تعریف

فرحت قاضی

قانون کی رو سے قتل ایک سنگین جرم ہے
مگر میدان جنگ میں ایک بادشاہ یا جنرل انسانی لاشوں کے مینار کھڑے کر دیتا ہے تو فاتح کہلاتا ہے
ایک بدمعاش سے اہلیان علاقہ اس کے کردار کے باعث نفرت کرتے ہیں مگر یہی غنڈہ مالک کی خاطر قتل کرتا ہے تو اس کی نظر میں اس کی قدر و قیمت مزیدبڑھ جاتی ہے
افغانستان اور قبائلی علاقہ جات میں خاتون کے جسم کی ایک جھلک بھی اسے سزا وار ٹھہرا دیتی ہے
اسی طرح پاکستان کے ایک دیہہ میں عورت کا غیر مرد سے بات چیت کرنے کا تصور کرنا بھی محال ہے 
مگرامریکہ اور یورپی ممالک میں یہی عورت مردوں کے شانہ بشانہ روزگار کرتی ہے سرعام بوسہ دینے پر بھی سرزنش نہیں کی جاتی ہے 
پاکستان سمیت کئی اسلامی ریاستوں میں مرد چار خواتین سے بہ یک وقت نکاح کر سکتا ہے
مگر یورپی ملکوں میں ایک سے زائد شادیاں خلاف تہذیب ہے
آج سے چند برس پہلے ایک قبائلی باشندہ پستول یا بندوق کو مردوں کا زیور کہتا تھا
اور اب اسی قبائلی نوجوان کو ہتھیار رکھنا اور پھرانا عجیب سا لگتا ہے
پشتون سماج میں ایک زمانے میں خاکروب کو بنظر حقارت دیکھا جاتا تھا اب کہیں آسامی کا پتہ چلتا ہے تو سب سے پہلے پہنچا ہوتا ہے
پہلے نارینہ اولاد ہی ایک باپ کی سب سے بڑی خواہش ہوتی تھی 
مگر سرمایہ دارانہ نظام نے دونوں 
مرد اور عورت
کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ہے
یہ ہمارے ارد گرد کے حقائق ہیں جن کا ہم روزمرہ زندگی میں مطالعہ اور مشاہدہ کرتے رہتے ہیں یہ حالات ہمارے ذہنوں سے کسی چیز، عمل اور قدر کے اٹل ، انمٹ اور اٹوٹ کے رشتوں کو کھر چنے کے لئے کافی ہیں لیکن ان سب کے باوجود تعریف ایک ایسا پیمانہ ، کوہ پیما اور آلہ ہے جس سے آج بھی قدیم ادوار کی مانند کام لیا جاتا ہے
تعریف سے اچھے اور برے دونوں کام لئے جاسکتے ہیں
بچوں کی شرا رتوں پر کبھی کبھار والدین ان کی سرزنش تو کبھی پٹائی بھی کر دیتے ہیں اور جب ایک شرارت پر اس کا ایسے ذکر کیا جاتا ہے جس سے تعریف کا پہلو نکلتا ہو تو پھر وہ شیر ہوجاتا ہے اس کی تعلیم میں دل چسپی اور کھیل کود میں نمایاں کارکردگی پر اسے شاباش اور تھپکی دو تو خوش ہوکر مزید مہارت حاصل کرنے پر توجہ دینے لگتا ہے
ازمنہ قدیم میں حاکم وقت اس بشری کمزوری سے بخوبی واقف تھے اور اس سے فائدہ لینا بھی جانتے تھے چنانچہ وہ جنگوں سے ملتے جلتے کھیلوں کی نہ صرف یہ کہ تعریف و ستائش کرتے تھے بلکہ ان کے فروغ کے لئے اقدامات بھی اٹھاتے تھے اسی زمانے سے نیزہ بازی ، تلوار زنی ، کشتی ، کبڈی اور گھڑ دوڑ ہمارے دور تک چلے آ ر ہے ہیں اور ان میں حالات، موسم ، معاشی اور دیگر ضروریات کے تحت تبدیلی اور اضافہ بھی ہوتا آرہا چنانچہ جن علاقہ جات میں برف باری ہوتی ہے وہاں پر برف پر پھسلنے کے کھیلوں کے ساتھ ساتھ دلفریب نظاروں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاکر سیاحوں کو آنے کی دعوت بھی دی جاتی ہے
میدان جنگ میں اپنی سپاہیانہ صلاحیت کے جوہر دکھانے والوں کی تعریف و توصیف آج بھی کی جاتی ہے ہزاروں افراد کی موجودگی میں انعامات سے نوازا جاتا ہے اور میڈیا پر اس کی تشہیر کی جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو فوجی کئیریر کی جانب راغب کیا جاسکے 
چونکہ پاکستان میں بھی ترقی یافتہ ممالک کی مانند نوجوانوں کا رحجان رفتہ رفتہ تعلیم ، زراعت ، صنعت ، صحافت اور اسی نوعیت کے دیگر شعبہ جات کی جانب بڑھ رہا ہے اس لئے پولیس اور فوج کے محکموں کی ضرورت زیادہ تر دیہی اور قبائلی علاقہ جات سے ہی پوری کی جاتی ہے ان اداروں میں مراعات، سہولیات اور آسائشات بھی ان کی توجہ ان شعبہ جات میں ملازمت کے لئے دل چسپی بڑھا دیتے ہیں
ہمارے سماج میں افراد خانہ کا معاشی سمیت ہر حوالے سے ایک دوسرے پر انحصار پایا جاتا ہے اس لئے یہاں پر خاندانی رشتے بھی تاحال مستحکم ہیں اور ایک ماں باپ اپنے بچے کی تعلیم و تربیت بھی ان ہی خطوط پر کرنے کے خواہاں رہتے ہیں چنانچہ والدین آج بھی اپنے بچے میں
بوڑھوں کی دیکھ بھال
والدین کی خدمت
استاد اور بڑوں کا ادب
غریبوں پر رحم کے پرچار کے ذریعہ بنیادی طور پر رحم دلی اور خدا ترسی کے احساسات اور جذبات پیدا کرتے رہتے ہیں تاکہ کل کلاں وہ بوڑھے ، نحیف ، ضعیف العمر اور قدم قدم پر سہارے کے محتاج ہوں تو بوقت ضرورت یہ بچے اپنے سب کام چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ ان کی خدمت پر لگا دیں
جاگیردار طبقہ کے جان و مال کی حفاظت جہاں حکومت اور ارباب اختیار کی ذمہ داری ہوتی ہے اس کے لئے ریاستی ادارے خصوصاً محکمہ پولیس ، عدالتیں اور جیل خانہ جات ہوتے ہیں وہاں وہ سماج میں ایسی رسومات، روایات، رواجات قدروں اور تصورات کو بھی فروغ دیتا ہے جو اس کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں چنانچہ وہ اپنے کھیت مزدوروں اور دیہی باشندوں کو یہ کہنے سے بچا رہتا ہے کہ کیا اچھا اور کیا برا ہے
اسے اپنے مال کی چوری کا خدشہ رہتا ہے لہٰذا سماج میں چوری کو برا ہی نہیں سمجھا جاتا ہے بلکہ جب حکومت اسے جرم قرار دے کر مجرم کو سزا دیتی ہے تو عوام بھی حکومت اور جاگیردار کی مانند سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں
اسے اپنی جان کا اندیشہ رہتا ہے اس لئے اس نے چوکیدار اور ذاتی باڈی گارڈ بھی رکھے ہوتے ہیں تو ساتھ ہی جان لینے کو سنگین ترین گناہ اور جرم قرا ر دیا گیا ہے
جاگیردار کو نارینہ اولاد کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضرورت ایک عورت سے پوری نہیں ہوتی ہے تو یکے بعد دیگرے تین مزید نکاح بھی کر سکتا ہے
مالک بادشاہ اور جاگیردار کی شکل و صورت میں ہو یا یہ باپ، بڑے بھائی اور استاد کے روپ میں ہو مالک مالک ہی ہوتا ہے اور وہ سماج میں ان خیالات اور نظریات کو پھلتا پھولتا ہوا دیکھنے کا خواہاں رہتا ہے جو اس کی ملکیت ، ذات اور حاکمیت کو قائم و دائم رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں حاکمانہ تصورات کو اخلاقی قدروں کا مقام حاصل ہے اور یہی اس پر حاوی بھی ہیں اور ان سے مالکان کو تقویت اور استحکام بھی ملتا رہتا ہے
انسانی معاشروں میں تبدیلی کا عمل اسی ساعت دیکھا گیا ہے جب ایک نیا طبقہ وجود میں آکر سر اٹھاتا اور اپنے لئے جگہ بناتا ہے تو وہ مزید حقوق و اختیارات اور آزا دیوں کی نوید دیتا ہے یا یہ تبدیلی اور انقلاب اس وقت آتا ہے جب پرانا طبقہ غلام طبقے کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے تو موخر الذکر اس خول سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے یہ نیا طبقہ جانتا ہے کہ چونکہ قدیم تصورات اور نظریات سد راہ ہیں اس لئے وہ نئے طبقاتی اور آسمانی صحیفے کے ساتھ وارد ہوتا ہے اسی لئے ہمیں انسانی تاریخ میں بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ایک نیا عقیدہ ابھر تا اور اپنی جگہ بناتا ہوا دکھائی دیتا ہے
عوام نئے تصورات اپناتے ہوئے رفتہ رفتہ قافلہ بننے لگتے ہیں اور اس کارواں میں وقت گزرنے پر اضافہ ہوتا جاتا ہے چنانچہ یہی وہ دور اور زمانہ ہوتا ہے جب پرانے مذاہب، عقائد اور نظریات کی شب و روز تعریف و ستائش بھی ان کو طبعی اور تاریخی موت سے بچانے سے قاصر رہتے ہیں اس حقیقت کی حالیہ مثال قبائلی علاقہ جات کے باسی ہیں ان کو ترقی ، عصری تقاضوں اور بدلتے ہوئے سیاسی، سماجی ، معاشی اور اخلاقی حالات سے دور ، ان کی الگ تھلگ نفسیات پروان چڑھانے اور عسکرا نہ تربیت کی خاطر ایسے اقدامات اور قوانین لاگو کئے گئے جو متحدہ ہند میں کہیں بھی نظر نہیں آتے تھے
چنانچہ یہاں پر فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن لاگو کیا گیا جس کی رو سے ایک فرد کے جرم کی سزا پورے خاندان کو بھگتنا پڑتی ہے پولٹیکل ایجنٹ کی شکل میں ایک ڈکٹیٹر مسلط کیا گیا جس کے احکامات کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور ایک ملزم اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے کسی عدالت سے رجوع کرنے کا حق و اختیار بھی نہیں رکھتا ہے قبائلی باشندوں کو کسی قسم کے سیاسی ، سماجی اور قانونی حقوق حاصل نہیں اسی طرح قبائلی علاقہ جات کو پس ماندہ اور گوشہ تنہائی میں رکھنے سے ان میں یہ احساسات ہی پید ا نہیں ہونے دئیے گئے کہ ان کے ساتھ نوآبادیاتی طرز کا سلوک کیا جارہا ہے روزگار کے فقدان کی وجہ سے ان کو غیر قانونی روزگار کی جانب راغب کیا گیا جس میں پوست کی کاشت اور غیر ملکی سامان کی سمگلنگ سر فہرست رہے
ان کو ملک کے دیگر شہروں کے باشندوں سے الگ تھلک رکھنے اور میل ملاپ سے دور رکھنے کے لئے قبائلی علاقہ جات کو علاقہ غیر کا نام دیا گیا اور انہیں جب بھی دنیا کے سامنے پیش کیا گیا تو کندھے پر بندوق کے ساتھ دکھایا گیا حتیٰ کہ ایک بندوبستی علاقہ کے شہری کو ان علاقہ جات میں زمین خریدنے اور مکان بنانے کی بھی اجازت نہیں ہے علاوہ ازیں ان کی قدیم قبائلی جنگجو یانہ اہلیتوں کو ہمیشہ اجاگر کیا گیا انگریز نے اگر جنگ عظیم میں ان کی بہادری کے جوہر دکھانے کے لئے بلٹ تعمیر کئے تو کشمیر کی جنگ آزاد ی کے ہیرو ظاہر کیا گیا حتیٰ کہ ادب و شاعری اور موسیقی میں بھی اس ایک ہی پہلو کو نمایاں کرکے پیش کیا گیا ان کو فنون اور علوم کے ذریعے اپنی خفتہ فنکار انہ مہارتوں کے نکھار واظہار کے مواقع ہی نہیں دئیے گئے یہی وجہ ہے کہ ہمیں قبائلی علاقہ جات میں کہیں بھی الحمرا ، نشتر ہال اور یونیورسٹیاں نظر نہیں آتی ہیں
چنانچہ ایک قبائلی کا
پختونخوا سے باہر یہ تصور ہے
کہ اس کے سر پر بڑی پگڑی ہے
یہ بڑی مو نچھیں اور گھنی داڑھی ہے
کندھے پر بندوق، آگ اگلتی دہشت ناک آنکھیں اور کرخت گفتگو
بہر کیف رواں جنگ نے قبائلی رعایا کو بتا دیا ہے کہ یہ جنگ و جدل، تلوار اور بندوق کا نہیں قلم اور کتاب کا زمانہ ہے اور جس کے ہاتھ میں قلم اور عوام سے محبت ہوگی اسی سے دنیا بھی محبت کرے گی چنانچہ یہ تعریف کی قوت اور جادو ہوتا ہے جو انسان کو کچھ سے کچھ بنا دیتا ہے برائی کی تعریف کرو تو انسان اس کی جانب مائل اور اچھائی کی کرنے سے وہ اس سے دل لگانے لگتا ہے
مذہبی ادب سے پتہ چلتا ہے کہ ازمنہ قدیم میں بھی تعریف کے حربے سے کام نکالا جاتا تھا چنانچہ ایک مذہب کا مبلغ اپنے عقیدے کو سب پر مقدم اور اعلیٰ قرار دیتا تھا اور دیگر کو حقیر اور ناقص ثابت کرنے پر اپنا زو ر صرف کر دیتا تھا بلکہ پیروکاروں کو ان سے دور رکھتا تھا یہی وجہ ہے کہ ایک علاقہ میں عام طور پر ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہوا کرتے تھے 
تعریف کے ساتھ ساتھ اگر حالات بھی پیدا کئے جائیں تو یہ سونے پر سہاگہ کا کام دیتا ہے فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن کے تحت ایک قبائلی کے جرم پر اس کا گھر گرا دیا جاتا ہے چنانچہ وہ پھر اسی کچے مکان تک محدود رہتا ہے کیونکہ ایک تو جرم کے حالات پیدا کردئیے گئے ہیں اور پھر گھر اور کنبہ ایک یا دو افراد پر مشتمل نہیں ہوتا ہے اسے جدید اور عصری تقاضوں اور تہذیب کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی زراعت اور صنعت کو بھی فروغ نہیں دیا گیا اس لئے کہ یہ ہمیشہ اور ہمیشہ کے لئے دست نگر، محتاج اور معاشی پریشانیوں کا شکار رہے اور جب یہ بھوکا اور الگ تھلگ ہوگا تو جوش و جذبہ سے لڑے گا
پیسہ نہیں ہوگا سکول نہیں ہوگا تو ایک کا ہاتھ دوسرے کے گریباں میں رہا کرے گا اور جب اسے تلوار اور بندوق کا دھنی اور کشمیر اور افغانستان کا فاتح قرار دیا جائے گا تو 
یہ بھی
چھوٹے بچے کی مانند شریر سے شیر بنا رہے گا
انگریز تعریف کے جادو سے واقف تھا اس نے قبائلیوں سے تمام حقوق چھین لئے 
اور
آزاد قبائل
کے دو الفاظ دیدئیے
اور یہ اس بچے کی مانند خوش ہوگیا جس کے ہاتھوں میں چور نے دو ٹافیاں اور ایک چاکلیٹ رکھ دیا اور نوٹوں سے بھرا بٹوہ جیب میں اڑس کر چلتا بنا چنانچہ اس کا انحصار باپ اور بڑے بھائی پر ہے کہ وہ بچے کے ہاتھ میں بندوق یا پھر قلم دیکھ کر اسے شاباش اور تھپکی دیتا اور تالی بجاتا ہے

One Comment