طالب علم اور اس کے استاد پر توہینِ مذہب کا الزام

18967971_303

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک نو عمر پاکستانی لڑکے اور اُس کے اسلامی تعلیمات کے استاد پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ مبینہ طور پر نو عمر لڑکے کو قرآن کے جلتے ہوئے صفحات کے ساتھ پکڑا گیا تھا۔

صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں سینیئر پولیس افسر عارف رشید نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ علاقے کے رہائشیوں نے مدرسے کے ایک طالب علم کو  قرآنی صفحات جلاتے ہوئے دیکھا۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا تھا تو اُس نےجواب دیا کہ اس کے استاد نے کہا تھا کہ قرآن کے پرانے صفحات کو تلف کرنے کا یہ درست طریقہ ہے۔

  مذہبی علماء قرآن کے ٹیکسٹ کو دو طریقوں سے تلف کرنا درست قرار دیتے ہیں۔ اوّل طریقہ یہ ہے کہ قرآن کو کپڑے میں بند کر کے زمین میں دفن کر دیا جائے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسے بہتے پانی کے سپرد کر دیا جائے تاکہ الفاظ کی سیاہ مکمل طور پر مٹ جائے۔ پاکستانی قوانین کے تحت قرآن کی کسی قسم کی بے حرمتی پر عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

یاد رہے کہ سن 2015 میں پنجاب کے ایک شہر جہلم میں ایک کارخانے کو مشتعل ہجوم نے آگ لگا دی تھی۔ فیکٹری کے ملازمین میں سے ایک پر الزام تھا کہ اُس نے بوائلر میں قرآن کے صفحات جلائے تھے۔

 مقامی پولیس افسر رشید کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کے مرتکب ہونے والے طالب علم اور استاد دونوں پر قانون کی دفع دو سو پچانوے بی کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جس کے تحت بے حرمتی کی سزا عمر قید ہے۔

یہ کیس ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صرف ایک دن قبل پاکستانی سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے جرم میں سزا پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی جانب سے دائر کردہ اپیل پر اپنی سماعت مؤخر کی ہے۔

 اپیل کی سماعت کے لیے بنائے گئے تین رکنی بینچ میں شامل جج اقبال حمید الرحمان نے مقدمے کی کارروائی میں اپنے شریک ہونے سے معذوری ظاہر کی تھی۔ آسیہ بی بی کی اپیل کی سماعت کے لیے فی الحال سپریم کورٹ نے کسی نئے بینچ کے قیام کا اعلان نہیں کیا۔ آسیہ بی بی پر سن 2010 میں توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا تھا جس کے بعد اسے عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔

اس اپیل کے موقع پر کمرہ عدالت میں مذہبی انتہا پسندوں کی ایک بڑی تعداد بھی جمع تھی جس نے عدالت اور آسیہ بی بی کی پیروی کرنے والے وکلا کو بھی دھمکیاں دیں کہ اگر عدالت کی طرف سے اسے رہا کیا گیا تو انہیں اس کے نتائج بھگتنے کے لیے بھی تیار ر ہنا چاہیے۔

آزادی صحافت کا علمبردار میڈیا جو سیاست دانوں کی کردارکشی کرتے نہیں تھکتا تاحال آسیہ بی بی کے کیس پر مذہبی انتہا پسندوں کے رویے پر بات کرنے کو تیار نہیں۔

DW/News

Comments are closed.