سیاسی جماعت یا بے لگام ہجوم

خادم حسین

سیاسی عمل انسان کے سماجی ارتقاء سے ہم آہنگ اجتماعی حکمرانی کا نظام قائم کرنے، ایک خاص جغرافیے میں رہنے والے انسانوں کی تہذیبی شناخت کے سفر کو تخلیقیت سے بار آور کرنے، وسائل و پیداوار کی منصفانہ تقسیم کے لئے ادارے قائم کرنے اور اداروں کو اہلیت اور شفافیت کے اصولوں کے مطابق چلانے کا نام ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو سیاست اور سیاسی عمل انسانی اجتماعیت کی بنیاد قرار پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام شخصیات جو زندگی کا اعلیٰ معیار حاصل کر لیتی ہیں سیاسی عمل کا حصہ بنتی ہیں یا اسکی رہنمائی کرتی ہیں۔تاریخی طور پر انسانیت کا اعلیٰ جوہرمختلف شکلوں میں سیاسی عمل کی صورت میں نمودار ہوتا آرہا ہے۔

مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے عوام اور اقوام کی ہر سیاسی جماعت اور تحریک کے پاس منشور اور واضح مقاصد کے ساتھ ساتھ تحریک کے ساتھ وابستہ لوگوں کی اہلیت کی بنیاد پر تحریک کے اندر نمائندگی کے قواعد و ضوابط بھی لازمی شرائط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہی اجزاء سے کسی سیاسی تحریک یا جماعت کی تنظیم تشکیل پاتی ہے۔ سماج و تحریک کے اندر مکالمے کا عمل کسی بھی سیاسی تحریک یا جماعت کی بنیادی سٹرٹیجی ہوتی ہے۔ کارکنوں کی فکری اور تنظیمی تربیت کسی تحریک کے ارتقاء اور دوام کا باعث بنتی ہے۔

جو گروہ سیاسی جماعت یا سیاسی تحریک ہونے کا دعویٰ کرے مگر جس کے پاس نہ واضح مقاصد ہوں نہ اجتماعی نمائندگی کے قواعد و ضوابط وہ ایک بے لگام ہجوم تو ہو سکتا ہے ایک سیاسی تحریک یا جماعت نہیں۔ ایسا ہجوم موجودہ نظام اقدار کو برباد تو کر سکتا ہے نئے اور صحت مند اقدار کے ساتھ منصفانہ نظام قائم نہیں کر سکتا۔ انکا نصب العین صرف طاقت کا حصول رہ جاتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کی سیاست کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ انکے پاس نہ واضح سیاسی مقاصد ہیں نہ نمائندگی کے قواعد و ضوابط۔ مقبولیت کے زعم میں سرشار اس گروہ کے پاس جذباتی نعروں سے پرے کوئی پروگرام نہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے مبہم نعروں کے سوا اس گروہ کے ساتھ پالیسی سازی کی کوئی تفصیل نہیں۔ اس گروہ میں شامل لوگ سمجھتے ہیں کہ انکے ساتھ اختلاف رائے دنیا کا سب سے بڑا جرم ہے جسکی سزا یا تو موت ہو سکتی ہے یا پھر مکمل کردار کشی۔ غیر مہذب اور غیر سیاسی حملوں کو یہ گروہ سیاست سمجھتا ہے۔ نادیدہ غیر جمہوری قوتوں کے سہارے اقتدار تک پہنچنا یہ گروہ اپنی سٹریٹجی سمجھتا ہے۔

سنہ2013 میں یہ گروہ خیبر پختونخوا میں اسی سٹریٹجی کے ذریعے بر سر اقتدار آیا۔ سب سے پہلا کام اس گروہ نے یہ کیا کہ انتہا پسند حلقوں کو خوش کرنے کے لئے تعلیمی نصاب کے اندر انتہا پسند مواد کی مقدار کو تو بڑھا دیا مگر کم و بیش سکولوں سے باہر پچاس لاکھ سے زیادہ بچوں اور بچیوں کو سکولوں میں داخل کرنے کے لئے ایک بھی نیا سکول قائم نہیں کیا۔ سکولوں کی سہولیات میں اضافہ کرنے کے لئے عام لوگوں سے تعاون کے حصول کے لئے تعمیر سکول پروگرام شروع کیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکے اشتہارات پر اسکی آمدنی سے زیادہ خرچ کیا گیا اور منصوبہ ٹھپ ہو گیا۔

اس گروہ نے لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے کئی ایک مقبول جذباتی اعلانات کئے تھے۔ ۳۵۰ نئے ڈیم بنانے کا دعوی ٰ کیا اور ابھی تک پانچ ڈیم بھی نہیں بنا سکا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ توانائی کا پورا صوبائی ادارہ متنازعہ بن گیا۔

ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ شروع کرنے کا دعویٰ کیا اور کچھ مدت بعد منصوبہ خرد برد کا شکار ہوکر ٹھپ ہو گیا۔ بڑے زور و شور سے احتساب اور شفافیت کے لئے صوبائی احتساب کمیشن قائم کیا لیکن ابھی تک اسکے انتظامی اخراجات پر کروڑوں روپے خرچ کئے لیکن ایک روپیہ بھی ابھی تک وصول نہیں کیا جبکہ اسکی سربراہی کا مدت سے کٹھائی میں پڑا ہے۔ شفافیت کو نافذ کرنا تو درکنار اس ٹولے کی صوبائی حکومت کی آڈٹ رپورٹ میں ۵۰ ارب سے زیادہ بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا۔

ساڑھے چار سال میں اس ٹولے کی حکومت نے خیبر پختونخوا میں صرف ایک میگا پراجیکٹ شروع کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے اور وہ ہے ریپڈ ٹرانسپورٹ پراجیکٹ جس کے لئے 80 فیصد سے زیادہ فنڈ سود پر حاصل کئے ہوئے قرضوں سے پورا کیا جائے گا۔ اسکا مطلب یہ ہوگا کہ صوبے کو آئندہ کئی دہائیوں کے لئے مقروض رکھا جائے گا۔

تحریک انصاف نامی اس ٹولے نے خیبر پختونخوا میں جو سب سے دیرپا منصوبے کو عمل میں لانے کی کوشش کی وہ پختونوں کی قومی شناخت کو تحلیل کرنے کا پراجیکٹ ہے۔ لگتا ہے کہ قیوم خانی سے عمران خانی تک ریاست کی مقتدر قوتیں قومی شناختوں اور ثقافتی تنوع کو تحلیل کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کرنے کا تسلسل جاری رکھی ہوئی ہیں۔

Twitter: khadimhussain4

2 Comments