کوئٹہ چاغی کے ضمنی انتخابات اور سیاسی سوداگر 

منظور بلوچ

آج کل این اے 260 کوئٹہ چاغی کے ضمنی انتخاب کے حوالے سے خون آلود بلوچستان میں سیاسی و انتخابی جلسہ سجایا گیا ہے سارے سیاسی ٹھیکیدار ”بندر کا تماشہ “ دکھانے کیلئے ڈگڈگیاں بجا رہے ہیں ۔سال 2013ءکے عام انتخابات میں کوئٹہ چاغی ( بلوچ اکثریت والی قومی اسمبلی کی نشست کو ) پکے ہوئے پھل کی طرح پشتونخوامیپ کی جھولی میں ڈال دیا گیا کیونکہ بلوچستان کے اصل حاکموں کی بولی اور محمود خان اچکزئی کی بولی ایک ہے۔

مشہور ہے کہ اس نشست سے کامیاب ہونے والے مرحوم ایم این اے رحیم مندوخیل نے کوئٹہ چاغی کی سیٹ کے پارٹی ٹکٹ پر حیرانگی ظاہر کی تھی جس پر اچکزئی صاحب نے کہا تھا کہ اللہ خیر کرے گا …. اور واقعی ایسا ہی ہوا …. بلوچستان کے اصل حاکموں نے کوئٹہ کی تمام صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں کوئٹہ ، کوئٹہ چاغی سمیت پشتونخوامیپ کی جھولی میں ڈال دیں خود اس پارٹی کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا …. ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سوائے بلوچ نفرت اور بلوچ قومی تحریک کے رد عمل کے خلاف کیا ہو سکتا تھا لیکن اصل کہانی یہ نہیں ہے۔

اصل کہانی کا آغاز جنوری2013ءسے ہوتا ہے جب رئیسانی سرکار موجود تھی جس پر پشتونخوامیپ اور اس کی ماتحت پاکستانی ”نیشنل پارٹی “ کو شدید اعتراضات تھے ان پارٹیوں کا کہنا تھا کہ رئیسانی سرکار کے سارے وزراءکرپٹ ہیں …. وہ اغواءبرائے تاوان میں ملوث ہیں ان میں سے بہت سے علیحدگی پسند بلوچوں کو سپورٹ بھی کرتے ہیں ۔

دوسری جانب بعض مقتدر اخبار نویسوں کے ذریعے دبئی میں مقیم سردار اختر مینگل سے رابطہ کیا گیا کہ وہ آئیں سپریم کورٹ میں لاپتہ بلوچوں کے مقدمے میں پیش ہوں اس سے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو سپورٹ ملے گی سردار اختر مینگل سپریم کورٹ میں چھ نکات لے کر آئے سنا ہے کہ اسلام آباد کی حد تک بات بن گئی تھی لیکن بلوچستان کے اصل کرتا دھرتاؤں کا منصوبہ کچھ اور تھا …. وہ ریاست کی ”نمائندگی “ کرنے کے باوجود ایک قبیلہ کی طرح ری ایکشن کر رہے تھے ۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ رئیسانی سرکار کو کیسے ہٹایا جائے ؟ بلوچستان کے معاملات کو چلانے والے رئیسانی سے بیزار ہو چکے تھے پھر عملدار روڈ کا خونی کھیل کھیلا گیا …. جس میں بہت سے شہداءکے لواحقین کے دعویٰ کے مطابق سی فور کیمیکل تک استعمال کیا گیا ۔ لاشیں گرتی رہیں …. پسماندگان دیوانوں کی طرح کوئٹہ کے ہسپتالوں میں اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے رہے۔ بہنیں ، مائیں ، بھائی ، والد سارے اپنے اپنے پیاروں کو ایک نظر دیکھنے کیلئے ٹھوکریں کھا رہے تھے ساری فضاءآہ و بکا کر رہی تھی ۔ لیکن اس خونی کھیل کے پیچھے کچھ مافیا ٹائپ کے کردار …. کچھ ریاستی و سیاسی طاقت رکھنے والے شطرنج کی بساط بچھا چکے تھے ۔

رئیسانی سرکار کے سابق سینیٹر مولانا عبدالواسع جن کا تعلق جے یو آئی سے تھا ان کا دعویٰ تھا کہ شہداءکے پسماندگان اور لواحقین سے انتظامیہ کے مذاکرات مکمل ہو چکے تھے اور وہ اپنے اپنے پیاروں کی تدفین پر آمادہ ہو چکے تھے ۔ لیکن پردے کے پیچھے سفاک منصوبہ بندوں نے ہزارہ برادری سے کچھ ہیروں کو آگے کر دیا اور ان کے منہ میں یہ مطالبہ ڈلوا دیا کہ جب تک گورنر راج نافذ نہیں ہوگا …. وہ تدفین نہیں کریں گے ۔ ہزارہ برادری کے نمائندے دو گروہ میں بٹ چکے تھے ان کے جو مُلا تھے ، ریاستی طاقتوں نے ان کو شہدا کا نمائندہ قرار دیا جبکہ ان ملاؤں کے مخالف ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کو نظر انداز کر دیا حتیٰ کہ اس وقت کے وزیراعظم نے کوئٹہ آمد کے موقع پر ایچ ڈی پی سے ملنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی پھر ہزارہ برادری کی جانب سے سردار سعات نہ جانے کہاں سے کیسے اور کب کینیڈا سے وارد ہوئے اور مذاکرات کرنے لگے ۔

برطرف رئیسانی سرکار کی اتحادی جماعتوں جے یو آئی (ف) اور بی این پی (عوامی ) کے نمائندوں نے اسمبلی کے فلور پر انکشاف کیا کہ وزیراعظم کو کئی گھنٹوں تک سردار سعادت کا انتظار کرنا پڑا اور اس دوران وہ کہاں تھے ! کس کے پاس تھے ! کیا منصوبہ بندی ہو رہی تھی …. کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا ۔ایسی حالت میں جب رئیسانی حکومت عضو معطل بن چکی تھی …. بلوچستان کے آنے والے دنوں کی بربادی کی منصوبہ بندی جس شخصیت کے ہاتھوں میں تھی وہ 22گریڈ کا آفیسر اور چیف سیکرٹری بابر یعقوب فتح محمد تھا ۔ وہ اس سارے منصوبے کے زیر زبر پیش سے واقف تھا اور ماسٹر مائنڈ تھا اس کی گاڑی ایک جانب ڈاکٹر مالک بلوچ اور دوسری جانب محمود خان اچکزئی کے ساتھ چھنتی تھی ۔

جے یو آئی ا ور بی این پی(عوامی ) کے نمائندوں کے دعوؤں میں (بلوچستان اسمبلی کے فلور پر …. ریکارڈ پر موجود ہے ) کہا گیا کہ سارا منصوبہ آئندہ انتخابات میں نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ کو لانے کا ہے بعد کے واقعات نے ان کے تمام واقعات کو درست ثابت کیا۔ دس سال تک سینئر وزیر کے عہدے پر رہنے والے مولانا عبدالواسع نے اپنی نجی محفل میں بتایا کہ انہوں نے بڑی مشکل سے پشتونخوامیپ کے عثمان کاکڑ سے اپنی نشست ہتھیائی ۔ 
گورنر راج لگا …. تمام اضلاع میں انتظامیہ کی اکھاڑ پچھاڑ کی گئی …. اور پارلیمانی نشستوں کی بندربانٹ کا سلسلہ شروع ہو گیا اب یہ اوپن سیکرٹ ہے کہ پشتونخوامیپ کو حیران کن حد تک نمائندگی دلانے والے نواب ایاز جوگیزئی تھے بعد ازاں نواب ایاز جوگیزئی نے نظر انداز ہونے پر بلوچستان اسمبلی میں محمود خان اچکزئی کے بھائی موجودہ پی اینڈ ڈی کے وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی اور عبیدا للہ بابت سے گالم گلوچ اور زدوکوب تک کیا ۔ لیکن بلوچستان کے بے ضمیر پریس اور میڈیا نے اس واقعہ کو دبا دیا …. جنگ اخبار نے ایک سنگل لائن کی خبر دی کہ نواب ایاز جوگیزئی کی بنیادی رکنیت معطل کر دی گئی …. بعد میں ان میں صلح کروائی گئی ۔

اس شرمناک اور خونی منصوبہ بندی کی ایک لائن یہ بھی تھی کہ نیشنل پارٹی کی جانب سے حاصل بزنجو اور پشتونخوامیپ کی جانب سے محمود خان اچکزئی اب اسلام آباد اسٹیبلشمنٹ کیلئے اتحادی اور نمائندے ہونگے …. اور ان کے مشاورت سے بلوچستان کی بربادی کے کھیل کا آغاز کیا گیا ۔اس منصوبے کا ایک ہدف بلوچستان نیشنل پارٹی بھی تھی واقفان حال کا کہنا ہے کہ بی این پی کے بعض رہنماءالیکشن میں جانے کو تیار نہیں تھے وہ اسے بلوچوں سے غداری کے مترادف قرار دیئے تھے لیکن ارب پتی بننے کی خواہش مند بی این پی کے نوشیروانی سلانے والا گروپ بھاری پڑ گیا اور طوطے کی طرح زبان چلانے والے سابق سینیٹر ثناءاللہ بلوچ بھی اچانک اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے پہنچ گئے ۔

اور خاران کے حلقہ انتخاب کے لوگوں سے بڑے یقین کے ساتھ کہنے لگے وہ بلوچستان کے اگلے سینئر وزیر ہونگے لیکن شطرنج کی بساط بچھانے والوں کا مسئلہ ثناءبلوچ نہیں تھا کیونکہ وہ انہی کا نمائندہ تھا اصل میں سردار اختر مینگل کو دھچکا پہنچانا تھا …. اور یہ ظاہر کرنا تھا کہ علیحدگی پسندوں کے مقابلے میں بلوچستان کے اصل نمائندے نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ ہیں ریاستی مقتدرہ کوئٹہ کی تمام صوبائی اسمبلیوں ، کوئٹہ اور کوئٹہ چاغی کی نشستیں پشتونخوامیپ کی جھولی میں ڈال کر عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتی تھی کہ کوئٹہ سے تفتان کی سرحد تک کے اصل مالک پشتون ہیں بلوچ نہیں ۔

کوئٹہ کی تین بلوچ نشستیں بھی پشتونخوامیپ کی جھولی میں ڈالی گئیں ۔ پی بی 4 سے منتخب ہونے والے سردار بڑیچ بلدیاتی انتخابات میں اپنے گھر کی کونسلری کی نشست بھی ہار گئے تھے۔وافقان حال کا کہنا تھا کہ پشتونخوامیپ نے پی بی 4 سے دستبرداری کیلئے سبی کی قومی اسمبلی کی نشست بھی مانگ لی تھی جس پر سردار اختر مینگل نے کہا کہ اگر وڈھ ( سردار اختر مینگل کا حلقہ انتخاب ) وہاں سے بھی پشتونخوامیپ کا امیدوار ہوتا تو وہ بھی جیت جاتا ۔

بلوچستان کی مختصر پارلیمانی تاریخ میں اتنے فراڈ الیکشن بھی نہیں ہوئے ۔ 
پنجگور کی دو اسمبلیوں کی نشستوں کیلئے ووٹ تک نہیں پڑے لیکن ان کو نیشنل پارٹی کے تحفہ میں پیش کی گئیں …. ڈاکٹر مالک کی نشست بھی انہی کی مرہون منت تھی کیونکہ ان کو اگلا وزیراعلیٰ بنانا تھا ۔ بلوچ علاقوں میں ٹرن آؤٹ7فیصد سے بھی کم رہا …. اور لطیفہ یہ ہے کہ 500پانچ سو ووٹوں پر آواران سے قدوس بزنجو کو کامیاب قرار دیا گیا۔ جب یہ مضحکہ خیز انتخابی عمل مکمل ہوا …. تو اس وقت کے کنگ میکرز نے قرعہ اچکزئی و مالک کا نکالا.جس پہ نواز شریف اس سارے کھیل میں پھنس چکے تھے تو کہ ان کی پارٹی کی اکثریت تھی لیکن کھیل کھیلنے والوں کے ہاں وہ بے بس تھے ان میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ سردار اختر مینگل کے ساتھ اپنے وعدوں کو وفا کر سکتے تھے ۔

جب منصوبہ بندی مکمل ہوئی …. تو نواز شریف کے منہ کو بند کرنے کیلئے رائیونڈ کا ڈرامہ رچایا گیا اور یہ بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ کا سب سے شرمناک باب تھا ۔ جب قوم پرستی کے سب سے بڑے چیمپئن اچکزئی اور پاکستانی نیشنل پارٹی نے رائیونڈ میں سرجھکالئے حتیٰ کہ کوئٹہ کی میئر شپ کا فیصلہ بھی وہیں سے درآمد ہوا۔ ریاستی مقتدرہ کی جانب سے کیک کا سب سے بڑا حصہ اچکزئی کو ملا …. اور وہ اتنے بوکھلا گئے کہ تمام اسمبلی عہدے ، وزارتیں اور گورنر شپ اپنی فیملی میں چاکلیٹ کے ڈبے کی طرح بانٹنے لگے اس عمل نے اچکزئی کے سیاسی قد کو اتنا چھوٹا کر دیا کہ ان میں عبدالکریم نوشیروانی اور عاصم کرد گیلو میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ۔

اس کے فوراً بعد سرکاری اراضیوں پر قبضے کا عمل شروع ہو گیا …. گوکہ ڈاکٹر مالک بلوچ وزیراعلیٰ تھے لیکن اصل وزیراعلیٰ رحیم زیارت وال تھے جن کا تعلق پشتونخوامیپ سے ہے انہوں نے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کے ذریعے مال مفت دل بے رحم کی طرح بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ شروع کر دی ۔ 

انتظامیہ کے تمام عہدے انہوں نے اپنے کارکنوں ، رہنماؤںمیں تقسیم کر دیئے کمشنر ، ڈپٹی کمشنر ، اسسٹنٹ کمشنر ، سیکرٹری شپ سے لے کر تمام اہم پراجیکٹس کو اپنے قبضے میں لیا اس کے بعد مسلم لیگی میئر شپ کے امیدوار رحیم کاکڑ کو جب میئر شپ کا عہدہ نہ ملا …. تو انہوں نے انکشاف کیا کہ پشتونخوامیپ کے میئر ڈاکٹر کلیم اللہ نے کوئٹہ شہر کی سب سے قیمتی زمینیں جو اوقاف کی تھیں وہ ریوڑیوں کے بھاؤ اچکزئی کے قریبی عزیز اور ایم پی اے مجید اچکزئی کو بیچ دی نیب تماشائی بنا رہا۔ یہاں تک کہ شراب خانوں کو بھی نہیں بخشا گیا ایک مرتبہ سابق کور کمانڈر نے اپنی پریس بریفنگ میں صحافیوں سے آف دی ریکارڈ گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی بقاءکی امید کی آخری کرنیں اچکزئی اور حاصل بزنجو ہیں ۔

لیکن اس پھوپڑپن اور ری ایکشنری فیصلے نے بلوچستان کی سیاست پر اتنے گہرے اور منفی اثرات مرتب کئے ہیں کہ اس کے اثرات سالوں تک محسوس کئے جا سکیں گے ۔ پشتونخوامیپ کو کھلی چھٹی دے کر بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کی گئی …. اور یہ خطرناک عمل کسی وقت بھی بم کی طرح پھٹ سکتا ہے ۔  اس گھناؤنے اور خونی منصوبے کا شکار سب سے زیادہ بی این پی ، عوامی نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی بنے ۔

بلوچستان میں اے این پی کو سب سے زیادہ مار پڑی اے این پی کے صدر اصغر خان اچکزئی کے والد کے قتل کے بعد 8اگست کے وکلاءکے سانحہ میں ان کا بھائی بھی شہید ہو گیا حتیٰ کہ اس موقع پر اسفند یار ولی خان کی کوئٹہ آمد کے باوجود دھمکی دے کر ان کے جلسہ عام کو روکا گیا۔ رحیم مندوخیل جنہیں کوئٹہ چاغی کی نشست بلوچوں کی مخالفت میں چاکلیٹ کی طرح ملی تھی وہ اپنی وفات تک نظر نہیں آئے شاید انہوں نے کبھی نوشکی ، چاغی اور تفتان تک کو دیکھا تک نہیں تھا۔ اس عمل نے ان بلوچوں کو جو علیحدگی پسندوں کے حامی نہیں تھے ان کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ۔

رحیم مندوخیل کی وفات کے بعد جب یہ نشست خالی ہوئی اور اب اس پر الیکشن ہونے والے ہیں تو ماضی کی تمام منصوبہ بندی بشمول نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں نیشنل پارٹی اس وقت بھی حکومت میں ہے اور اسے بلوچوں کی طرف سے شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس نے خیریت اسی میں جانی کہ ضمنی انتخاب سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے جمعیت علماءاسلام کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا جائے حالانکہ کل تک جے یو آئی کی نظر میں سب سے زیادہ کرپٹ جماعت تھی نہ جانے اب جے یو آئی کو کس آب زم زم سے نہلا دھلا کر صاف ، پوتر کر لیا گیا ہے ۔ 
اسی الیکشن کے حوالے سے سوشل میڈیا میں نیشنل پارٹی فٹبال بن چکی ہے۔دوسری جانب پشتونخوامیپ اپنی جھوٹی ساکھ کی بحالی کیلئے میدان میں موجود ہے …. لیکن بلوچ نفرت کی آگ کو بھڑکانے میں مسلسل مصروف ہے اور اس نام نہاد الیکشن کو بلوچ پشتون ریفرنڈم کا نام دے رہی ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کوئٹہ چاغی کی دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں بلوچوں کے پاس ہیں اگر اس مرتبہ بھی ریاستی مقتدرہ پشتونخوامیپ کے ساتھ دیتی ہے اس سے کچھ اور نہیں ہوگا بلوچ رد عمل شدید ہوگا ۔ ہو سکتا ہے کہ اس مرتبہ پشتونخوامیپ کی بجائے بلوچ کیا ……………. بلوچستان سے پشتون علاقوں کو الگ کرنے کی تحریک چلائیں ۔ 

انتخابات سے قبل بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایک رہنماءملک نوید دہوار کے قتل نے بلوچوں میں اور اشتعال پیدا کر دیا ہے۔سوشل میڈیا میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں انتخابی عمل سے پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم اور اے این پی کو دور رکھنے کیلئے ان کے جلسوں پر دھماکے کئے گئے …. ان کے رہنماؤں کو مارا گیا اور اب یہی کھیل بی این پی ، اے این پی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے جبکہ پشتونخوامیپ ، جے یو آئی ، نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کو کھلی چھوٹ حاصل ہے ۔

ضمنی انتخاب میں بی این پی ، اے این پی اور ایچ ڈی پی کا اتحاد عمل میں آ چکا ہے اگر صاف الیکشن ہوتے تو اصل معرکہ بی این پی اور جے یو آئی میں ہوگا جبکہ پشتونخوامیپ اور پیپلز پارٹی کا کردار زیب داستان تک محدود رہے گا۔ بلوچ عوام پیپلز پارٹی کو بھی اپنا قاتل سمجھتی ہیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بلوچوں پر آپریشن کیا گیا نیپ حکومت کا خاتمہ کیا گیا ، قیادت کو گرفتار کیا گیا ، بے نظیر بھٹو نے اپنے ادوار حکومت میں ڈیرہ بگٹی میں شہید نواب بگٹی کی مخالفت میں کلپر بگٹیوں کو مخالف بنا کر ان کو اس وقت کے گورنر عمران اللہ خان کے ذریعے بیت المال کی رقوم تقسیم کی گئیں۔

زرداری کے دور صدارت میں بلوچ عوام کی نسل کشی ، بلوچوں کو غائب کر کے ان کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنے کا عمل شروع کیا گیا اس وقت اس انتخاب میں پی پی پی کی نمائندگی سردار فتح حسنی کر رہے ہیں انہوں نے اشرافیہ کے طرز پر اپنے نوجوان بیٹے کو امیدوار بنایا ہے تاکہ اسے آئندہ کیلئے اسٹیبلش کیا جا سکے اس ضمنی انتخاب میں جو بھی جیتے اس سے بلوچوں کی صحت پر اثر نہیں پڑے گا لیکن اس کے نتیجے میں تقسیم در تقسیم ، نفرت کا جو عمل شروع ہوگا …. وہ اسلام آباد کی پریشانیوں میں اضافے کیلئے کافی ہے ۔

اگر اس مرتبہ بھی سردار اختر مینگل کو دیوار سے لگایا گیا …. سردار مینگل شاید بہت آگے تک نہ جا سکیں لیکن ان کے حامی اور بلوچ عوام کا ان پر دباؤ بڑھ جائیگا کہ پارلیمانی سیاست کو خیرباد کہہ دیں اگر اختر مینگل نے انتہائی اقدام اٹھایا ( جس کے امکانات کم ہیں ) تو بلوچستان کی سیاست خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے ۔ 


5 Comments