نواز شریف حاضر ہوں ۔ کیا یہ مکافات عمل ہے؟

پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی چھ رکنی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم نے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو جمعرات کو پیش ہونے کا نوٹس بھیجا ہے۔جے آئی ٹی کی جانب سے بھجوائے گئے نوٹس کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کو 15 جون بروز جمعرات صبح 11 بجے اسلام آباد میں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں جے آئی ٹی کے سامنے طلب کیا گیا ہے۔

وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس معاملے پر ردِ عمل دیتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ وزیراعظم کے جے آئی ٹی میں جانے کے فیصلے سے پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم ہورہی ہے۔

انھوں نے کہا ’محض بیان بازی نہیں، وزیراعظم کا جے آئی ٹی جانے کا فیصلہ پاکستان کے آئین اور قانون کی عملی پاسداری کا ثبوت ہے۔‘وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا وزیراعظم نے کسی عذر یا بہانے کا سہارا نہیں لیا بلکہ پاکستان کی عوام کے اعتماد کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا۔

جے آئی کی جانب سے بھیجے گئے نوٹس میں وزیراعظم نواز شریف کو دستاویزات اور ریکارڈ ہمراہ لانے کا کہا گیا ہے جبکہ وزیراعظم ہاؤس نے نوٹس کی موصولی کی تصدیق کر دی ہے اور کہا ہے کہ وزیراعظم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے۔

اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سکیورٹی حکام کو موصول ہونے والے احکامات کے مطابق 15 جون کو وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے لیے روٹ لگانے اور حفاظتی اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ اس سے قبل نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز پانچ بار اور حسین نواز دو بار جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔ 

دوسری جانب پیر کو حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کا معاملے اور نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کی طرف سے پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی چھ رکنی تحقیقاتی ٹیم کے مبینہ نامناسب سلوک کے خلاف سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو لکھے گئے خط کے بارے میں سماعت ہوگی۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ ان درخواستوں کا جائزہ لے گا۔ جبکہ گذشتہ سماعت کے دوران تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیا نے تفتیش کے دوران رکاوٹوں کا بھی ذکر کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے انھیں الگ سے درخواست دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں چھ رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کا حکم دیا تھا۔

اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے تین جج صاحبان نے کمیٹی کو ساٹھ دن کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا وقت دیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹیم کے لیے وضع کیے گئے ضوابط کمیٹی کو ہر 15 دن کے اندر اپنی رپورٹ تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔

جب کہ 22 مئی کو وزیر اعظم اور اُن کے دو بیٹوں کے خلاف پاناما لیکس سے متعلق تحقیقات کرنے والی ٹیم کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے 60 روز سے زیادہ کی مہلت نہیں دی جا سکتی۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق جن حالات سے نوازشریف آج کل گذر رہے ہیں ٹھیک پانچ سال پہلے ،پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ یہی کچھ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ کررہی تھی اور نواز شریف وزیر اعظم بننے کے لیے سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوگئےاور میثاق جمہوریت کی دھجیاں اڑاتے ہوئے، کالا کوٹ پہن کر پیپلزپارٹی کی حکومت گرانے کے لیے سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔

لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت بدلہ لینے کی بجائے جمہوریت کی خاطر نوازشریف کے ساتھ کھڑی ہے اور وہ کوئی ایسا ہتھکنڈا استعمال نہیں کر رہی جس سے ایک منتخب حکومت کو گرایا جاسکے۔

BBC/News desk

4 Comments