امریکا کے بدلتے تیور اور پاکستان کی مشکلات میں اضافہ

آصف جاوید

طفیلی ریاستوں اور امدادی معیشتوں پر قائم ممالک کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں ہر وقت اپنے آقاؤں کے اشاروں پر ناچنا ہوتا ہے۔ اِن ممالک کے لئے آزاد حیثیت میں اپنے امور مملکت چلانا، اپنی ترجیحات طے کرنا اور اپنی داخلہ و خارجہ پالیسیاں چلانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

پاکستان طفیلی ریاست تو نہیں ہے، مگر پاکستان کی معیشت ، امدادی معیشت ضرور ہے۔ پاکستان کو اپنے جارحانہ عزائم پورا کرنے کے لئے ،اپنی فوجی طاقت میں اضافے، جنگی سازوسامان کی خریداری، اپنے فوجی اخراجات پورے کرنے لئے زیادہ تر بیرونی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب (اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے) پاکستان کو دل کھول فوجی اور اقتصادی امداد دیتے ہیں۔ امریکہ کی پاکستان کو دی جانے والی امداد زیادہ تر مشروط ہوتی ہے۔

گذشتہ سال جون میں امریکی سینیٹ نے 602 ارب ڈالر کے ڈیفنس اتھرائزیشن بل کی منظوری دی تھی ، جس کے تحت پاکستان کے لیے 30 کروڑ ڈالر کی امداد کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے مشروط کر دیا گیا تھا۔ گذشتہ سال جون کے بجٹ میں اوباما انتظامیہ نے پاکستان کو 80 کروڑ ڈالر فوجی امداد دینے کی تجویز دی تھی، تاہم سینیٹ نے 30 کروڑ ڈالر حقانی نیٹ ورک کے خلاف عملی کارروائی سے مشروط کردیے تھے۔ اوباما انتظامیہ کو بل پر سخت تحفظات تھے اور اس نے بل کو ویٹو کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

اوباما انتظامیہ کا کہنا تھاکہ پاکستان کی امداد مشروط کرنے سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اور دونوں ممالک کے باہمی تعلقات متاثر ہوں گے۔

پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ (سی ایس ایف) کی مد میں، 2013 سے جون 2016 تک تین ارب دس کروڑ ڈالر دیئے جاچکے ہیں، جبکہ اس فنڈ کی معیاد اکتوبر 2016 میں ختم ہو چکی ہے ۔ تیس کروڑ ڈالر کے اس نئے فنڈ کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی جگہ متعارف کرایا گیا تھا،، جس کے تحت پاکستان کو فنڈز کے اجرا کے لیے شرائط سخت کردی گئی تھیں ، تاہم اس سے پاکستان کا افغانستان میں جاری جنگ سے براہِ راست تعلق ختم ہوگیا تھا، اور اور فنڈز کے اجرا کو پاکستان کی اندرونی سلامتی و استحکام سے جوڑدیا گیا تھا۔

تاہم اگست 2016 میں امریکی محکمۂ دفاع نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس کارروائی نہ کرنے کے الزام میں پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد کے 30 کروڑ ڈالر روک بھی روک دئے تھے۔ پینٹاگون کے ترجمان کے مطابق سیکریٹری دفاع ایش کارٹر نے وہ سرٹیفیکیٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا،جس سے یہ رقم پاکستان کو مل سکتی تھی۔

ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت آنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کا بھی پاکستان کے ساتھ معاندانہ رویّہ ہنوز جاری ہے، بلکہ گذشتہ دنوں خبررساں ادارے رائٹر کی ایک خبر منظرِ عام پر آنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان کے بارے میں سخت اقدامات کا فیصلہ پاکستان کے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ اب اسلام آباد سے متعلق اپنی حکمت عملی میں اور بھی زیادہ سختی لانے پر آمادہ نظر آرہی ہے۔ رائٹرز کے مطابق اعلیٰ امریکی حکام نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکا میں اس سلسلے میں ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے اب تک جن امکانات پر غور کیا گیا ہے، ان میں یہ امکانات بھی شامل ہیں کہ پاکستانی سرزمین پر کیے جانے والے امریکی ڈرون حملوں میں اضافہ کر دیا جائے، پاکستان کو دی جانے والی امداد میں یا تو کمی کر دی جائے یا اسے بالکل ہی روک دیا جائے اور اگر ضروری ہو تو نیٹو کے غیر رکن ملک لیکن امریکا کے ایک بڑے اتحادی ملک کے طور پر پاکستان کی حیثیت بھی کم کر دی جائے۔

رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے بتایا کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں ان عسکریت پسندوں کے حملوں کی وجہ سے، جو پاکستان میں اپنے مبینہ ٹھکانوں سے ایسی دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے یا کرواتے ہیں، افغانستان میں عدم استحکام، مایوسی اور امن کے قیام میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔

افغانستان میں پائیدار امن کے لئے پاکستان کو دہشت گرد جہادی گروپوں کی سرپرستی یکسر ختم کرنا ہوگی۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان بھی افغانستان کی صورت حال میں بہتری کے لیے اپنا وہ کردار ادا کرے، جو وہ ادا کر سکتا ہے، مگر نہیں کر رہا ہے۔

ان حالات میں پاکستان کے لئے بہتر یہی ہے کہ پاکستان افغان عسکریت پسند گروپوں اور جہادِ کشمیر میں برسرِ کار جہادی گروپوں کی سرپرستی و حمایت یکسر بند کر دے۔ امریکہ سمیت بھارت، ایران اور افغانستان سے دو طرفہ تعلّقات کو بہتر و مضبوط بنائے۔

ورنہ اندھا دھند ڈرون حملوں، اور معیشت کی زبوں حالی کے لئے تیّار ہوجائے، امریکی پابندیوں میں سختی کے بعد ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف بھی اپنی شرائط کو سخت کردیں گے اور توسیعی منصوبہ جات کے لئے فنڈز کی فراہمی میں نئی شرائط سامنے لائیں گے۔ اور پاکستان کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا۔

One Comment