ایک حملہ آور کی یادگار

01-mubarik-ali-253x300ڈاکٹر مبارک علی

پاکستان شاید دنیا کا وہ واحد معاشرہ ہے کہ جہاں غیر ملکی حملہ آوروں کو نہ صرف زبردست خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے ۔ بلکہ ان کی تعریف و توصیف میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں اور ان کی یاد میں عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اب سکندر کی یاد میں ایک عالیشان عمارت تعمیر کی جارہی ہے۔ اس یاد گار کی تعمیر کے لیے یونان کی حکومت نے ایک این جی او کو فنڈز دیے ہیں۔ اب پاکستانی مورخین اور ماہر آثار قدیمہ کی مدد سے اس عمارت کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق یہاں ایک لائبریری بھی ہو گی کہ جو ریسرچ کرنے والوں کو سکندر کے بارے میں مواد فراہم کرے گی۔

اس سلسلہ میں ذہن میں جو سوالات آتے ہیں وہ یہ ہیں کہ کیاحملہ آوروں کو اس قسم کا خراج عقیدت پیش کرنا صحیح ہے؟ کیونکہ حملہ آور جن مقاصد کے تحت کسی ملک پر حملہ کرتے ہیں ان میں اولین ملک کی دولت اور ذرائع کی لوٹ کھسوٹ ہوتا ہے۔ سکندر نے ایران پر حملہ کرکے وہاں کے حکمران دارا کو شکست دی .اس کے پس منظر میں ایران اور یونان کی باہمی کش مکش تھی۔ مگر اہل ہندوستان نے نہ کبھی یونان پر حملہ کیا اور نہ ہی ان دونوں ملکوں کے درمیان کبھی تصادم رہا۔ اس لیے ہندوستان پر اس کا حملہ صرف یہاں کی دولت کو لوٹنا تھا۔ اس سے زیادہ اس کے اورکوئی اغراض و مقاصد نہیں تھے۔

جب بھی کسی ملک پر بلا جواز حملہ کیا جائے تو اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ سکندر کا ہندوستان پر حملہ بھی اس قسم میں آتا ہے۔ حملہ کی صورت میں جو دو فوجوں میں تصادم ہوتا ہے اس میں ایک حملہ آور ہوتی ہے اور دوسری دفاع کرنے والی۔ چاہے کہ دفاع تخت و تاج کے لیے ہو یا سرزمین و دلت کے لیے ۔

جنگ کی صورت میں قتل عام ہوتا ہے۔ خوں ریزی ہوتی ہے۔ اگر حملہ آور کامیاب ہو جائے تو شکست خوردہ ملک اس کی لوٹ کھسوٹ کے لیے بالکل کھل جاتا ہے۔ سکندر ایک حملہ آور کی حیثیت سے جب فتح یاب ہو جاتا ہے تو اس کی فوج کے لیے مال غنیمت کا حصول آسان ہو گیا۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ سکندر کی فوجوں نے قتل و غارتگری اور لوٹ مار کا زبردست بازار گرم کیا۔

تاریخ کی ایک ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ لوگ کہ جنھوں نے لوگوں کا قتل عام کیا اور معصوم لوگوں کو زندگی سے محروم کر کے اپنے ہاتھ رنگے۔ وہ لوگ ’’اعظم ‘‘ کہلائے۔ یعنی کسی فرد کے ’’عظیم ‘‘ ہونے کا معیار یہ ہے کہ اس نے کتنے لوگوں کو قتل کیا ہے اور کتنی خوں ریز جنگیں جیتی ہیں۔

ایک وقت تھا کہ جب مورخ بادشاہوں اور حکمرانوں کے ملازم ہوا کرتے تھے۔ اور اپنی تحریروں کے ذریعہ ان کی بہادری اور شجاعت کی داستانیں بیان کر کے لوگوں کو مرعوب کیا کرتے تھے ۔ جو افراد کے جنگ و جدل سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ انھیں بزدل کہا جاتا تھا۔

ہمارے ہاں اب تک تاریخ کا یہی نظریہ ذہنوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ جنگ و جدل ، قتل و غارت گری ، بہادری اور جرات کی علامتیں ہیں جبکہ امن اور صلح ، بزدلی اور نکمے پن کی۔سوال یہ ہے کہ آخر ہم سکندر کو کیوں عظیم کا لقب دیتے ہیں؟

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سکندر کے بارے میں ہماری ساری معلومات یونانی مورخوں کے مواد پر ہیں جو تاریخ کو اپنے نقطہ نظر سے لکھ رہے تھے۔ اس میں سکندر ایک نوجوان پر عزم جنگ جو تھا کہ جو برابر دشمنوں کا شکستیں دے رہا تھا۔مقدونیہ اور یونان کا نام اونچا کر رہا تھا۔ ان کی نظر میں سکندر ایک عظیم ہیرو بلکہ دیوتا تھا۔

اگر اس نقطہ نظر کو بغیر کسی تنقید کے تسلیم کر لیا جائے تو اس کے عظیم ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن اگر ہندوستان کے نقطہ نظر سے سکندر اور اس کے حملوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ ایک ایسا شخص تھا کہ جس نے بلا کسی جواز کے ہندوستان پر حملہ کیاا ور یہاں جنگیں لڑ کر لوگوں کا سکون غارت کیا۔ اس لیے یہ ایک عظیم ہیرو یا دیوتا کے روپ میں نہیں بلکہ ایک غاضب اور حملہ آور کی شکل میں سامنے آتا ہے۔بلکہ ایک خونخوار عفریت کے جس نے تباہی و بربادی کر کے ہندوستان کو زبر دست نقصان پہنچایا۔

سکند ر کے عظیم ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ برطانوی اقتدار کے زمانہ میں تاریخ کے نصاب کی جو کتابیں لکھی گئیں ان میں سکندرکو عظیم ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کے پس منظر میں برطانوی مورخوں کے دو مقاصد تھے۔ایک تو سکندر کو عظیم بنا کر وہ ثابت کر نا چاہتے تھے کہ اہل یورپ ابتداء ہی سے بہادر، جنگجو اور فاتح رہے ہیں اور اہل ہندوستان کو ان کے مقابلہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دوسرے چونکہ وہ خود حملہ آور تھے اس لیے ان کے نقطہ نظر سے حملہ آور ہمیشہ اچھے ہوتے تھے اور جس ملک پر وہ حملہ کرتے تھے یا قابض ہو جاتے تھے ۔ وہ اس ملک کی ترقی اور تہذیب میں اضافے کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سکندر اور اس کے مخالف حریفوں کے درمیان جنگوں کو یورپی تاریخ میں مغرب و مشرق کے درمیان ایک تصادم کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جس میں اہل مغرب اپنی برتری کی وجہ سے اہل مشرق پر فتح یاب ہوئے۔

یہ نو آبادیاتی نظام کو ایک جواز فراہم کرتا تھا کہ ایشیا اور افریقہ کو بطور نو آبادیات کے یورپ کے اقتدار میں لانا دراصل تہذیب کے دائرہ میں آنا تھا۔

پاکستان میں تاریخ کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں مورخوں میں تحقیق اور تخلیق دونوں کی کمی رہی ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں بھی نصاب کی کتابوں اور عام تاریخ کی کتابوں میں ہم سکند ر کے لیے ’’عظیم‘‘ کا لقب بغیر سوچے سمجھے استعمال کرتے ہیں اور تاریخ کے ان بیانات کو کہ جو یورپی مورخوں نے سکندر کے بارے میں دیے ہیں بغیر کسی تجزیہ اور تنقید کے قبول کر لیتے ہیں۔

اس لیے جب تاریخی شعور کی اس کم مائیگی کو دیکھا جائے تو اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ کیوں ہمارے مورخ آثار قدیمہ کے ماہر ، حکومت اور این جی او سکندر کی یاد میں عالیشان عمارت تعمیر کر رہے ہیں اور اس سے اپنی شکست اور حملہ آور کی فتح کو ایک نئی زندگی دے رہے ہیں۔

ہندوستان کے نقطہ نظر کو سہراب مودی نے اپنی فلم سکندر میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ اس فلم کے پہلے سین میں ایک گاؤں دکھایا گیا ہے کہ جہاں ہر طرف سکون و اطمینان سے عورتیں چرخہ کات رہی ہیں، دودھ بلو رہی ہیں، مویشوں کو چارہ وغیرہ ڈال رہی ہیں کہ اچانک سکندر کی فوجیں حملہ آورہوتی ہیں ۔ لوگوں کا قتل عام ہوتا ہے، گھروں کو جلادیا جاتا ہے، مال و دولت لوٹ لیا جاتا ہے ۔ تھوڑی ہی دیر میں پورا سین بدل جاتا ہے ۔ جلے ہوئے گھروں سے اٹھتا ہو ادھواں ہے، مردوں کی خاموشی ہے اور حملہ آوروں کی فتح کے نشانات اس تباہی میں پوشیدہ ہیں۔ تاریخ میں عظیم جنگجو یہی کارنامے کرتے چلے آرہے ہیں۔ ایک فلم ساز نے تاریخ کو وہ شعور دیا کہ جو ہمارے مورخ دینے میں ناکام رہے۔

تاریخ میں افراد اور شخصیتوں کے بارے میں جیسے جیسے تاریخی شعور آتا ہے اس طرح سے ان کے کردار کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ جب 1992میں امریکہ میں کولمبس کی 500ویں امریکی دریافت کو منانے کا اعلان ہوا تو مقامی امریکی باشندوں کی جانب سے زبردست احتجاج ہوا کیونکہ ان کے نقطہ نظر سے کولمبس کی دریافت نے نہ صرف انھیں اپنے ملک اور سر زمین سے محروم کر دیا بلکہ اس کے نتیجہ میں یورپی آباد کاروں نے ان کا قتل عام کیا اور ان کی جنت ارضی کو ان کے لیے جہنم بنا دیا اور ان کے اپنے ملک میں اب وہ اجنبیوں کی حالت میں رہ رہے ہیں۔

اس لیے ان کا سوال تھا کہ ایک ایسے واقعے کو کیوں کر منایا جائے ؟ کولمبس اہل یورپ اور یورپی آبادکاروں کے لیے تو ہیرو ہو سکتا ہے مگر مقامی باشندوں کے لیے نہیں ۔ اگر اس وقت امریکہ ایک سپر پاور ہے تو اس نے اس طاقت کو کس قیمت پر حاصل کیا؟ اس کے پس منظر میں کتنے گھناونے جرائم پوشیدہ ہیں۔

اب تک ہر سو سال بعد امریکہ کی دریافت پر جشن منائے جاتے تھے اور یہ جشن بغیر کسی احتجاج کے ہوتے تھے۔ مگرجیسے جیسے مقامی باشندوں میں تاریخی شعور آیا انھوں نے اس پر احتجاج کیا۔ 1992میں یہ احتجاج اتنا زبردست تھا کہ امریکہ میں شاندار جشن کو منسوخ کر نا پڑا۔ تاریخ کے اس نئے شعور میں نہ صرف مقامی باشندوں کا حصہ ہے بلکہ خود امریکہ کے روشن خیال مورخوں نے اس نقطہ نظر کی تائید کی۔

چنانچہ یورپی امریکی دریافت کا پورا ڈھانچہ اس احتجاج کے آگے گر پڑا اور امریکیوں کو تسلیم کرنا پڑا کہ امریکہ کی دریافت نے مقامی باشندوں کے ساتھ مظالم کر کے انھیں کس قدر نقصان پہنچایا۔ یہ ایک جرائم سے بھرپور تاریخ ہے جس کا جشن منا نے کی ضرورت نہیں بلکہ اس پر تاسف کرنے اور معافی مانگنے کی ضرورت ہے۔

اسی قسم کی ایک کوشش 1998میں کی گئی۔ پرتگال کی حکومت کی خواہش تھی کہ واسکوڈے گاما نے پانچ سو پہلے راس امید (کیپ آف گڈ ہوپ) کا جو راستہ دریافت کیا تھا اس کا جشن ہندوستان میں کالی کٹ کے مقام پر منایا جائے کہ جہاں وہ لنگر انداز ہوا تھا۔ اہل ہندوستان کے ذہن میں امریکہ کے مقامی باشندوں کا احتجاج تازہ تھا اس لیے ہندوستانی مورخوں اور اسکالرز نے اس پر زبر دست احتجاج کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرتگالی حکومت نے جشن منسوخ کر کے لزبن میں ایک سیمینار کے ذریعہ واسکوڈے گاما کو خراج عقیدت پیش کر دیا۔

ان مثالوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں اپنے تاریخی نظریات پر تنقیدی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے مثلاً ہمیں ’’حملہ آور‘‘ کی تعریف کا تعین کر لینا چاہیے۔ یہ حملہ آور کون ہو، اس کاکس مذہب اور نسل سے تعلق ہو۔اگر اس کی حیثیت حملہ آور کی ہے تو اس کی حیثیت نہ تو عظیم ہے اور نہ اس کی فتح قابل تعریف۔ اس کیٹیگری میں چاہے محمد بن قاسم ہو یا محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی یا کلائیو اور چارلس نپیر۔ اگر حملہ آوروں کو تنقید کا نشانہ نہ بنایاگیا تو اس صورت میں معاشرہ میں نہ تو اپنے حقوق کا احساس ہو گا اور نہ حملہ آوروں سے مقابلہ کرنے کا جذبہ۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری کہ حملہ آور صرف باہر ہی سے نہیں آتے ہیں یہ معاشرہ کے اندر سے بھی ابھرتے ہیں اور لوگوں کے حقوق کو کچل کر ان کی آزادی کو پامال کر کے ، اقتدار پر قابض ہوتے ہیں۔ اس لیے حملہ آور چاہے اندرونی ہو یا بیرونی ۔ اس کا تعلق کسی نسل اور مذہب ہو۔ اس کے اعمال کا احتساب ضروری ہے کیونکہ ہر صورت میں یہ امن و امان ، صلح تہذیب و تمدن اور ثقافت کے دشمن ہوتے ہیں۔

جب تک یہ تاریخی شعور نہ آئے اس وقت تک ہم اپنی تقدیر عظیم افراد اور حملہ آوروں کے سپرد کر کے ان کے مظالم کا شکار ہوتے رہیں گے۔


5 Comments