تعلق اسلامی شدت پرست طالبان سے بالکل واضح ہے۔ جو خود اسلامی دہشت گردی کی حمایت کرتا رہا تھا، اور جو ہم جنس پرستوں سے مذہب کی بنیادوں پر نفرت کرتا تھا، جس نفرت کا اظہار خود اس کے باپ نے کیا تھا۔ کیا اس سے صاف ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ نوجوان اسلامی شدت پرستی کا پیرو تھا ، جو بسا اوقات بد قسمتی سے دہشت گردی کے نتیجہ میں سامنے آتی ہے۔

امریکی صدر اوباما، اور صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن عموماً سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر ’اسلامی شدت پرستی‘ اور ’اسلامی دہشت گردی‘ کی اصطلاح سے احتیاطاً اجتناب کرتے ہیں کہ کہیں اس معاملے میں سارے ہی مسلمان ملزم نہ قرار دے دیئے جایئں۔ گو ان کا یہ لحاظ مستحسن قرارد یا جا سکتا ہے ۔ لیکن جب امریکہ اور دیگر ملکوں کے مسلمان بار بار اسلام کی شدت پرست تفسیروں کی بنیاد پر قتلِ عام کرتے رہیں گے، تو لا محالہ سارے ہی مسلمان اس کی زد میں آئیں گے۔

یہی حال عام مسلمان رہنماوں کا بھی ہے۔ جو ہر ایسے رکیک قتلِ عام پر اس طرح کے بیان دیتے ہیں کہ، ’اس واقعہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے‘، ’ملزم نے ایک غیر اسلامی کاروائی کی ہے‘، ’ مسئلہ در اصل امریکہ میں یا مغرب میں ہتھیاروں کے داخلی پھیلاو کا ہے‘،یا بسا اوقات اس کا ذمہ دار امریکی CIA یا امریکی پالیسیوں کو ٹھہراتے ہیں۔

خود امریکی صدر اور ہلری کلنٹن کے مشیروں میں ایسے لوگ واضح طور پر نظر آتے ہیں جن کا تعلق اسلامی بنیاد پرستی سے ہے، یا رہا ہے۔ یہی معاملہ ہمیں کینیڈا میں بھی نظر آتا ہے کہ کینیڈا کے اربابِ سیاست بھی اسلامی بنیاد پرستوں یا ان کے بارے میں معذرتیں پیش کرنے والے مسلمانوں میں گھر ے رہتے ہیں۔یہ رویہ اس بھیانک حقیقت کو جنم دیتا ہے جسے اب بادلِ ناخواستہ خود امریکی صدر اوباما نے امریکہ میں جنم لینے والی دہشت گردی، اور ہلیری کلنٹن نے اسلامی شدت پرستی قرار دیا۔ گویا ، کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ۔

امریکہ اور مغرب میں بار بار ہونے والی دہشت گردی میں ملوث مشتبہ لوگوں کے خلاف کاروائی نہ ہونے کے پیچھے چند مقامی مجبوریاں اور تلخ حقائق بھی ہیں۔ دہشت گردوں کے بارے میں شبہہ ہونے کے باجود یہاں کے قانونی ادارے شہری آزادیوں کے مضبوط قوانین کے پابند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مشتبہ لوگوں کو حفاظتی حراستوں میں نہیں لے سکتے۔ اسی طرح آزادی مذہب اور آزادی اظہار کے قوانین بھی مذہبی نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کاروایئوں کے آڑے آتے ہیں۔

ایسی صورتِ حال میں معاملہ پس چہ باید کرد کا ہوجاتا ہے، اور قتلِ عام ہوتا رہتا ہے۔ آپ نے غور کیا ہو گا کہ ہم نے اب تک امریکی متعصب صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ ؔکا ذکر نہیں کیا ، وہ تو اپنی نسل پرستی کی بیان پر ان سخت گیر پالیسیوں کا پرچار کرتے رہتے ہیں،جو امریکی شہری آزادیوں سے متصادم ہیں۔ سواب سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے۔ اور آزادیوں اور شہریوں کی حفاظت میں توازن کیسے قائم کیا جائے۔

اس سے پہلے کہ ہم اپنی رائے دیں ، ہم اسلام کے نام پر دہشت گردی کے مسئلہ پر ایک مسلم دانشور ماجدؔ نواز کا تازہ ترین بیان پیش کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ، ’’ہمیں سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ قاتل مسلمان تھا۔۔۔۔فلوریڈ ا میں بھیانک حملہ ISIS سے متاثر جہادی دہشت گردی کے زیرِ اثر تھا اور اس میں ہم جنس پرستوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔۔۔ ہم سب کو اس کے بارے میں تشویش ہونا چاہیئے‘۔۔

اس لیے نہ صرف امریکہ اور کینیڈا میں رہنے والے مسلمانوں کو بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو بہ یک زبان ’اسلامی جہادی نظریہ‘ کو ترک کرنا پڑے گا، اور اپنے ہر مسلم رہنما ، عالم ، اور دانشور سے بھی یہی مطالبہ کرنا ہو گا کہ وہ اس نظریہ کو برسرِ عام رد کریں۔جب ہم ، ہمارے دانشور، علما ، اور رہنما ایسا کر پایئں گے جب ہی ہم دعویٰ کر سکیں گے کہ ایسا کوئی بھی قتلِ عام مذہبی نفرت کی بنیاد پر تو شاید ہو لیکن اس کا اسلام کے نام پر جہاد یا قتل و غارت گری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ہمار ا دوسرا مطالبہ ہے کہ مغرب میں اسلامی دہشت گردی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی مشتبہ شخص، اور مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے والے ہر شخص کے خلاف قانون کے تحت سخت کاروائی کی جائے۔ اور قوانین کو ممکنہ طور پر آئینی احتیاطوں کے ساتھ سخت سے سخت کیا جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ اب تک کی معروضات کے بعد قاریئن کو اندازہ ہو گیا ہو کہ، کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی۔

یہ ہم ہی ہیں جو اپنے شدید مذہبی تعصبات کی بنیاد پر اپنے مذہب اسلام کی غلت تفہیمات اور تاویلا ت کی بنیا د پر ان رکیک کاروایئوں کے ذمہ دار ہیں۔ ہمیں مذہبی نفرت، مذہبی شدت پرستی، اور اسلامی جہاد کو رد کرنا ہو گا، اور ایک ایسے سیاسی جمہوری نظام کو تسلیم کرنا ہو گا جس میں مذہب اور ریاست کو منظم طور پر الگ کیا جائے، اور ہم دنیا کے ہر خطہ میں ایسے نظام کاا حترام کریں۔

یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ ہم جنس پرست یاجنسیت کی دیگر تعریفوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہر ملک اور خطہ میں مساوی حقوق کے مستحق ہیں، اور ان کے ان حقوق کو تسلیم کرنا، ان کو تحفظ فراہم کرنا، اور ان کا احترام کرنا ہر مہذب انسان پر لازم ہے۔

Comments are closed.