کوئی شے چھپ نہیں سکتی، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ

آصف جیلانی

اب اس بات میں قطعی کوئی شبہ نہیں رہا کہ داعش کے ظہور کے پیچھے ، در اصل امریکا کی سی آئی اے،اسرائیل کی موساد اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کا ہاتھ ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اگر کوئی اس بارے میں دستاویزی ثبوت طلب کرے تو یہ پیش کرنا مشکل ہے ، لیکن حالات سے اخذ کردہ شہادت یا مبنی بہ قرائین ثبوت اس بات کی واضح نشاندہی کرتے ہیں کہ مشرق وسطی میں امریکا ، اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے جو مقاصد ہیں، ان کے حصول کے لئے داعش کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اور داعش کا قلع قمع کرنے کے لئے امریکا اور مغربی طاقتوں کی طرف سے حملوں کا جو دعویٰ کیا جارہا ہے وہ محض دکھاوا ہے اور حقیقت میں ان ہی طاقتوں کی طرف سے عراق اور شام میں داعش کو زندہ رکھا جارہا ہے۔

اس حقیقت کی کوئی تردید نہیں کر سکتا کہ القاعدہ ، امریکا کی سی آئی اے کی منظم کردہ تنظیم ہے اور داعش نے دراصل ، عراق میں القاعدہ سے ملحق تنظیم کی حیثیت سے جنم لیا تھا۔ شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف لڑنے والی دو اہم تنظیموں ، جبہتہ فتح الشام اور جہبہ النصرہ کے ساتھ داعش کے قریبی روابط رہے ہیں ۔ان تنظیموں کو امریکا ، سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک کی آشیر باد حاصل رہی ہے۔ جبہتہ فتح الشام اور جبہتہ النصرہ سے مشترکہ مفادات کی بناء پر داعش کے امریکا کے ساتھ گہرے روابط ثابت ہوتے ہیں۔

اس سوال کا ابھی تک امریکا کی طرف سے کوئی قابل فہم جواب نہیں مل سکا ہے کہ جون 2014میں جب داعش کی سپاہ ، ٹیوٹا پک اپس میں سوار شام سے عراق میں داخل ہوئی تھیں تو اس وقت نہ تو امریکا کے جاسوس سیارچوں نے ان کاسراغ لگایا اور نہ عراقی فوج نے ان کا راستہ روکا۔ داعش کی سپاہ کے یہ قافلے جب شام کے پانچ سو میل طویل صحرا سے گذر رہے تھے ، تو اس وقت امریکا کے ایف پندرہ اور ایف سولہ طیارے بڑی آسانی سے ان قافلوں کو نشانہ بنا سکتے تھے اور داعش کو نیست و نابود کر سکتے تھے۔

دس10جون کو داعش نے دس لاکھ کی آبادی والے ،عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر جب قبضہ کیا تھا تو یہ کسی طور بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ پینٹاگان اور سی آئی اے کو علم نہیں تھا کہ داعش کی سپاہ شام سے موصل کی جانب پیش قدمی کر رہی ہیں۔پھر یہ بھی بات سمجھ سے باہر ہے کہ موصل میں عراق کی 30ہزار فوج نے داعش کی ایک ہزار سپاہ کے سامنے آنا فانا ہتھیار ڈال دئے۔ ہاں امریکی فضایہ نے داعش کی سپاہ پر اس وقت بمباری کی جب انہوں نے تیل سے مالا مال کردستان کی جانب پیش قدمی کی جس پر امریکیوں کا خاص دست شفقت ہے۔ 
امریکا کی طرف سے اس بات پر بہت شور مچایا جاتا ہے کہ صدر اوباما نے اگست 2014میں داعش کے خلاف بڑے پیمانہ پر بمباری کی مہم شروع کی تھی ، لیکن اس کا مقصد صرف کردستان کو بچانا تھا، داعش کا قلع قمع کرنا نہیں تھا۔امریکی سینٹ کام کے مطابق2014 سے اب تک امریکا نے داعش کے ٹھکانوں پر 32ہزار سے زیادہ حملے کئے ہیں ۔ اس پیمانے کے حملوں کے باوجود داعش کو شکست نہیں دی جا سکی ہے۔ ان حملوں کے دوران، داعش کی تیل کی تنصیبات پر 2638حملے کئے گیے اور 9ہزار فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ فوجی مبصر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس پیمانے کے حملوں سے داعش کی کمر نہیں توڑی جاسکی۔

پھر اب گذشتہ اکتوبر سے عراقی فوج نے شیعہ ملیشیا اور کردوں کی پیش مرگہ فوج کے ساتھ مل کر موصل کو داعش کے قبضہ سے آزاد کرانے کے لئے فوجی کاروائی شروع کی گئی ہے۔ پچھلے تین ماہ کے دوران ، عراق کے دو ہزار فوجیوں کی ہلاکت اور امریکی فضایہ کی زبردست بمباری کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے ، گو موصل کے مضافات کے دیہاتوں پر تو قبضہ کر لیا گیا ہے لیکن موصل شہر میں داخلہ میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ جب کہ موصل پر حملہ آور فوجوں کی قیادت اور مدد امریکی فوج کے خاص دستے کر رہے ہیں۔

عراق میں اتحادی فوجوں کے امریکی کمانڈر ، لفٹنٹ جنرل اسٹیفن ٹاونسینڈ نے پچھلے ہفتہ صاف صاف کہا ہے کہ عراق میں موصل اور شام میں رقہ میں داعش کا صفایا کرنے میں کم سے کم دو سال لگیں گے۔ فوجی مبصرین کا کہنا ہے کہ شام میں روسی فوجوں کی فیصلہ کن مداخلت اور موصل میں امریکی فوج کی مداخلت میں نمایاں فرق ہے اور اس بناء پر اس شبہ کو تقویت پہنچ رہی ہے کہ امریکا موصل میں داعش کا مکمل قلع قمع کرنا نہیں چاہتاہے۔

اب یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ داعش کے قیام کا مقصد در اصل مشرق وسطی میں امریکا اور اسرا ئیل کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کرنا ہے۔ امریکا اور اسرائیل دونوں عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں ، ایک شیعہ مملکت میں دوسرے موصل میں سنی ریاست میں اور تیسرے کردستان میں جس میں تیل کی وجہ سے امریکا کا خاص مفاد وابستہ ہے۔ اسرائیل ہمیشہ سے عراق کو اپنے خلاف ایک اہم محاذ گردانتا رہا ہے اور اسے کمزور کرنے کے جتن کرتا رہا ہے۔جون 1981میں بغداد سے دس میل دور عراق کے جوہری ری ایکٹر پر اسرائیل کا اچانک حملہ اور اس کی تباہی ، اسی کاوش کا حصہ تھا۔

ادھر امریکا ، اسرائیل اور برطانیہ، شام کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل ، ہمیشہ شام کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتا رہا ہے کیونکہ شام نے شروع سے فلسطینیوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی ہے اور فتح اور حماس کے قایدین کو پناہ دی ہے ۔ پھر شام ، اسرایل کے عرب پڑوسیوں میں واحد ملک ہے جس نے اسرایل سے امن سمجھوتہ نہیں کیا ہے اور جولان کی پہاڑیوں کا مسلۂ اب بھی تنازعہ کا باعث ہے۔ جولان کی پہاڑیوں کا علاقہ دریائے اردن کا منبع ہے جس پر اسرایل اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے ، اسی لئے اسرایل ، شام کو کمزور کر نے کے لئے اسے شیعہ اور سنی مملکتوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ 
امریکا ، عراق میں موصل کو سنی مملکت کی حیثیت سے داعش کے زیر تسلط رکھنا چاہتا ہے ۔ اس کا بنیادی مقصد ، تہران سے بیروت تک ایران کے اثر کی قوس کو توڑنا ہے۔ اور در اصل اسی بناء پر امریکا موصل کو داعش کے زیر اثر رکھنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکا ، عراق سے داعش کا مکمل قلع قمع کے لئے بھر پور فوجی کاروائی سے پس و پیش کر رہا ہے۔ اور اسی بنیاد پر مبصرین یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ داعش کو منظم کرنے کے پیچھے امریکا اور مشرق وسطی میں اس کے اتحادیوں کا ہاتھ ہے۔ کوئی شے چھپ نہیں سکتی ،سب طریقے ہیں ساحرانہ۔

One Comment