پانامہ کیس اور سیاست

محمدحسین ہنرمل

زرداری اور گیلانی صاحبان پر کرپشن کے الزامات کا ساری قوم کااجماع ہوچکاہے ۔بے شک جنرل (ر) پرویز مشرف،اس کے جی حضوریے اوراس قبیل کے کئی دیگرحکمران بھی کرپشن کے حمام میں ڈھکے اورمستور ثابت نہیں پائے گئے ہیں،البتہ ایک حوالے سے یہ لوگ پھربھی داد کے مستحق ہیں کہ اپنے ننگے پن پر کبھی بھی انہوں نے بھنگڑے ڈالے اور نہ ہی دوستوں کے منہ میں گلاب جامن اور برفیاں ٹھونسیں۔ 

ہمارے ان زرداریوں ، گیلانیوں اور پرویزیوں نے سوئٹزر لینڈ، دبئی اور متحدہ عرب امارات کے اکاونٹس پاکستانی سرمایوں سے معمور کردیئے لیکن کرپشن کی لعنت کو اپنے ماتھوں کا جھومر بنانے کی مذموم کوشش ان حضرات نے کبھی نہیں کی ۔ اس قابل رحم دیس میں ایسی توفیق پہلی دفعہ ہمارے حاضر سروس وزیراعظم صاحب اور ان کے پسران ، دختران ، برادران اور خدام کے حصے میں آئی کہ اربوں روپے کی لوٹ مار اور غبن کے باوجود انہوں نے برسر بازار بھنگڑے بھی ڈال دیئے اور مٹھائیاں بھی بانٹ دیں ۔

سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے کہ قوم کا بچہ بچہ بھی انہیں شریفوں اور میاوں کی بجائے خائن اورکذاب کے نام سے یاد کرتے آرہے ہیں لیکن ان کا رویہ ہنوز اُن بہادر فاتحین سا ہے گویا کہ ملکوں کے ساتھ ساتھ یہ لوگوں کے دل بھی فتح کرچکے ہیں۔جب سے اس بدقسمت قوم اور عوام پر اس شاہی خاندان کے پاناموں ، مئے فیئرز اپارٹمنٹوں ، ملوں اور کارخانوں کے راز کھل گئے ہیں تب سے ان کی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی میں کمی کی بجائے پیہم اضافہ ہورہاہے۔

صاد ق اور امین جیسی صفات سے عاری قرار دے کر گویا ملک کی سپریم عدالت نے بھی انہیں کذب اور خیانت جیسے قبیح اوصاف سے انہیں نوازا تو کیا اس کے باوجود بھی یہ اہل پاکستان پر حکمرانی کرنے کے مستحق تھے یا انہیں شرم سے پانی پانی ہوکر انہیں پل بھر میں تخت لاہور سے اترنا چاہیے تھا؟دفعہ باسٹھ اور تریسٹھ پر تو ایک فیصد بھی نہیں اترے لیکن اس کے باوجودعدالت نے رعایت برتتے ہوئے ان کے اوپرمشترکہ تحقیقاتی کمیشن بناڈالا۔

مٹھائیاں بانٹنے کے بعدباسٹھ اور تریسٹھ پر نہ اترنے والے اب کی بار کمیشن کے ارکان کو آنکھیں دکھانے پر اترآئے ۔تحقیقات کے دوران کبھی تونہال ہاشمی اس تحقیقاتی ٹیم کے ارکان کو عبرت کا نشان بنانے کی دھمکیاں دیتا تو کبھی خواجہ سعد رفیق اپنے آپ کو لوہے کے چنے ثابت کرتے اور جے آئی ٹی کومفت میں اپنے دانت توڑنے سے باز رہنے کی تلقین کرتے۔کبھی طلال چوہدری عدالت کی تشکیل کردہ اس ٹیم کو قصائی کی دکان سے تعبیر فرماتے تومشرف دور میں وہ وعدہ معاف گواہ اپنی پیشی کے بعدباہر عمران خان اور تحقیق کاروں پرگھنٹوں تک سب وشتم کرتے ۔

گزشتہ پیر کو جب جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت پہنچی تو سلطان وقت اور فیملی کے سارے کرتوت قوم کے سامنے آہی توگئے کہ ’’ چاروں لندن فلیٹس انیس سو ترانوے سے اب تک شریف فیملی کی ملکیت میں ہیں۔مریم صفدر نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنیوں کی حقیقی مالکن ہیں ۔قطری شہزادے کی طرف سے لایا گیا والا نامہ حقیقت کی بجائے بوگس اور افسانہ ہے۔خسارے میں چلنے والی کمپنیوں سے برطانیہ میں مہنگی جائیداد خریدی گئی ۔مریم صاحبہ نے اثاثے چھپائے ، اسحاق ڈار کے اثاثوں میں سال دوہزار آٹھ اور نو کے دوران بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اپنے ہی ادارے کو سولہ کروڑ روپے خیرات ظاہر کرکے رقم اپنے پاس رکھی اور ٹیکس استثنیٰ لیا ۔حسین نواز العزیز یہ اسٹیل مل خریدنے اور قرضے کا ریکارڈ پیش کرنے سے قاصر رہے ۔

نوے کی دہائی میں اپنے والد کی حکومت میں حسن نواز کے اثاثوں میں اضافہ ہوا ۔ تفصیلات اورذرائع باربار پوچھنے کے باوجود نہیں بتائے ، وغیرہ وغیرہ۔ بے شک شاہی خاندان کی مبینہ بدعنوانیوں کو ایشو بنانا، مسلسل اس کا تعاقب کرنا،اور پھراسے اعلیٰ عدلیہ تک لے جانے کاسارا کریڈٹ عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کو جاتاہے۔یہ عمران خان ہی توہیں جنہوں نے سلطان وقت کو پہلے انتخابی دھاندلیوں کے اوپر خوب دِق کیا اور پھر انہیں عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کردیا۔

کیا ملکی اداروں کے عام آفیسروں پر مشتمل جے آئی ٹی ارکان کے سامنے اس دیس ناپرساں کے وزیراعظم کے پیش ہونے کا کوئی سوچ بھی سکتاتھا؟ کیا دوشہزادوں کو باہر سے بلانا اور بار بار جے آئی ٹی ارکان کے روبرو بٹھاکران پر سوالات کرناکسی کے وہم وخیال میں بھی تھا ۔کیامستقبل میں بے نظیر بھٹو بننے والی شہزادی کو گھنٹوں جوڈیشل اکیڈمی میں پوچھ گچھ کیلئے حاضر کرکے اس ملک میں امور ممکنہ میں سے بھی ایک ممکن امر تھا؟سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اس شاہی خاندان کے چشماں وچراغاں ایسی کوفت اور ذہنی اذیت سے گزرتے اگر عمران خان مسئلے کو ایشو نہ بناتے۔

کیا’’ خدا کی زمیں پر خدا کے نظام ‘‘ کے نفاذ کے علمبردارمولانا فضل الرحمان صاحب ایسے کرسکتے تھے یا ایساسوچ سکتے تھے؟قطعاً نہیں ، ایں خیال است ، محال است ، جنوں است ۔الٹاشریف زادوں کے حق میں بیانات دے دے کرمولانا صاحب نے شاید ایک حیلہ یہ بھی نکالاہوگا کہ یہودی ایجنٹ اگرسلطان جائر کے سامنے حق کی آواز بھی بلند کرے تو اس کی تائید کرنا بھی حرام ہے ۔بے شک دلوں کے بھید سے ذات باری تعالیٰ واقف ہے لیکن میرانہیں خیال کہ مولانا صاحب نے پاناموں اور فلیٹوں کی شکل میں اس غبن کو کم ازکم دل میں بھی برا سمجھا ہوگا۔

گزشتہ ہفتے اور جمعے کے اخبارات میں ان کے فرمودات عالیہ ہر کسی نے پڑ ھے ہونگے کہ ’’ پانامہ ایشو کے اوپر ہم میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں ‘‘، سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی رپورٹ متنازعہ تصور کرے اور جے آئی ٹی متنازعہ ہوچکی ہے لہٰذا اس کی رپورٹ بھی نزاع سے خالی نہیں ‘‘۔

Comments are closed.