ڈاکٹر دین محمد بلوچ کا سمی کے نام کھلا خط 

کمبر لاسی 

سمی میری بہادر بیٹی !۔
میری بہادر اور ذہین بیٹی آٹھ سال بعد مجھے موقعہ ملا ہے کہ میں اپنے خیالات اور حساسات کو آپ تک پہنچاؤں ۔امید ہے آپ خیریت سے ہونگے۔میلی کو میرا پیار دینا۔میرے دوستوں کو سلام دینا ۔میرے گاؤں اور مادر وطن کو اُس کے بیٹے کی جانب سے سلام کرنا۔

سمُل!۔
ہم یہاں سامراج کی سیاہ رات عقوبت خانوں میں قید ہیں ۔سورج نکلنے کا معلوم ہوتاہے نہ ہی سورج ڈوبنے کی مناظر نصیب ہوتی ہے۔صبح و شام کی اطلاح نگران سپائیوں کی شفٹ تبدیلی سے ہوتی ہے ۔ اس سیاہ رات عقوبت خانے میں قیدیوں کو عید کی فکر رہتی ہے نہ تہواروں کی ، خوشی ،غم، دُکھ و درد یہاں سب مشترک ہوتے ہیں ۔

سمُل! میرے ساتھ یہاں ہزاروں سیاسی قیدیاں قید ہیں ۔ان سب کا تعلق بلوچستان سے ہے اور سب کا جرم مشترک ہے۔کسی کا تعلق بولان سے ہے ، تو کسی کا آواران سے ،کسی کا ساراوان سے تو کسی کا کوہ سلیمان سے ہے لیکن سب بلوچ ہیں ۔اس عقوبت خانے میں انسانیت سوز تشدد ، ذہنی و جسمانی اذیت ، اپنوں کی یاد ، آزادی سے جینے کی خواہش جیسے احساسات کے باجود یہاں کے قیدی استحصالی نظام پر طویل بحث و مباحث کرتے ہیں، سامراجیت کے خلاف اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ، قومی جدوجہد کے حوالے سے ان کے حوصلے آج بھی بلند ہیں ۔میری بہادر بیٹی یہاں ان دوستوں کی فکری مظبوطی کو دیکھ کر پختہ یقین ہوجاتا ہے کہ جدوجہد ہمیشہ زندہ رہے گا ۔

بیٹی!۔

یہاں قیدیوں کی اکثر و بیشتر ترتیب بدل دی جاتی ہے اس لیے ہمیں ایک دوسرے دوستوں کی دیدار نصیب ہوتی ہے ۔میری اور ذاکر جان کی اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں متعدد دفعہ ہمیں ایک ہی کوٹی میں رکھا گیا ہے۔ایک ہی کوٹی میں ہونے کی وجہ سے ہم اکثر بلوچستان کے سیاسی حالات پر بحث کرتے ہیں ۔ شائدآپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ قید خانے میں بھی سیاسی بحث !!! سُمل !ہم خیال سیاسی دوست زندگی کے کسی بھی مقام میں ملے ان کے سیاسی موضوع پر بحث ضرور ہوتی ہے۔

سمُل میری بہادر بیٹی!۔
ایک دن ہم عالمی سیاست پر بحث کر رہے تھے تو ہمارے بحث کا رُخ انقلاب چین کی طرف گیا ۔چیئرمین ماؤ کی قیادت نے چینی عوام کو نیا مستقبل دیا ۔اور ہماری بحث آگے بڑھ رہی تھی تو کسی نے کہا چین کے انقلاب میں لانگ مارچ نے بہت بڑاکردار ادا کیاہے۔ایک اور دوست دلیل دے رہا تھا اچانک بحث میں ایک نیا قیدی شامل ہوگیا۔یہ دوست شایدحالیہ دنوں یہاں لایا گیا تھا۔ اس نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے لانگ مارچ کی ذکر کیا یہ دوست ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھتا تھا۔تو ہم سب خاموش ہوگئے ۔

اس نے ہم دوستوں میں سے کچھ کو پہچانا۔لیکن اُس شخص نے اپنا نام نہیں بتایا۔ہمیں اس سے قبل وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی لانگ مارچ کے حوالے سے کچھ معلوم نہیں تھا۔ اس شخص نے ہمیں بتایا۔یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی ، خوشی سے میرے آنسو نکل گئے اورمجھے تم پر ناز رہا۔بیٹی ! مجھے تم پر فخر ہے کہ میری بیٹی نے لاپتہ بلوچ اسیران کے بازیابی کیلئے طویل لانگ مارچ میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔سمُل !بلوچ جدوجہد ایک تاریخ رقم کر رہا ہے اور اس تاریخ میں آپ کا نام ضرور ہوگا۔

میری بہادر بیٹی!۔
ٓآپ معاشرہ میں اُن لوگوں کو ضرور دیکھو گے کہ اُ ن کی زندگی کا کوئی مقصد ہے اور نہ ہی اُن کی کوئی منزل ہے ۔وہ صرف اپنے لیے جیتے ہیں اور خواہشوں کے پیچھے بھاگتے ہیں لیکن تم اُن سے مختلف ہو۔ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک آرام دہ زندگی گزارے اور اپنے بچوں کو عید میں اچھے کپڑے لے کر دے۔ لیکن مجھے آپ پر فخر ہے کہ آپ ایک سیاسی جدوجہد کے مسافر ہو اور تمہارے زندگی کا مقاصد پورے قوم کے لیے ایک برابری کا نظام ہے آج آپ میں اور معاشرہ کے اُن لوگوں میں ایک فرق ہے۔

سمی!۔
آپ سوچ رہے ہو کہ میں آپ سے سیاسی باتیں کررہا ہوں۔ آج آپ میری بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ میرے نظریاتی دوست بھی ہو۔ میں چاہتا ہو کہ تمہارے ساتھ بیٹھ کر تاریخ،سیاست اورفلسفہ پر بحث کروں۔میں تمہارے ساتھ بات کررہا ہوں اور مجھے جواہر لعل نہرو یاد آرہا ہے کہ نہرو نے کس طرح اپنے بیٹی کو خط لکھے اور اسی طرح میں بھی چاہتا ہوں ۔تمہارے سامنے نہرو کی کتاب ’’تاریخ عالم پر ایک نظر ‘‘کبھی گزرے اسے ضرور پڑھنا۔نہرو ایک عظیم لیڈر تھااور اُس نے اندرا گاندھی کی تربیت ان خطوط کے ذریعے کی تھی ۔جب انڈیا خشک سالی کا شکار تھا تو اندرا گاندھی ہی وہ شخصیت تھی جس نے انڈیا کو اس نازک وقت سے نکال کر ترقی کے راستہ پر گامزن کردیا۔ 1971ء میں اندرا گاندھی ہی تھی جس نے نازک وقت میں بنگالیوں کی مدد کی اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔

سمُل!۔

تاریخ میں یہ بات بھی رقم ہے کہ جب کبھی کسی مظلوم نے سامراج کے خلاف حق کی آواز بلند کی تو سامراج کتنا بھی طاقت ور تھا لیکن وہ مظلوموں کے سامنے ٹک نہیں پایا۔اس طرح کی مثالیں دنیا کی تاریخ کی تمام ادوار میں ملے گی۔ انقلاب کیوبااورویت نام کا انقلاب دنیا کے لیے بڑی مثالیں ہیں کہ دنیا کے سب سے طاقت ور ملک بھی عوامی طاقت کے سامنے ٹک نہیں پایا۔آج ہمارے وطن کو بھی اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے۔لیکن سمُل! یہ ہمارا ایمان ہے بلوچستان کے عوامی جدوجہد کے سامنے شکست اغیار کی مقدر ہوگی۔

میری بہادر بیٹی!۔
میں چاہتا ہو کہ میں تمہارے ساتھ بیٹھ کر مختلف موضوحات پر بحث کروں لیکن اس سپاہی نے مجھے 20 منٹ دیے تھے وہ اب پورے ہورہے ہیں ۔میں امید کرتا ہو ں آپ اپنے سیاسی جدوجہد کو اسی طرح جاری رکھوگے اور مجھے آپ پر ہمیشہ فخر ہے ۔

سُمل!۔
میری میلی کا خیال رکھنا اُسے بہت پیار دینا ، میری نیک خواہشات ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں۔

آپ کا والد ۔ڈاکٹر دین محمد بلوچ 

Comments are closed.