عرب ممالک نے قطرسے تعلقات کیوں ختم کیے؟

 سعودی عرب کی شہ پر چھ عرب ممالک نے قطر پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات منقطع کردیئے ہیں۔

ریاض حکومت نے آج پیر پانچ جون کو اپنے اعلان میں کہا، ’’سعودی عرب نے خود کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے محفوظ رکھنے کے لیے قطر کے ساتھ سفارتی روابط ختم کرنے اور اس ملک کے ساتھ ملنے والی تمام سرحدیں بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ اس بیان میں سعودی حکومت نے تمام برادر ممالک سے ایسا ہی کرنے کے لیے کہا ہے۔

اس کے فوری بعد سعودی عرب کی تقلید کرتے ہوئے پہلے بحرین اور پھر متحدہ عرب امارات نے بھی اپنے اپنے ملکوں میں موجود تمام قطری سفارت کاروں کو 48 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کا کہہ دیا۔ اس کے بعد قاہرہ حکومت نے بھی یہ کہتے ہوئے کہ قطر نے کالعدم مصری تنظیم اخوان المسلون اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو تعاون فراہم کیا تھا، قطر کے ساتھ تعلقات توڑ ڈالے۔ اس طرح اب ان چاروں ممالک سے قطر کے لیے کوئی پرواز نہیں جائے گی اور نہ ہی سمندر کے ذریعے کوئی رابطہ ممکن ہو سکے گا۔ متحدہ عرب امارات کی فضائی کمپنی اتحاد ایئر ویز نے قطر کے لیے اپنی پروازیں منقطع کر دی ہیں۔

 قطر کے دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ روابط مئی کے اواخر میں اس وقت کشیدہ ہوئے تھے، جب ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی۔ ہیکرز کی جانب سے شائع کی جانے والی اس ویڈیو میں قطری امیر شیخ تمیم الثانی کے ایسے مبینہ بیانات شامل تھے، جن میں وہ دیگر خلیجی ممالک کے سربراہان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اس ویڈیو میں ایران کے تناؤ کو کم کرنے کی بھی بات کی گئی تھی جبکہ اسرائیل اور قطر کے تعلقات کو بھی ’اچھا‘ کہا گیا تھا۔ خلیجی ممالک نے اس بارے میں قطری وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے دوحہ میں قائم الجزیرہ ٹی وی چینل کی نشریات بھی بند کر دی تھی۔

قطر کے خلاف خلیجی ریاستوں کے اس اقدام سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ ایران کے خلاف ابھرنے والے وسیع البنیاد عرب اتحاد میں دراڑیں پڑچکی ہیں۔ سعودی عرب اس عرب خطے کا بے تاج بادشاہ سمجھا جاتا ہے مگر قطر کے انکار نے خطے میں سعودی عرب کے مفادات کو زک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

امریکہ کی سربراہی میں جب ریاض میں ایران کو تنہا کرنے کے مشترکہ عزم کا اظہار کیا گیا تو پاکستان، قطر اور اومان خاموش رہے کیونکہ وہ اس نوع کے کسی بھی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہتے جو شیعہ سنی تفریق میں اضافہ کرے اور مسلمانوں کو باہم صف آراء کردے۔

 قطرکے امیر شیخ تیمیم بن حامد التانی سعودی عرب کے اتحادی تھے اور شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف سعودی جارحیت کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اپنا بھرپور حصہ بھی ڈالا۔ لیکن کچھ عرصے سے قطر نے  سعودی نقطہ نظر سے اختلاف شروع کر دیا تھا۔ اومان کے حکمران سلطان قابوس بھی اس اتحاد سے دور رہے اور وہ ریاض کانفرنس میں بھی شریک نہ ہوئے۔ یاد ر ہے کہ اومان نے یمن کے خلاف فوجی کارروائی میں بھی اپنے دستے نہیں بھیجے تھے۔

بدقسمتی سے سعودی عرب اورایران کی پالیسیوں نے نہ صرف ان کو ایک دوسرے کے مدمقابل  کھڑا کیا بلکہ پوری مسلم امہ کو شیعہ، سنی عقائد کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا سبب بنے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ جو ملک اس کے ساتھ تعلقات چاہے یا مالی فوائد سمیٹنا چاہتاہے اسے ایران مخالف کیمپ میں کھڑا ہونا ہوگا۔

قطر نے پچھلے کچھ سالوں سے سعودی عرب کی بجائے اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی کو اپنانا شروع کیا تھا۔بحرین اور یو اے ای کی طرح قطر نے سعودی ڈکٹیشن لینے سے انکار کر دیا تھا۔2011 میں جب مصر کے صدر حسنی مبارک کو معزول کیا گیا تو قطر نے اخوان المسلمون کی حمایت کی جس سے سعودی قیادت خوش نہیں تھی۔جب 2013 میں جنرل السیسی نے صدر مرسی کی حکومت کو ختم کیا تو قطر کے الجزیرہ ٹی وی نے اس عمل کی مذمت کی تھی جبکہ سعودی عرب نے جنرل السیسی کا خیر مقدم کیا تھا۔

قطر کے ایران سے بھی دوستانہ تعلقات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قطر نے ایران کے خلاف سعودی اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ سعودی عرب نے جب شیعہ لیڈر شیخ النمر کو پھانسی دی تو اس نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے جبکہ قطر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا جس پر سعودی قیادت نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔امیر قطر نے ایران کی حمایت یافتہ فلسطینی تنظیم حماس کی بھی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا تھا۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک مشکل ترین دور کی ابتداہوچکی ہے۔ غالباً شعیہ سنی کی بنیاد پر اس قدر کشیدگی عصری تاریخ میں دیکھنے کو نہیں ملی۔ خاص طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کہ ہمارے ہاں تمام تر اختلافات کے باوجود سیاسی اور قومی سطح پر ابھی تک دوٹوک قسم کی فرقہ وارانہ تفریق نہیں پائی جاتی۔

اس ملک کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کا تعلق فرقہ اثنا عشرہ سے تھا اور کئی ایک حکمرانوں اور سپہ سالاروں کا تعلق بھی اسی فرقے سے رہاہے جو پاکستان کی کمزوری نہیں بلکہ کثیر الجہتی ہونے کا ثبوت ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت پاکستان عرب اور ایران سے اٹھنے والی فرقہ وارانہ تقسیم کی لہرسے نہ صرف خود کو بچانے کی کوشش کرے گی بلکہ اپنے شہریوں کو بھی اس آگ کا ایندھن نہیں بننے دے گی۔ 

پاکستان پر دباؤ تو بہت پڑے گا کہ قطر کے خلاف کھڑے ہوجاؤ لیکن پاکستان کو بھاؤ تاؤ کرنے کے بجائے مسلم امہ اور قومی مفاد میں اپنی خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کرنا ہوگا۔

ارشاد محمود/نیوز ڈیسک/DW

2 Comments