تضاد

فرحت قاضی

ہر چیز اپنے تضاد سے پہچانی جاتی ہے یہ تضاد اس کا قد و قامت گھٹاتی اور بڑھاتی بھی ہے
تاریکی کو اجالے
اور اجالے کو تاریکی
دن کو رات اور رات کو دن
نیکی کو بدی اور بدی کو نیکی
سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ 
امیر کو غریب اور غریب کو امیر ۔۔۔۔۔۔ سے پہچانا جاتا ہے

حتیٰ کہ زندگی کو موت اور موت کو زندگی کے باعث پہچانا جاتا ہے اس لئے مرزا غالب نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے
مصرعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
نہ ہو موت تو جینے کا مزا کیا
ایک گیت میں بھی اس کا اظہار اس طرح کیا گیا ہے
اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے
اگر ہوتے سبھی اپنے تو بیگانے کہاں جاتے
تضاد کے پیمانے اور نسخہ کو وڈیرہ شاہی اپنے قد و قامت کو سماج میں اونچا کرنے اور رکھنے کے لئے استعمال کرتی رہی ہے چنانچہ قدیم معاشروں میں صدیوں تک لوہار ،چمار، ترکان ، کمہار، چوکیدار ، مالی ، نائی، دھوبی، قصائی، درزی، خاکروب اور محنت کے دیگر شعبہ جات سے وابستہ افراد اور خاندانوں کو کم ذات ، کم تر اور نیچتا سمجھا گیا ان کا سماجی مرتبہ ہمیشہ کم اور گھٹیا رکھا گیا

ان محنت کشوں کی کم ذاتی ، کم تری اور نیچتا نے صاحب جائیداد اور وڈیروں کا قد و قامت کیسے اونچا اور بلند رکھا اس کی مثال انتخابات کے دوران مشہور ہونے والا یہ لطیفہ ہے

’’ ایک سیاست دان انتخابات میں امید وار تھے اور گاؤں میں سٹیج پر کھڑے اپنی تقریر اور خطاب میں ایک ایک جماعت اور اس کے امیدوار کا نام لیتے جاتے اور ساتھ ہی ان کے لتے بھی لیتے جارہے تھے چنانچہ کسی پر اپنے دور حکومت میں شمالی وزیرستان کے متاثرین کے لئے عالمی امداد میں غبن اور خو را کی اشیاء میں گھپلوں
کسی پر صوبائی اور وفاقی کمیشن کے امتحانات میں اقرباء پروری
ایک پر غریب غرباء کے بچوں کے تعلیمی فنڈ ہڑپ کرنے
سرکاری راشن اور امدادی اشیاء رشتے داروں اور پارٹی ارکان میں بانٹنے کے الزامات عائد کئے
جب وہ امیدوار ہر ایک کا کچا چھٹا بیان کرکے چپ ہوگئے تو حاضرین میں سے ایک نوجوان نے اٹھ کر پوچھا
’’
جناب عالیٰ!
آپ نے تو ہمارے پاس کوئی چائس ہی نہیں چھوڑا
پرچم کو ووٹ ڈالیں گے تو آٹا اور چینی
قلم دوات کو تو تعلیمی فنڈ اور سکالر شپ
چاقو دیکھتے ہی ملازمتوں کی بندر بانٹ
کھمبا تو واپڈا اور سڑک کی تعمیر میں ناقص میٹریل کے تصورات اور تصاویر آنکھوں کے پردے پر آنے پر ہمارا ہاتھ باربار اور خود بخود رک جائے گا لہٰذا یہ بتاہئے کہ بالآخر پھر کس کو اپنا ووٹ پول کریں‘‘

سیاسی جماعت کے رہنماء اور امیدوار نے اپنی جانب ہاتھ کرتے ہوئے جواب دیا
’’
خدمت کے لئے یہ ناچیز بندہ حاضر ہے‘‘
اسی طرح سماج میں لوہار ، نائی، درزی اور دھوبی سمیت ہر کسب گر کو کم ذات اور کوتاہ قد ثابت کرنے کے بعد ایک وڈیرہ ہی رہ جاتا تھا

ان پیشہ وروں کے کم ذات مشہور ہونے سے صاحب جائیداد طبقہ کا فقط سماجی مرتبہ ہی بلند تسلیم نہیں کرلیا گیا تھا بلکہ سماج میں اخلاقی قدریں بھی ان کا قدوقامت بلند کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی تھیں چنانچہ ایک محنت کش کی محنت کا پھل چونکہ اس طبقہ کو پہنچتا تھا اور مالک کی پیداوار دگنی اور تگنی ہوتی تھی تو اس لئے محنت و مشقت کو بہترین عمل اور محنت کرنے والے ملازم کو وفادار اور نیک سمجھا جاتا تھا اسی طرح اس کی سادگی بھی اس کے لئے مفید ثابت ہوتی تھی تو محنت کش سادہ زندگی کو ترجیح دیتا تھا اور اپنے اور اہل خانہ کے لئے مزید اجرت اور مراعات کا مطالبہ کرنے سے گریز کرتا تھا بلکہ مالک اسے جتنا دیتا اور اسی کو غنیمت جانتا تو معاشرے میں ملنگ اور اللہ والا مشہور ہوجاتا تھا

اس کے برعکس جو مزدور کم معاوضہ کا شاکی رہتا محنت سے جی چرا تا دولت مند بننے کی تگ و دو کرتا تو اسے حریص بدنام کرکے دیگر محنت کشوں کو اس سے دور رہنے کا مشورہ دیا جاتا تھا حتیٰ کہ اس کی انسانی حیثیت اور مقام گر اکر کتّے سے تشبیہ دی جاتی تھی اس نوعیت کی سماجی قدریں صدیوں تک طبقاتی اور جاگیردارانہ استحصال پر استوار سماج کو سہارا دیتی رہیں

اس حوالے سے تکرار کا عمل بھی اس نظام کے لئے ستون کا کام دیتا رہا اس عمل نے اشیاء اور افعال کو دو واضح خانوں میں بانٹ دیا تھا تکرار کے عمل کی ایک عام مثال ان دنوں کرکٹ کا کھیل ہے گو کہ یہ بھی ہاکی، فٹ بال، والی بال، کشتی اور کبڈی کی مانند ایک کھیل ہے مگر باقی کو چھوڑ کر اس پر سب سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے پاکستان کی تخلیق کے کچھ عرصہ کے بعد ہاکی اور فٹ بال کو قومی کھیل کا مقام اور درجہ حاصل رہا ان کے فروغ اور ترقی کے لئے ضلعی ، صوبائی اور وفاقی سطح پر فنڈ وقف کیا جاتا رہا کھلاڑیوں کی تربیت ہوتی تھی سال کے خاص مہینوں اور دنوں میں کھیلوں کا انعقاد کیا جاتا تھا اور عوام میں مقبول بنانے کے لئے ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز اور ارباب اختیار کے لئے ان مواقع پر اپنی موجودگی کو ضروری بنا دیا گیا تھا

جنرل ضیاء الحق کے غیر آئینی دور حکومت میں ان تمام کھیلوں کو پس پشت ڈال کر تمام تر توجہ کرکٹ اور صرف کرکٹ پر مرکوز کردی گئی اس کے فروغ اور ترقی کے لئے وسائل پیدا اور وقف کئے گئے اور میڈیا کے ذریعے اس کی اس قدر زیادہ تشہیر کی گئی کہ یہ کھیل نہیں رہا کرکٹ مینیا بن گیا اور صورت حال یہ ہوگئی کہ عام ملازمین تو کیا بعض اعلیٰ افسران بھی پاک انڈیا کرکٹ میچ دیکھنے کے لئے سرکاری فرائض اور خدمات بھول گئے

کیا کرکٹ پاکستان کی ضرورت اور اس کا ملک اور خوشحالی سے رشتہ و تعلق ہے کیا یہ باقی کھیلوں سے آسان اور زیادہ فوائد رکھتا ہے اس ایک کھیل پر باقی کھیلوں کو بالآخر کیوں اتنی فوقیت دی گئی جب یہ حقیقت جانتے ہیں تو تعجب ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ حکمران طبقے کی مفاداتی سیاست اور خود غرضی سے بھی پردہ اٹھ جاتا ہے کہتے ہیں ایڈولف ہٹلر کھیل دیکھنے کے لئے مدعو کئے گئے تھے وہ تین روز تک مسلسل کھیل کے میدان میں حاضر ہوجاتے تھے تیسرے دن کھیل تمام ہوا تو انہوں نے پوچھا
’’
کون جیت گیا ہے؟‘‘
جس پر ان کو جواب دیا گیا کہ میچ ڈرا ہوگیا ہے

ایڈولف ہٹلر نے کرکٹ کے کھیل کو قوم کے وقت کا ضیاع قرا ر دے کر اس پر جرمنی کے دروازے بند کردئیے چنانچہ دیکھا جائے تو نوجوانوں اور قوم کے وقت کا ضیاع ہونے کے باوجود تکرار کے عمل کے ذریعہ پاکستان میں اس کھیل کو اہمیت حاصل ہوگئی

انگریز نے وقت کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے متحدہ ہند کے مختلف بڑے شہروں میں گھنٹہ گھر تعمیر کئے ہوئے تھے ان کی زبان میں ٹائم کو منی کہا جاتا ہے چنانچہ جس کا یہ مطلب واضح ہے کہ ہم اپنا قیمتی وقت اور پیسہ ضائع کر ر ہے ہیں

ہم پشتون روایات، رواجات، رسومات اور ثقافت کی دل و جان سے قدر کرتے اور اس پر فریفتہ ہونے کے لئے بھی تیار رہتے ہیں تو یہ بھی تکرار کا ہی کمال اور جادو ہے پشتون قبائلی علاقہ جات ہی نہیں بلکہ پورے پشتون بیلٹ میں اسلحہ و ہتھیار کو مردوں کا زیور سمجھا جاتا تھا چنانچہ خواتین نئے سے نیا زیور خریدنے کے لئے شوہر وں پر زور دیتی تھیں تو نوجوانوں میں بھی نیا اعلیٰ پستول اور بندوق اپنے پاس رکھنے اور گلے میں لٹکا کر گھر سے باہر نکلنے کا رواج تھا

وقت نے پلٹا کھایا تعلیمی ادارے کھلے اور روزگار کے نت نئے ذرائع پیدا ہوئے تو نئے رحجانات نے بھی جنم لیا تعلیم اور نئے روزگار کے اپنے تقاضے تھے ایک لڑکا اور نوجوان سکول بیگ کے ساتھ پستول اور بندوق نہیں لے جاسکتا ہے اسی طرح فیکٹری و کارخانہ میں بھی کام کے دوران اسلحہ و ہتھیار نہیں رکھا جاسکتا ہے رفتہ رفتہ اسلحہ و ہتھیار فوجی ، پولیس اہلکار ، چو کیدا ر اور علاقے کے بدمعاش تک محدود ہوگیا طالب علم اور تعلیم یافتہ پشتون نے ان ہتھیاروں کی نئی حیثیت کو تسلیم کرلیا تو اپنے پاس رکھنا معیوب سمجھنے لگا چنانچہ آج لڑکا، نوجوان اور مرد ریسٹ واچ، گلے میں لاکٹ او ر ہاتھ میں موبائل رکھتا ہے اور گھر میں کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ ہوتا ہے

حکومت اور بالا دست طبقات میڈ یا اور پروپیگنڈے کے تمام ذرائع اسی لئے اپنے پاس رکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں تاکہ وہ جن اشیاء اور افعال کو اپنے لئے بہتر اور مفید سمجھتے ہیں ان کو ملک، معاشرے اور تمام عوام کے لئے مفید اور بہتر بناکر پیش کر سکیں اور جو ان کے مفادات سے ٹکراتے ہیں ان کو تمام لوگوں کے لئے برا بنا دیں
یعنی
برائی اور اچھائی ۔۔۔۔۔۔۔ کو ان کی ہی نظر سے دیکھنے کی قدیم روایت برقرار رہے

چنانچہ اگر آپ سچائی جاننے کے متمنی ہیں اپنے علم اور عقل میں اضافہ چاہتے ہیں تو اچھائی کے برے اور برائی کے اچھے پہلو کو یاد رکھنے کے لئے غالب کے شعر کا یہ مصرعہ اپنے سامنے دیوار پر لکھ لیں
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چور نہ ہو تو پولیس کی ضرورت کیا

Comments are closed.