عمرانی علوم کی اہمیت اُور اِنتہا پسند رویے 

یوسف صدیقی 

سماج کی حرکت پرسب سے زِیادہ گرفت کس کی ہوتی ہے؟۔سماج کو بدلنے اور اعلیٰ مقام پر لے جانے میں کس کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ؟۔میرے خیال میں ہم یہ اعزاز اپنے ادبا ء اور شعرا کو ہی دیں گے۔پیار و محبت ،امن و آشتی، شائستگی و شگفتگی ،ا ور بھا ئی چارے کی فضا کو قائم و دائم رکھنے میں شعرا اُور ادبا کے کردار کو نظر انداز کر نا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔جب قدیم دنیا آخری ہچکیاں لے رہی تھی او ر عیسائیت نے عقلی خیالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اس دور میں اور اس سے پہلے بھی اُدبااور شعرا، اپنی تخلیقات کے ذریعے اِنسانیت کی صلاحیتوں کو نکھار کر سامنے لانے کی کوشش کر تے رہے ۔

مطلب یہ کام کبھی رُکا نہیں ہے۔ناول ،غزل،ڈرامہ دراصل اِنسانی کرداروں کے لطیف پہلووں کو حسین زاویے میں پیش کر نے ہی کا نا م ہے۔اِنسان جب اپنے آپ کو پہچان جاتا ہے ،تو وہ لکھنے کی طرف مائل ہو تا ہے۔اِس کی آواز اپنی نہیں، بلکہ اِس کی رُوح کی آواز ہو تی ہے ۔وہ جو محسوس کر تا ہے ،دل سے محسوس کر تا ہے ۔اُور محسوس کر کے دوسرے انسان کے دل کو ہی مخاطب کر تا ہے ۔ہر ’’تحرک ‘‘یا’’ طاقت‘‘ گرمجوشی کا مظاہرہ کر تی ہے ۔شوق نہ ہو تو عمل بے کار ہو جاتا ہے ۔جب اعمال بے کار ہوں تو ان اعمال کو سر انجام دینے کا کیا فائدہ؟۔

منزل کے لیے شوق کی ضرورت ہو تی ہے ۔اُور شوق کو پورا کر نے میں کبھی کبھار مشکلات برداشت کرنے کے لیے حوصلے کی ضرورت ہو تی ہے۔غربت انسان کے کردار کو نکھار کر سامنے لے آتی ہے ۔انسان سماجی غلط کاریوں اور جرائم کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے، یا رجعت کی فکری یلغار میں تہس نہس ہو جاتا ہے ۔یا پھر وہ خود کو پہچان کر دوسروں کے قابل نمونہ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ساگر صدیقی اور حبیب جالب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔غربت میں نام پیدا کیا ۔شاعربنے نہ کہ رجعت پسند!۔

اور پھر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ یونانیوں کی نثرکاری اور فلسفہ میں طبع آزمائی میں کس چیز کا دخل تھا ؟؟۔ بقراط کے انجام سے ارسطو اور افلاطون باخبر تھے۔پھر بھی ایک جذبہ تھا ،ایک جنون تھا، جو مارے نہیں مرتا تھا ۔دنیا اہل دانش کو ہمیشہ سے سزا دیتی آئی ہے ۔اور اہل دانش ہمیشہ سے لوگوں کے جسموں پیدا ہو نے والے جذبات کو روح کے راگ سے منسلک کرنے کا پیغام سناتے آئے ہیں۔اہل علم کی بات کو جھٹلانا ’’فکری رجعت ‘‘کے زُمرے میں آتا ہے ۔اِس سے اِنسانیت تقسیم ہو جاتی ہے ۔دُنیا میں علوم عمرانیات نے اطلاقی سائنس سے زیادہ انقلاب برپا کیا ۔

اطلاقی سائنس کو پڑھ کر انسان نے ’’ہوائی جہاز‘‘ ایجاد کیا ہے ،تو’’ ایئر ہوسٹس‘‘ کے بغیر جہاز نامکمل ہے ۔ائیر ہوسٹس کو اخلاقیات کی تعلیم سائنسی مضامین میں سے نہیں بلکہ عمرانی علوم میں سے دی جاتی ہے۔انسان کا اِخلاق ،سو چ کے اِنداز ،اِظہارِ رائے کا سلیقہ ،لوگوں سے تعلقات کے اِنداز ہر چند کہ اِنسان کی زِندگی کے اِخلاقی اُمور میں مرکزی کر دار اُس کی قوم کے معمار وں یعنی کے ادیبوں اور اہل دانش و بینش کا ہو تا ہے۔

پاکستان کے سماجی اِرتقاکی اِبتدا ہی قرار دادِ مقاصد سے ہوئی تھی ۔یعنی کے فنونِ لطیفہ اور مصوری وغیرہ کو ’’حاکمیت الہیہ‘‘ سے متصادم قرار دیا جانے لگا تھا ۔اِنتہا پسندی کی وجہ سے پاکستان میں سماجی ارتقا بے ہنگم ہے۔اور پھرسرمایہ دار اپنی جگہ ہر انسان کا خون چوس رہا،اس کے ساتھ ہی فکری رجعت اُور’’ سلف سے رُومان‘‘کی پسماندگی اپنی جگہ سماج کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ نہ یہاں ارسطو پیدا ہو سکا ،اُور نہ ہی گوئنٹے اُور اگر کسی فیض احمد فیض نے اپنے من کی شمع جلانے کی کوشش کی تو اُسے ’’کمیونسٹ‘‘ کہہ کر رُسوا کر نے کی کوشش کی گئی۔احمد ندیم قاسمی ؔ بھی لشکرِ طیبہ کے نشتروں سے بچ نہ پائے۔

فلمی دُنیا نے جو تھوڑی بہت ترقی کی وہ بہت قربانیاں دے کی ہے۔فلم ’’خدا کے لیے ‘‘ ریلیز ہوئی تو اِس پر رجعت پسندوں نے احتجاج کرنا شروع کر دیا ۔ڈرامہ بھی ’’مولوی‘‘ کو پسند نہیں ہے ،لیکن سماج اِس معاملے میں’’ رَجعتی ‘‘واقع نہیں ہوا ۔دھمکیوں،اِحتجاجوں اُور جلسوں کے باوجودڈرامہ نگاروں نے عشقیہ داستانوں کو فلمانے کا فیصلہ کیا ۔ٹی۔ وی پر تو مولوی کا زور نہ چل سکا ،لیکن مقامی سطع پر ڈرامہ کر کے دکھانے کو آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہ موروثی حقیقت ہے کہ اگر عشقیہ ڈرامہ ہو گا، اُور اُس کو کسی کالج یا یونی ورسٹی میں ادا کر کے دکھایا جائے گا۔ تو ظاہرر ہے اس ڈرامہ میں عورت کا کردار بھی ہو تا ہے۔

اسکولز اور کالجز اُور یونی ورسٹی میں عورت کے کردار کے آنے پر’’ نسیم حجازی ‘‘کے ناول پڑھنے والے طیش میں آ جائیں گے۔ژولیدہ فکری کی اس یلغار نے سماج سے ’’ادب ‘‘کی چادر اس تیزی سے نوچی ہے ،کہ اب ہر طرف ’’قدامت پسندی‘‘ کے سائے نظر آ رہے ہیں۔عمرانی علوم میں نفسیات ،سوشیالوجی ،معاشیات، لٹریچر،علم التعلیم ،قانون اور صحافت شامل ہیں۔اِن مضامین میں پاکستان میں اوّل تو کسی کی دلچسپی نہیں ہے ۔اگر کسی کی دلچسپی ہے، تو وہ محض اس حد تک کہ جو طلبہ پڑھائی میں کمزور ہوں، اُور سائنسی مضامین پڑھنے کے قابل نہ ہو ،وہ عمرانی علوم میں قسمت آزمائی کر تے ہیں۔

ہمارے ہاں بدقسمتی سے جن لوگوں نے عمرانیات کے مضامین میں ڈگریاں لے رکھی ہیں ،اُن کواُن کے رُتبے کے مطابق ’’عزت ‘‘ نہیں دِی جاتی۔جس وجہ سے سائنس کے مضا مین پڑھنا ’’فیشن ‘‘بن گیا ہے۔مارکیٹ کے رُجحان کو دیکھا جائے تو ہم لوگ وہ کارنامے سرانجام دے رہے ہیں ۔جن کی ضرورت زیادہ نہیں ہے۔ایک دِہائی قبل جب ’’کمپیوٹرسائنس ‘‘کے فاضل ا فراد کی ضرورت تھی ۔ہمارا پورے کا پوراسماج اس راستے پر چلنے لگا ۔دیکھتے ہی دیکھتے کمپیوٹر سائنس کے فاضل طلبہ کے ایک خوف ناک ’’ہجو م‘‘ نے مارکیٹ کو بھر دیا ۔اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مارکیٹ میں اِتنے طلبہ کو نوکریا ں مہیا کر نے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اُور پھر روایتی مایوسی کے سوا ،اِن کے ہاتھ میں کچھ نہ آیا ۔

ہم لوگ خوب سے خوب تر چیز کی تلاش میں دن رات ایک کر دیتے ہیں۔اِس وقت کیمسٹری،فزکس اُور بیالوجی گویا ہماری رِیاست اُور عوام کی رگوں میں سما چکی ہے۔نوکریوں کابھی انہی مضامین سے تعلق جوڑا جا رہا۔جو لوگ اِن مضامین میں فارغ التحصیل ہو چکے ہیں ،افسوس کا مقام ہے کہ نوکریاں اِن کو بھی نہیں مل رہی ہیں۔میں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ’’ہمارے سرمایہ داروں اُور اُن کے اِیجنٹوں کی طرف سے فنونِ لطیفہ ،آرٹ اُور دِیگر عمرانی مضامین کو’’ گھامڑ پن‘‘ سے تشبیہ دینے کی’ ’رَسم‘ ‘ ڈال دِی گئی ہے، تاکہ لوگوں میں سیاسی شعور پیدا نہ ہو ۔لیکن ’ اطلاقی سائنس ‘کے مضامین میں مہنگی ڈگریاں لینے والے طلبہ بھی بار بار’ ’اپلائی ‘‘کر کے تھک چکے ہیں ۔اَب میڈیکل اور دیگر سائنسی مضامین میں مہنگی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کا مستقبل بھی سوالیہ نِشان ہے!‘‘۔

آج کل اطلاقی سائنس میں ڈگریاں لینے والے بھی رُل رہے ہیں۔اِن کو کہیں نوکری نہیں مل رہی۔آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟؟۔ہماری ریاست کیوں سب کو ایک ہی طرف جانے کا رُجحان پیدا کر رہی ہے ؟۔اُور جب ’’ہجوم ‘‘ مخصوص طرف چلا گیا ہے تو سرمایہ داروں نے پڑھے لکھے لوگوں پر توجہ دینا بند کر دی ہے ۔یہ بات تو حقیقت ہے کہ آرٹس کے مضامین میں’’ سیاسیات‘‘ کا مضمون بھی ہوتا ہے۔اُور پھر ’’سیاست‘‘ پر تو ہمارے حکمرانوں کا قبضہ ہے ۔اِسی طرح عمرانی علوم کی تعلیم حاصل کر نے سے بوسیدہ حالات سے بغاوت کا جذبہ پیدا ہو تا ہے ۔یہ جذبہ انسان کو ’’بھگت سنگھ‘‘ بھی بنا سکتا ہے، اُور علامہ اقبال بھی!۔

اِسی طرح مزید اِنہماک سے کیا گیا مطالعہ ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ جیسی صفات کا حامل انسان بھی بنا سکتا ہے۔ظاہر ہے یہ چیز پاکستانی ’’پردَھان منتریوں‘‘ کو پسند نہیں آئے گی ۔ قانون کا باب تو ’’ملائیت‘‘ نے بہت پہلے غریب لوگوں پر بند کر دیا تھا ۔اِنتہا پسندوں کی طرف سے کہا گیا کہ وکلاء کے پیشے کی کمائی شرعاََ’’جائز ‘‘ نہیں ہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ غریب کا بیٹا وکیل تو نہ بن سکا۔ لیکن ’’درجہ چہارم‘‘ کا ’’چپڑاسی‘‘ بن کر ملک و قوم کی دن رات خدمت کر نے لگا ۔اُور وکیل بننے کے لیے وہی سرمایہ دار سامنے آئے ،جو آکسفورڈ سے فارغ ا لتحصیل ہیں ۔اور اب اِن کی’’ فیسیں‘‘ایک کروڑ سے شروع ہوتی ہیں۔ 

فنکاری تو گاؤں کے لوگوں کے لیے ہمیشہ ’’منع‘‘ موضوع رہی ہے۔فنکاروں کو’’ میراثی‘‘ کہہ کر تذلیل کرنا ہمارے مدرسے کے انتہاپسندوں کا سیاہ کارنامہ ہے۔’’فتوے ‘‘اُور ’’مناظرے‘‘ کے ماحول میں کوئی ’’عمرانیات‘‘ کی اصل روح کے مطابق کیسے بات کر سکتا ہے؟؟؟۔قصور سارا عام آدمی یاسماج کا نہیں ہے۔ہماری ریاست بھی تو قصور وار ہے کیونکہ وہ ’’مذہبی جماعتوں ‘‘کا بوجھ ربرداشت کر رہی ہے ۔اُورسماج کی پسماندہ پرتیں اِن اِنتہا پسندوں کے جھانسے میں آ کر سرسید ؒ کو ’’مسلم‘‘ ماننے سے بھی اِنکاری ہیں۔جہاں ’’رِسالہ اِسبابِ بغاوت ‘‘ اُور ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا مصنف ’’مسلمانیت ‘‘کی صفات پر پورا نہ اُترے ۔وہاں اِختراع پسندی پر مبنی سوچوں کو کوئی کیسے فروغ دے سکتا ہے؟؟؟۔

جنرل ضیا الحق کے دور سے لیکر آج تک ہمارے تعلیمی اداروں میں مذہبی انتہا پسندی کا بیانہ غالب ہے۔مذہبی انتہا پسندوں نے طلبہ کو ایک ایسے ماحول میں داخل کر دیا ہے ۔جہاں فکر و عمل کی با لکل آزادی نہیں ہے۔آزاد صحافت کا گلہ گھوٹنے کے لیے سرمایہ دار میدان عمل میں موجود ہے۔اِس کے ساتھ مصلحت کیے بغیر کوئی کیسے کسی اخبار میں بے انصافی،سماجی ناہمواری اُور عدم برداشت جیسے موضوعات پر لکھ کر اپنی روزی روٹی کما سکتا ہے؟؟۔پریس پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے ۔کامیاب صحافی بننے کے لیے کسی ملک ریاض جیسے ’’دَھنی‘‘ شحص کی سفارش کی ضرورت ہوتی ہے!۔ہمارے نوجوانوں کی توجہ صحافت سے بھی ہٹتی جا رہی ہے،جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اخبار کے مالکان نے پیسے دینے کے بجائے سیکورٹی کے نام پر’’ خیرات‘‘ لینے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ۔

ایسے حالات میں وارث میر جیسے لوگ پیدا نہیں ہوتے بلکہ ایسے حالات میں حکومتی و ریاستی’’ قصیدہ گو‘‘ جنم لیتے ہیں ۔جو سرکاری و غیر سرکاری میڈیا پر بیٹھ کر اپنے حصے کا کام کریں ۔اُور وہ کر بھی رہے ہیں۔ اِس وقت ہمارے نوجوانوں کی نظریں پاکستانی فوج پر بہت لگی ہوئی ہیں۔ہم نے کئی اساتذہ کو یہ بات کہتے سنا ہے کہ نوکریاں نہیں مل رہی ماسوائے فوج اُور پولیس کے !!۔ہمارے قابلِ قدر اساتذہ او ر میڈیا کی طرف سے فوجی جوانوں کی تعریفیں سن سن کر ہماری نوجوان نسل فوج میں بھرتی ہونے کا شوق رکھتی ہے۔یہ اچھی بات ہے لیکن ظاہر ہے ہر انسان ہر کام کے لیے نہیں ہوتا۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ فوج پر تنقید کر نے و الوں کو برداشت نہیں کیا جاتاہے۔چیف آف آرمی سٹاف کے اخباروں میں ’’کارٹون‘‘ نہیں بنائے جاتے ہیں ۔فوج کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاتا ہے۔مطلب کہ کئی قسم کے امتیازات فوج کو حاصل ہیں ۔لیکن زندگی کا اصل مقصد صرف پیسہ کمانا نہیں ہے۔ بلکہ ذہنی سکون اور پیشے میں دلچسبی کو بھی اہمیت دی جانی چاہیے ۔اور اس کے علاوہ دوسروں کو خواب غفلت سے جگانا بھی تو ایک قسم زندگی کا فرض ہے۔یہاں فوج کے حوالے سے ایک اُور مسئلہ ابھر رہا ہے ،لوگوں کی فوج میں دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کچھ ’’ٹاؤٹ‘‘ قسم کے لوگوں نے فوج میں بھرتی کروانے کے نام پر پیسہ کمانا شروع کر دیا ہے۔ایسا تو ہونا ہی تھا کیونکہ فوج کے علاوہ کسی سرکاری محکمے میں نوکری خواب بن گیا ہے ۔

اُور پھر پاکستانی ریاست تو ’’متشدد ریاست‘‘ ہے، اِس نے سرکاری نوکری دینے کا ’’رواج‘‘ چار پانچ سال پہلے ہی بند کر دیا ہے ۔اِس سے خیر کی توقع عبث ہے ۔ اِس وقت ہمارے نوجوانوں کی کردار سازی اُور ذِہن سازی کی بہت ضرورت ہے۔بیداری کا تعلق شعور سے ہے، خاص طور پر سیاسی شعو ر سے ہے ۔جب سیاسی شعور پیدا ہو گا، تو لوگوں میں ظالم قوانین ،ظالم و غاصب حکمرانوں اُور سامراجی طاقتوں کے خلاف جدوجہد کا جذبہ پیدا ہو گا ۔سائنسی ترقی کی ضرورت بجا ہے۔اطلاقی سائنس کے مضامین کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ،تاہم جو طلبہ ذہین ہیں،رُوشن خیال ہیں ،اُور کچھ کر دکھانے کا شوق رکھتے ہیں ۔اِن کو سوشل سائنسز کے مضامین پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی ۔

عمرانی علوم کا یہ فائدہ تو ہے ہی کہ کوئی بھی فرد ’’انسان‘‘ بن جاتا ہے۔ لیکن اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان دوسروں کا نجات دہندہ بھی بن سکتا ہے۔عمرانی علوم پڑھنے والا اِنسان’’ خلق‘‘ کو ظلم ،جبر ،تشدد، اِنتہاپسندی اُور فکری پسماندگی سے نکال کر ایک رُوشن مستقبل سے رُوشناس کرواسکتا ہے ۔ظاہر ہے اِنسان کو کھل کر آزادی ملے گی، تو تبھی انسان معاشرے کو بلندیوں پر لے جائے گا ۔جو انتہا پسندی کے ماحول میں ناممکن ہے ۔ لہذٰا ، ایک رُوشن خیال اُور لبرل پارٹی ہی انتہا پسندی کے ماحول کو ختم کر سکتی ہے!!!۔

One Comment