جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو  رپورٹ پیش کر دی

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اہم ترین ابواب میں سے ایک دس جولائی کو اس وقت ختم ہوا جب وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام میں ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی ایک تفصیلی تفتیشی رپورٹ سپریم کورٹ کے حوالے کر دی۔

لیکن یہ رپورٹ پیش کیے جانے کے باوجود سسپنس ابھی ختم نہیں ہوا اور عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کا تفصیل سے مطالعہ کرنے اور مستقبل میں اپنا فیصلہ سنانے سے قبل اس مقدمے کی سماعت آئندہ پیر سترہ جولائی تک کے لیے ملتوی کر دی۔

مگر سپریم کورٹ نے سترہ جولائی تک کے لیے کچھ عبوری احکامات بھی جاری کیے ہیں، جن سے نہ صرف وزیر اعظم، حکمران جماعت اور حکومت پر دباؤ برقرار رہے گا بلکہ کچھ دیگر سیاسی معاملات پر بھی اثر پڑے گا۔ مثال کے طور پر نواز شریف کے تین اہم ترین ترجمان اور رفقاء، سعد رفیق، آصف کرمانی، اور طلال چوہدری عدالتی کارروائی کے دائرے میں آ گئے ہیں۔

عدالت نے جے آئی ٹی کی ساٹھ دن کی مدت کے دوران ان تینوں افراد کے عوامی سطح پر دیے گئے تمام بیانات کے ٹرانسکرپٹ یا تحریری ریکارڈ طلب کر لیے ہیں۔ ان تینوں پر توہین عدالت کے الزام کا تو ابھی تک اطلاق نہیں ہوا مگر وہ توہین عدالت کے جرم کا ممکنہ ارتکاب کر چکنے کے بہت قریب ضرور پہنچ گئے ہیں۔ یوں یہ تینوں وزیر اعظم کے خلاف ممکنہ فیصلے سے قبل ہی تکنیکی طور پر ’ملزم‘ بن گئے ہیں۔

اس معاملے میں یہ بھی ہوا کہ اس قانونی مقدمے میں ایک فریق یعنی حکومت‘ کے خلاف ایکشن آرڈر کر دیا گیا ہے جبکہ دوسرے فریق اپنے موقف کو تسلسل سے تقریباﹰ عدالتی موقف قرار دیتے آئے ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم کے یہ قریبی سیاسی رفیق تو کچھ دنوں کے لیے بظاہر بچ گئے ہیں مگر میڈیا کا ایک حصہ، اردو اخبار جنگ‘ اور انگریزی روزنامہ دی نیوز‘ جو ایک ہی میڈیا گروپ کا حصہ ہیں، عدالت کی ناراضگی کا نشانہ بن گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ان اخبارات کے ایڈیٹر، پبلشر اور ایک رپورٹر کے خلاف مبینہ طور پر جے آئی ٹی کی کارروائیوں سے متعلق غیر حقیقی خبریں شائع کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔

یہ ایک ایسا اقدام ہے، جس کے ساتھ بظاہر آزادی اظہار سے متعلق چند سوالات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ اس بارے میں ایک سینئر صحافی سراج ظہیر کے مطابق، ’’ڈان لیکس کا ابھی بہت مشکل سے خاتمہ ہوا تھا تو اب جنگ لیکس‘ کا آغاز ہو گیا ہے۔‘‘ اس دوران کئی صحافتی حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عدالت چاہے جنگ گروپ کو شو کاز نوٹس جاری کر دیتی مگر، ان حلقوں کے بقول، عدالت کی طرف سے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جانا کافی ’سخت اقدام‘ ہے، اس لیے بھی کہ عدالت نے جے آئی ٹی بناتے وقت اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی کارروائی کے بارے میں رپورٹنگ پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی۔

اس کے علاوہ جے آئی ٹی نے رپورٹ جمع کراتے ہوئے عدالت سے درخواست کی کہ اس رپورٹ کے سیکشن 10 کو خفیہ رکھا جائے۔ یہ اس لیے حیرت کی بات ہے کہ ملزمان کو ان کے خلاف مکمل کی گئی تفتیش پوری طرح اگر پیش نہ کی جائے، تو وہ اپنا دفاع کا حق کیسے استعمال کر سکیں گے؟ عدالت نے دونوں پارٹیوں کو رجسٹرار سے جے آئی ٹی کی رپورٹ کی ایک ایک کاپی حاصل کرنے کی اجازت دے دی مگر سیکشن دس کو خفیہ رکھنے سے متعلق افواہیں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور معروف تجزیہ نگار قبلہ ایاز نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’اس کیس میں سب سے اہم شہادت قطری شہزادے کی ہو سکتی تھی، جس پر نہ تو کورٹ نے کوئی توجہ دی اور نہ ہی جے آئی ٹی نے، جو کہ نواز شریف کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے‘‘۔

قبلہ ایاز نے کہا، ’’دوسری اہم بات یہ کہ عوامی نمائندوں کے احتساب کا یہ طریقہ کار نہیں ہوتا۔ ان کا احتساب کارکردگی پر ہوتا ہے اور ویسے بھی اس درخواست کو تو کورٹ نے پہلے قابل سماعت ہی نہیں سمجھا تھا۔ یہ تو دھرنے کے بعد اچانک قابل سماعت ہو گئی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سیاسی تناؤ جمہوریت پر عدم اعتماد کی صورت حال پیدا کر رہا ہے۔ منتخب نمائندوں کو وقت سے پہلے نکالنا اچھی بات نہیں ہے‘‘۔

 جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد بظاہر جو واحد بات حکومت کے حق میں گئی ہے، وہ یہ ہے کہ عدالت کی اجازت سے اب وزیر اعظم کے بیٹے حسین نواز شریف کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کی ایک تصویر لیک کرنے والے فرد یا افراد یا ادارے کو بھی بےنقاب کیا جائے گا۔ مگر یہ اجازت بھی ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اس لیے کہ عدالت نے کہا ہے کہ ایسے کسی بھی فراد یا افراد کو ’ایکسپوز‘ کرنا عدالت کا نہیں بلکہ خود حکومت کا کام ہے۔

مزید یہ کہ حکومت اگر چاہے تو اس تصویر کے لیک کیے جانے کی چھان بین کے لیے بے شک مبینہ طور پر ملوث فرد یا افراد یا کسی حساس ادارے کے خلاف کمیشن بھی قائم کر دے۔ متعدد ماہرین کے مطابق یہ ایک مشکل کام ہو گا کیونکہ اس پر عمل کرنے سے حکومت کے لیے درحقیقت ملک کے دفاعی اداروں کے ساتھ پہلے سے سرد تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہو گا۔ دوسری طرف اگر ایسا نہ کیا گیا، تو اپنے حق میں ملنے والا خود کو قانونی طور پر مظلوم ثابت کرنے کا ایک اہم موقع ضائع ہو جائے گا۔

پاکستان کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر قاضی انور نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ابھی تو یہی پتہ نہیں کہ شاید پانچ سو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ہے کیا؟ لیکن میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ شاید ابھی تک کورٹ کے پاس نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ کیونکہ اگر بات منی لانڈرنگ کی ہے تو منی ٹریل کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے اور وہ تو ابھی تک ہیں نہیں‘‘۔

پاکستان میں جاری جے آئی ٹی اور حکومت کے مابین تناؤ کے بارے میں معروف سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جے آئی ٹی کو سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ اس میں بہت سے قانونی معاملات ہیں۔ اگر نواز شریف پر ریکارڈ ٹیمپرنگ اور منی لانڈرنگ ثابت ہو جاتی ہے، تو عدالت انہیں نااہل قرار دے سکتی ہے۔ لیکن ابھی اس میں بہت سی قانونی پیچیدگیاں ہیں، جن کا سمجھنا بہت  ضروری ہے‘‘۔

کئی سیاسی ماہرین کے مطابق اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اب ہو گا کیا؟ یہ جاننے کے لیے ابھی ایک ہفتہ اور انتظار کرنا ہو گا۔ اس فیصلے سے وزیر اعظم اور حکومت کو مزید کچھ مہلت مل گئی ہے۔ مگر شاید یہ بھی ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اس لیے کہ اپوزیشن اور میڈیا حکومت پر اپنا دباؤ مزید بڑھا دیں گے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر عمل کے سلسلے میں سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ بہت اہم ہو گا کیونکہ اسی پر وزیر اعظم کے سیاسی مستقبل، 2018 کے الیکشن کی حیثیت اور سپریم کورٹ کی اپنی ساکھ کا انحصار ہو گا۔

پاکستان میں زیادہ اہم موضوع جمہوریت کا ہے، اس کے معیار کا، جمہوریت پر دفاعی اداروں اور عدالتی فیصلوں کے اثرات کا یا پھر الیکشن ہی جمہوری احستاب کا اہم ترین ذریعہ ہیں؟ ان بہت سے سوالوں میں سے چند کے جوابات شاید ایک ہفتے بعد ہی سامنے آ سکیں گے۔

DW

One Comment