خاص لوگ

انور عباس انور

ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا طمانچہ کس کے رخساروں پر۔۔۔؟؟؟
ذوالفقا ر علی بھٹو جونیئر کی ایک وڈیو کیا ریلیز ہوئی، دنیا خصوصاً پاکستان کی سیاست میں ہلچل برپا ہوگئی،میڈیا میں ہر سو ذوالفقار علی بھٹو ہی دکھائی دے رہا ہے، کسی کا موضوع ’’ہائے میں ذوالفقا ر علی بھٹو ہوں‘‘ کسی نے زندہ باد ذوالفقا ر علی بھٹو جونیئر کے زیر عنوان قلم اٹھایا تو کسی نے لکھا’’ بھٹو کو بس جینے دو‘‘ ۔۔۔ان سب لکھاریوں نے بھٹو خاندان کے سپوت اور واحد وارث و جانشین ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کے فیصلے کی توصیف و توثیق کی ہے بلکہ اسے بھٹو جونیئر کے جرات مندانہ اور سچائی کا مظہر قراردیا ہے، ذوالفقا ر علی بھٹو جونیئر کے اس اقدام کی تائید و حمایت کے ساتھ ساتھ اسے منافقت کے معاشرے سے بغاوت کہنا درست ہوگا۔

بلاشبہ اس میں دورائے نہیں کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلائے ہوئے ’’ دنیا کے رہبر‘‘ اور ’’ پسے ہوئے طبقات کے ہیرو‘‘ سامراج کی آنکھوں میں کھٹکنے والے ذوالفقا ر علی بھٹو شہید پیروکار اس امید اور آس اسیر ہوکر پیپلز پارٹی کے اندر اور باہرہر قسم کے جبر و استبداد کو برداشت کر رہے تھے کہ انہیں عزت سے جینے کا سبق دینے والے، سر اٹھاکے چلنے کی راہ دکھا نے والے ذوالفقا ر علی بھٹو شہید کا پوتا بڑا ہوکر میدان میں اترے گا، اس کے ہاتھ میں ترنگا پارٹی پرچم ہوگا اور ایک ہاتھ میں 1970والی تلوار ہوگی اور وہ بھٹوز دشمنوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے علمبرداروں کو للکارے گا،لیکن بھٹو جونیئر نے’’ مرد کے اندر نفاست اور نسوانی حسن‘‘ کی موجود ہونے کا پرچم تھام کر سب کو ورطہ حیرت میں ڈالدیا ہے ،یہ ایک گروہ کیرائے ہے۔

کرہ ارض پر محیط بھٹو کے جیالوں کی امنگوں ، آرزؤوں اور تمناؤں کے مرکز و محور ذوالفقا رعلی بھٹو جونیئر نے اس راہ کا مسافر بننے کا فیصلہ کیا ہے جس پر بلاول بھٹو کے گامزن ہونے کی لوگ توقعات لگائے بیٹھے تھے، کیونکہ ان کو بہت سارے لوگ ’’بلو رانی‘‘ کے کمنٹس کہتے رہتے ہیں، لیکن کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ مردانہ وجاہت ، شباہت سے بھرپور ذوالفقا ر علی بھٹو جونیئر ’’تیسری دنیا‘‘کو اپنائے گا۔

ہمارا معاشرہ تضادات کا مجموعہ ہے، منافقت دل و دماغ میں رچی بسی ہے،جیسے کرپشن ہماری رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے ایسے ہی منافقت سے کام لینا معاشرے کے ہر فرد کا شیوا بن چکا ہے، سیاست دان ہوں ، اداکار ہوں، دین کے علمبردار جنت اور دوزخ کی تقسیم کرنے کے دعوے دار ہوں،سب کے من کے اندر کچھ اور ہوتا ہے اور زبان پر کچھ اور، شائد یہی وجہ ہے کہ ان قومی راہنماؤں اور دین کے ٹھیکیداروں کی واعظ و نصیحت میں تاثیر نہیں، لوگ اپنے سیاستدانوں کی باتوں پر اعتبار نہیں کرتے،کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے راہنما منافقت سے کام لے رہے ہیں، جبکہ وہ سچ کو پسند کرتے ہیں ،سچ جاننا چاہتے ہیں۔

ذوالفقا ر علی بھٹو جونیئر نے سیاسی خانوادوں کے چشم و چراغوں کی تقلید کرتے ہوئے اپنے بڑوں کا سیاسی وارث بننے کی بجائے ’’تیسری دنیا‘‘ کوپنانے کا فیصلہ کرنے پر پہنچنے میں کس بات نے مدد کی؟وہ کیا عوامل ہیں جو بھٹو جونیئرکو سیاست سے دور رہنے کا باعث بنے؟یقینادوسرے اسباب کے ساتھ بھٹو جونیئر کے مدنظر یہ بھی ہوگا کہ سیاست نے ان کے خاندان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا؟ ان کے ذہن میں اپنےداداجان ذوالفقا رعلی بھٹو شہید کی پھانسی کے مناظر تازہ ہوں گے،اسے یہ کہانی بھی کسی نہ کسی نے سنائی ہوگی کہ کس طرح لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں اس کی دادی جان کو پولیس نے اپنی بے رحمانہ لاٹھیوں کا نشانہ بنایا تھا، اور اسے وہیل چیئر پر پڑی اپنی دادی جان کی میت دکھائی دیتی ہوگی؟ اسے اپنے چچا میر شاہنواز بھٹو کی فرانس کے شہر میں مردہ حالت میں پائے جانے کی کہانی کسی نے سنائی ہوگی؟ اور اس کے ذہن و قلب میں اپنی پھوپھوجان کے قتل کیے جانے کے دل خراش مناظر بھی گھومتے ہوں گے۔

بھٹوخاندان سے خصوصا ذوالفقا ر علی بھٹو کے وارثان حقیقی سے متعلق اسٹبلشمنٹ کی خصوصی محبت بھی اسے یاد ہوگی، اور اسے خدشہ ہوگا کہ اگر اس نے سیاست کے میدان میں قدم رکھاتو اسٹبلشمنٹ اسے برداشت نہیں کرے گی، اور وہ اسے راستے سے ہٹانے کے لیے ان کے دادا کی طرح قتل کروانے کی سازش کر سکتی ہے، اگر ایسا نہ کرسکی تو اسٹبلشمنٹ اسے اس کے باپ کی طرح بیچ سڑک کے اندھی گولی کا نشانہ بنا دے گی، وہ یہ بھی سوچتا ہوگا کہ ممکن ہے کہ بھٹو خاندان کے دشمن اسے پھوپھو جان بے نظیر بھٹو شہید کی مثال بنا نے کی کوشش ضرور کریں گے، تب ذوالفقا ر علی بھٹو جونیئر نے سیاست کے میدان میں اترنے کی بجائے اس سے کوسوں دور رہ کر زندہ رہنے کو ترجیح دی ہے۔

ذوالفقا ر علی بھٹو جونیئر نے مردوں میں مردانگی کے جوہر کے ساتھ نفاست اور نسوانیت کے موجود ہونے کی کڑوی بات کرکے منافقت پر مبنی معاشرے ، منافقت کی سیاست کرنے والے سیاستدانوں اور بھٹوز کو قتل کرنے کی خواہش مند اسٹبلشمنٹ کے رخساروں پر ایک زور دار طمانچہ رسید کیا ہے، جس کی ٹیس وہ ایک عرصہ تک محسوس کرتے رہیں گے،وہ انسان یقینا جراتمند کہلانے کا مستحق ہوتا ہے جو سچ کہے، سچ سنے اور منافقوں پر لعنت بھیجتا ہو۔ ہمارے معاشرے میں ایسے انسانوں کا قحط ہے، دور بین اور خوردبین لگانے سے بھی ایسے انسان نہیں ملتے اس حوالے سے ذوالفقا ر علی بھٹو جونیئر ’’شاباش‘‘ کا مستحق ہے۔

بے شک بے نظیر بھٹو شہید اور ذوالفقا ر علی بھٹو شہید غیر طبعی موت مرکر زندہ بھٹوز سے زیادہ طاقتور بن گئے ہیں، لیکن ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے اپنے نانا کی نسل کو زندہ رکھنے اور زندگی انجوائے کرنے کا فیصلہ کرکے سب کو بتادیا ہے کہ بھٹوز اب زندہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، ذوالفقا ر علی بھٹو جوبیئر کا فیصلہ صحیح ہے یا غلط اس کا فیصلہ بھی تاریخ کرے گی۔

ہمیں بس مزید بھٹوز کو گڑھی خدا بخش بھٹو میں دفن ہونے سے بچانا بھی ہے اور ان کی نگہبانی بھی کرنی ہے،کیونکہ اسی طرح ہم غریب بھٹو شہید اور بے نظیر شہید کا واجب الااد قرض چکا نے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، ہمیں اب بھٹوز کو موت کی وادی میں بھیجنے کی بجائے انکی زندگیوں کی حفاظت کرنا ہے اور نعرہ لگانا ہے کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ۔۔۔ بھٹو کو زندہ رکھنا ہے۔

Comments are closed.