میری داستان حیات

perwaziڈاکٹر پرویز پروازی


خود نوشت کے سلسلہ میں رجال کا حصہ بڑا اہم حصہ ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں اس پہلو کو جاننے یا اس پہلو کا تجزیہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ۔ مصنف جن لوگوں کے ساتھ رہا جن سے اس نے زندگی کرنا سیکھا یا جن کے ساتھ زندگی گذاری وہ اس کی شخصیت کو جاننے اور سمجھنے میں بہت ممد ثابت ہوتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ وہ مصنف کی زندگی میں کتنے دخیل رہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں ہؤا کہ رجال ہی رجال سامنے رہ گئے خود مصنف کی شخصیت درمیان سے نکل گئی ۔ اس طرح کی عبرت انگیز مثال ڈاکٹرغلام جیلانی برق کی خود نوشت ’’ میری سوانح حیات ‘‘ ہے برق صاحب قبلہ نے اپنے تمام جاننے والوں دوستوں اور رفیقوں کے سوانح حیات بلکہ ان کے ’’سی وی ‘‘ تک اپنی کتاب میں درج کر دئے اور خود ایک طرف چپکے بیٹھے دیکھا کئے ۔ 

دوسری مثال’’ یادوں کی برات ‘‘ہے ۔ جس میں رجال اور آبا ء و اجداد تو بہت ہیں خود مصنف کی شخصیت ان کے سامنے بہت حقیر ہو کر ابھرتی ہے ۔ اس کتاب کا رجال کا حصہ پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اگر جوش صاحب انہیں احباب کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور زندگی کرتے تھے تو ان کے اندر بھی ویسا ہی کمزور شخص بیٹھا ہونا چاہئے ۔ ان کے دوستوں کا مذاق مبتذل ‘ گفتگو فحش آمیز ‘ اور عمل اس سے بھی زیادہ گھناؤنا ہے یعنی لکھنؤ کی گلیوں میں’’ تلاشِ معاش ‘‘ میں گھومنا ۔

رجال کا حصہ متوازن رہنا چاہئے جیسا کہ عبد المجید سالک کے ہاں ہؤا کہ سرگزشت میں رجال موجود ہیں مگر وہ سب عبد المجید سالک کے حوالہ سے پہچانے جاتے ہیں ۔ وضع داری ان کا وصفِ اعظم اور ثقاہت ان کا جوہر ہے ۔ انگریزی والوں کی مثل سامنے رہنی چاہئے کہ
A MAN IS KNOWN BY THE COMPANY HE KEEPS . 
فرد جس ماحول میں پیدا ہوتا پرورش پاتا اور زندگی کرتا ہے اس کا اثر اس کی شخصیت پر ضرور مرتب ہوتا ہے ۔ اس اثر کی تصویر کسی بڑی چابک دستی کی محتاج ہے ۔ بچپن کا زمانہ ناسمجھی کا زمانہ ہے جو اس کے شعور کی گرفت میں نہیں ہوتا وہ دوسروں کی’’ حدیثِ متواتر‘‘ کے طور پر بیان کی ہوئی باتوں کو اپنے شعور کی باتیں جاننے لگتا ہے ۔ اسی دور کی پیدا کردہ عادتیں اور خصلتیں اس کی سائیکی کا پختہ جزو بنتی ہیں جن میں بعد کی زندگی میں کوئی قابلِ ذکر تغیر رونما نہیں ہوتا ۔ اس دور کی تفصیلات اگر کسی سوانح نگار کے ہاں بیان ہوئی ہیں تو انہیں خود نوشت کے اصولوں پر جانچنے کی بجائے تاریخ کے اصولوں پر جانچنا چاہئے ۔

اردو میں خود نوشت سوانح عمریوں کے تین اسلوب نمایاں ہوئے واحد حاضر میں لکھنے کاا سلوب جو ہماری بیشتر خود نوشتوں کا اسلوب ہے ۔ صیغہ ء غائب میں لکھنے کا طریق مثلاً حمید نسیم کی ’’ناممکن کی جستجو‘‘ یا تیسرے شخص کو اپنی سوانح خود روایت کرنے کا اسلوب جیسے حکیم نور الدین کی ’’ مرقاۃ الیقین ‘‘ جو حکیم صاحب نے اکبر شاہ خان نجیب آبادی کو املا کروائی ۔ صدر ایوب خان کی ’’ جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ‘‘ اصلاً انگریزی میں لکھوائی ہوئی خود نوشت ہے جو بعد میں اردو میں ترجمہ ہوئی ۔

اردو میں دو سیاسی سوانح عمریاں ایسی ہیں جنہیں اپنے مواد کے اعتبار سے بہت اہم جانا گیا ۔ سر رضاعلی کی ’’ اعمال نامہ ‘‘ اور سر ظفر اللہ خاں کی ’’ تحدیثِ نعمت ‘‘ ۔ یہ دونوں مدبر برطانوی دور کے مشہور معروف سیاست دان تھے ۔ رضا علی اپنے کیریئر کی انتہا میں جنوبی افریقہ میں ہندوستان کے ہائی کمشنر رہے ۔ سر ظفر اللہ خان ‘ وائسرائے کی کاؤنسل میں وزیر ‘ ہندوستان کی فیڈرل کورٹ کے جج ‘ بعد ازاں پاکستان کے وزیر خارجہ ‘ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ‘ بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے رکن اور بعد کو اس کے صدر رہے ۔ 

پاکستان کے کسی مدبر کو شاید ہی اتنے بڑے دنیاوی مناصب عطا ہوئے ہوں مگر سر ظفر اللہ نے اپنی خود نوشت کا عنوان ’’ تحدیثِ نعمت ‘‘ رکھا ہے یعنی اپنے رب کی نعمتوں کا شکر۔ فَاَمّاِ بنعمۃِ ربِّکَ فَحدِّث ۔ سر ظفر اللہ خان نے اپنے عقائدپر ثابت قدمی اور اپنے نظریات پر مکمل یقین کا اظہار کیا ہے کہیں ان کے پاؤں میں ذرا سی لغزش بھی نہیں آئی ۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے ہاں انکساری اور عجز کے قابلِ تقلید نمونے ملتے ہیں ۔ پڑھنے والا ان سے اختلاف عقیدہ کے باجود ان کی سوانح عمری پڑھتا ہے جس میں عالمی سطح کے مدبرین ‘ سربراہان مملکت ‘ شرفا ‘ رؤسا اور سیاسین کا ذکر ہے مگر کہیں مصنف نے کسی شخص کی شخصیت کو مسمار کرنے یا تعمیر کرنے کی کوشش نہیں کی ۔

ایک موقع پر پنڈت نہرو کے بارہ میں ایک عالمی مدبر کا ایک فقرہ درمیان میں آگیا ہے مگر سر ظفر اللہ نے یہ کہہ کر اسے درج نہیں کیا کہ ’’ پنڈت نہرو کی وفات کے بعد اسے درج کرنا مناسب نہیں ‘‘ ۔ کہ یہی ہمارے ہاں کے شرفا کا وطیرہ تھا اور ہے ۔ اس کے بر عکس اردو ہی میں شہاب نامہ بھی موجود ہے جس میں لکھنے والے نے کسی کو معاف نہیں کیا ۔ زندہ تھا یا مردہ ‘ چھوٹا تھا یا بڑا ۔ مصنف نے اپنی نفرت اور سیاست یا عقیدہ میں اپنے اختلاف کا سہارا لے کر ان کی شخصیتوں کو مسمار کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی ۔ 

یہ درست ہے کہ لکھنے والا لکھنے میں آزاد ہے مگر میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اکیسویں صدی میں لکھنے والا اکیلا ہے نہ جانچنے والا تنہا ۔ اب تو ہر بات کی جانچ پرکھ ہو سکتی ہے ۔ ہر چیز سامنے لائی جا سکتی ہے ۔ نفرت کرنا ہر شخص کا حق ہے مگر خود نوشت سوانح عمری کا سہارا لے کر اس نفرت کو اچھالنا کسی دور میں بھی مناسب نہیں جانا گیا خصوصاً ایسے حالات میں جہاں مصنف نے اپنی نفرت کے اظہار میں تاریخ کو مسخ کرنے سے بھی گریز نہ کیا ہو ۔

جوش صاحب نے اپنے آبا و اجداد کی شخصیتوں کو شایانِ شان طریق سے تعمیر کیا ہے مگر اس طرح اودھ کے تعلقہ داران جن میں جوش صاحب کے آبا و اجداد بھی شامل ہیں محض جاہل ان پڑھ اور غصیلے اور جنسی مریض ثابت ہوتے ہیں جن کا واحد مشغلہ عورت ہے ۔ لارڈ ویول نے اودھ کے تعلقہ داروں کو ’’ عجیب الخلقت اور غریب الدماغ لوگوں کا گروہ ‘‘ قرار دیا تھا جوش صاحب کی خود نوشت ان کی گواہ بنتی ہے ۔ جنرل شاہد حامد کا ننہیالی رشتہ انہیں تعلقہ داروں سے تھا اختر حسین رائے پوری کی والدہ بھی اسی طبقہ سے تھیں اور اسی ماں کے ورثہ میں آئی ہوئی جائیداد ان کے آڑے وقت میں کام آئی اور وہ اسے بیچ کھوچ کر اعلیٰ تعلیم کے لئے یورپ سدھارے ۔ ان دو اتنے ہی جانے پہچانے مصنفین نے اپنے بڑوں کو اتنا نہیں بڑھایا کہ ان جیسے سارے لوگوں کی صورت ہی مسخ ہو جائے ۔

خود نوشت سوانح عمری لکھنے والوں کے لئے ایک اور بات بھی اہم سمجھی گئی ہے کہ وہ اس وقت اپنی خود نوشت لکھنے کے لئے قلم اٹھائیں جب ’’ پل کے نیچے سے بہت سا پانی گذر چکا ہو ‘‘ ۔ رضا علی کی اعمال نامہ ان کی زندگی کے آخری دور میں لکھی گئی ۔ آل احمد سرور کی خواب باقی ہیں ان کی عمر کے پچھترویں برس میں سامنے آئی ۔ جوش صاحب کی یادوں کی بارات ان کی ضعیفی کے زمانہ میں تحریر ہوئی۔ یہی حال حمید نسیم صاحب کا ہے ان کی ناممکن کی جستجو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد لکھی گئی ۔ وزیر آغا کی شام کی منڈیر سے ان کے چونسٹھویں برس میں مرتب ہوئی ۔ سالک صاحب کی سرگزشت اور ذوالفقار علی بخاری کی سرگزشت بھی ان کے ارزل العمر کی کتابیں ہیں ۔

اس کا مطلب یہ ہؤا کہ کہ ان ادیبوں نے عمر کے ایک خاص حصہ میں محسوس کیا ہوگا کہ انہیں دنیا کو کچھ دینا ہے ۔ وہی احسان دانش کی بات کہ کچھ قرض سا اتارنا ہے زندگی میں ایک ایسی عمر آیا کرتی ہے جہاں پہنچ کر انسان میں یہ حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی تکمیل کے احساس میں دوسروں کو شریک کرے ۔ خود نوشت سوانح نگار اگر دوسروں کو اپنا شریک نہیں بنا سکتا اور انہیں اپنی انا کی بلند تر سطح سے مخاطب کرتا ہے تو وہ خود نوشت کامیاب خود نوشت نہیں کہلا سکتی ۔ مگر ہمارے ہاں رو ‘ سی چل نکلی ہے کہ ایسے لوگ بھی اپنی خود نوشت لکھنے بیٹھ گئے جنہیں ابھی اپنی زندگی کا بہت سا سفر طے کرنا تھا ۔ ہمارے ہاں کشو ر ناہید ‘ جاوید شاہین ڈاکٹر مبارک علی جیسے لوگوں کی سر گزشتیں بے وقت کی لکھی ہوئی سرگزشتیں ہیں ۔ بلکہ جاوید شاہین نے تو کشور ناہید کو نوعمری میں خود نوشت لکھنے کا طعنہ دیتے ہوئے خود وہی کام کیا ہے یہ ایسے وقت کی سرگزشتیں ہیں جہاں انسان قرض نہیں اتارتا ‘ چُھدّا اتارتا ہے ۔

ایک بدعت ہمارے یہاں خود نوشت کو اپنے نظریات کی تبلیغ و تشریح کا ذریعہ سمجھنے کی چل نکلی ۔ سر رضا علی نے اعمالنامہ کے تین باب اپنے نظریات کے لئے وقف کر دئے ان میں اپنے مذہب سے لے کر عشق و محبت تک کے موضوعات شامل ہیں ۔ شہاب نامہ کا آخری باب بھی اسی زمرہ میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔حکومت کے عہدیدار کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی باتیں سنتے ہیں ۔ رضا علی نے اسی لئے اپنے نظریات کو باقاعدہ تھیوری بنا کر پیش کیا اور اپنی کتاب کی وحدت کو مجروح کر لیا ۔

اسی طرح سر رضا علی نے محسن الملک کی ناراستیوں کو بھی جائز ثابت کرنے کی سعی ء بلیغ کی ۔اس روایت سے جوش صاحب نے فائدہ اٹھایا ۔ مگر ہمارے افسروں میں منظور الہیٰ کی سلسلہ ء روز و شب ان کی باقاعدہ خود نوشت تو نہیں مگر ان کی زندگی کے بیشتر حصہ کی تصویر کشی کرتی ہے۔مگر منظور الہیٰ کے ہاں کہیں بے جا تفاخر یا برتری اور حاکمیت کا احساس در نہیں آیا جو سر رضا علی یا شہاب صاحب کے ہاں موجود ہے ۔ اسی طرح سر ظفر اللہ خان اپنے عقیدہ پر مضبوطی سے قائم رہنے کے باوجود کہیں تبلیغ یا تلقین کے مرتکب نہیں ہوئے اور عام لوگوں سے مختلف عقیدہ رکھنا کوئی انہونی یا بری بات نہیں ہوتی ۔ مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو ۔

Comments are closed.