ھم اور سمجھوتے 

محمدحسین ہنرمل

ریمنڈ ڈیوس رہائی ڈیل کے انکشاف پر اہل وطن بے چارے پریشان اور ماتم کناں ہیں۔چھ سال پیشتر ہونے والی اس ڈیل کو کوئی ملکی سا لمیت کا گلا گھونٹنے سے تعبیر کررہاہے تو کسی کے ہاں یہ پاکستان کی سبکی کے مترادف ہے۔جتنے منہ اسی حساب سے شکوے، ان گنت منتیں اورمایوس کن تبصرے سن کر مجھے اونٹ کے بارے میں پشتو زبان کی وہ مشہور کہاوت یاد آتی ہے جب برہم شتربان نے اس عجیب الخلقت جانور کو ’’ٹیڑھی گردن والے جانور‘‘کا طعنہ دیاتھا۔ کہاجاتاہے کہ اپنے باس کا یہ طعنہ سن کراونٹ کی فوراً ہنسی نکل گئی اوربولا ’’ اوئے احمق! میرے وجود میں سیدھی اندام سرے سے ہی نہیں کہ تُوفقط میری گردن کے اوپر نقد کرکے اپنا غصہ نکالے رہے ہو‘‘۔

ریمنڈڈیوس ڈیل سے متعلق بھی میرے عزیز ہم وطنوں کو اب کون سمجھائے کہ یہ ملک بھی اسی عجیب الخلقت مخلوق کا ایک شاہکار نمونہ ہے جس کی نہ صرف گردن میں ٹیڑھاپن ہے ناہی لمبے تڑنگے ٹانگوں اوردُم میں ، بلکہ تاحد نظر ٹیڑھے پن کا مجموعہ ہے۔ان یار لوگوں کے تجزیوں اور تبصروں سے لگ رہاہے جیسا کہ پاکستان کی اہانت صرف پہلی مرتبہ اس وقت ہوئی جب فیضان اور فہیم کو دن دیہاڑے گولیوں سے بھون ڈالنے والے ریمنڈڈیوس کو عزت وتکریم کے ساتھ رہائی ملی۔

یاں یوں سمجھیے کہ اس ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگانے والے صرف اور صرف اسی وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ، امریکہ میں سفیر حسین حقانی ،میاں نوازشریف یا شجاع پاشا ہی ہیں۔واشنگٹن کے خزانے کی بجائے اسلام آباد کی جیب سے چوبیس لاکھ روپے کے عوض ڈیوس رہائی ڈیل بلاشبہ ملکی تاریخ کا بدترین ڈیل تھی لیکن یہ توصرف وہی ٹیڑھی گردن سمجھیے جس کا تذکرہ ہم پہلے کرچکے ہیں ۔ہم اگر اپنے ستر سالہ ماضی میں جھانکنے کی زحمت کرلیں تو پیچھے بھی ہم ٹیڑھے پن اور کج رویوں کی ایک لمبی داستان رکھتے ہیں۔

آنجناب ایوب دور سے اگر کہانی کا آغاز کیا جائے تب بھی ہم ایسے ہی ڈیلز اور سمجھوتوں کے ریکارڈز قائم کرنے کے خوگر تھے ۔جب امریکہ بہادر کو چین کے خلاف سی آئی آئے کا بند اڈہ دوبار بحال کرنے کی ضرورت پیدا ہوئی تو مرحوم ایوب کو طیارے میں بٹھاکر نہایت عزت اور احترام کے ساتھ جارج واشنگٹن ہاؤس میں ڈنر دے دیا، گویا امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار کسی غیرملکی سربراہ کو اس تاریخی ہاوس میں بطور مہمان ٹھہرایا گیا۔ چونکہ موصوف صدر نے ہمسایہ ملک چین کے خلاف ڈھاکہ میں ’’ سی آئی اے کا ‘‘فضائی اڈہ بندکیاتھا، سوجارج واشنگٹن ہاوس میں ایوب کوصرف اس شرط پر مذکورہ اڈادوبار ہ بحال کرنے پر راضی کرلیا کہ چین کابھارت پرحملہ آور ہونے کے وقت امریکہ پاکستان سے مشورہ کیے بغیربھارت کو اسلحہ فراہم نہیں کرے گا۔

ایک برس بعدجب چین نے بھارت پرحملہ کیا تو امریکہ نے اپنے وعدے کے برعکس نہ صرف بھارت کو اسلحہ فراہم کیابلکہ ایوب خان سے مشورہ توکجا، پوچھنے تک کی زحمت نہیں کی۔اسی طرح بنگالیوں کو آج کے روہنگھیامسلمانوں سے بھی کمتر سمجھنے والے جنرل یحییٰ خان اور دیگر حکمرانوں کی 1971 والی ڈیل(جس کے عوض ڈھاکہ ساقط ہوگیا)،کیا2011کے ریمنڈ ڈیوس رہائی ڈیل سے کوئی کم ڈیل تھی یا اس کے مقابلے میں ہزار گنا بڑی؟ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر کیامرحوم جنرل محمد ضیاء الحق نے ایسا اپنی مرضی سے کیاتھا یا باہربیٹھے آقاووں کی منشا و رضا پر؟ ملک کے کندھے پر امریکن راکٹ لانچرزاور بندوق رکھ کرسوویت یونین کے خلاف ایک دہائی پیہم مزاحمت بھی جنرل ضیاء کی ذاتی خواہش تھی یا اس دس سالہ ٹھیکے کا سارا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم واشنگٹن والوں کے ہاتھ میں تھا؟

کہاں پہ ہمارے ملک کے ان رووساء اور مقدر سنوارنے والوں نے سمجھوتوں اور مصلحتوں سے احتراز کیاہے اور کہاں پہ ان حکمرانوں نے اپنے ارواح کو سکون پہنچانے کی خاطر سب کچھ داو پر لگانے سے گریز کیا ہے؟نوسال جیسا طویل عرصہ اس مملکت خداداد کا سب کچھ رہ کر محترم سپہ سالار جنرل پرویزمشرف کی زندگی کا وہ کونسا دن رہ گیاہوگاجوڈیلوں اور مصلحتوں کی عیاشیوں سے گزرا نہیں ہوگا۔دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے دوران شمسی ، جیکب آباد اور دیگر ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کرکے ساٹھ ہزار کے قریب پروازیں یہیں سے افغانستان پر بمباری کیلئے بھیجنا کیاکوئی ادنیٰ ڈیل تھی یا پرلے درجے کی دلالی تھی ؟

امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر کیا ہمارے ان کرم فرماؤں نے اس خطے میں پھول کھلاڈالے یا آگ اور خون کے بے پایاں طوفان کو مدعو کیاتھا، جس کی سزائیں آج تک قوم بھگت رہی ہے۔ریمنڈڈیوس ڈیل کے بعداسامہ بن لادن راتوں رات کاکول اکیڈمی کی بغل سے امریکی کمانڈوز کے ہتھے چڑھ جانا پاکستان کی سلامتی ، خودمختاری اور سالمیت کے استحکام کی ایک قابل مدح کوشش یا ایک مذموم ومطعون خلاف ورزی تھی۔

سعودی کی قیادت میں ایران اوراس کے دیگر ہم خیال ملکوں کے خلاف بننے والی فوجی اتحاد کا حصہ بنناہو یا پھر ملکی خزانے کے اربوں روپوں کو پانامہ ، سوئس اور اماراتی بینکوں تک پہنچانا ہو، انتخابات میں کسی کو جتواناہو یا دیار غیر سے دیگر اشاروں پر اٰمناٰ صدقنا کہناعلیٰ ھٰذالقیاس ،سب ڈیل ہی ڈیل اور سمجھوتے ہی سمجھوتے ہیں۔گویا بقول شاعر 

تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے ہاں فقط سال 2011 بدقسمت سال نہیں کہ جس پر ہم ریمنڈ ڈیوس رہائی ڈیل کے اوپر آنسو بہالے ،نہ ہی اسامہ بن لادن حوالگی والی رات ایک بدشگون رات ہے ، بلکہ ہم روز اول ہی سے ڈیلوں اور سمجھوتوں کے خوگر ہوکر ملکی سالمیت اور خودمختاری پر کلہاڑ چلاتے آرہے ہیں۔

2 Comments