متشدد پیدائش

ڈاکٹر گوہر ہرپال سنگھ

سنہ 1947 میں ، ہندوستان کے صوبے پنجاب کی تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کا موضوع، جس میں 14 ملین افراد کو زبردستی ہجرت کرنا پڑی ، اب تاریخ نویسی میں کاٹیج انڈسٹری بن چکا ہے۔ 1980 خاص کر سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد ہندوستان کی تقسیم پر سیاسیات کے طالب علموں ، نچلے درجے کے افسروں، خواتین کے حقوق کے علمبرداروں، دلتوں، تقابلی مطالعہ کرنے والے اور قوم پرستوں ، ان میں ایک جہاندیدہ سیاستدان جسونت سنگھ بھی ہیں،نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے ان فسادات کا جائزہ لیا ہے جو کہ ایک مقبول عام سوچ سے مختلف ہیں۔

تاہم ان تجزیوں سے انہوں نے جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اب یہ بات مصدقہ بنتی جارہی ہے کہ تقسیم کے وقت جو منظم تشددکیا گیا، یہ سب اچانک نہیں ہوا تھا اور یہ کوئی حادثہ تھا نہ پاگل پن بلکہ اس کے سیاسی مقاصد تھے۔اس وقت کی اہم شخصیات ، جواہر لعل نہرو، سردار پٹیل، محمد علی جناح، اور بلدیو سنگھ کو اس قتل و غارت کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

برٹش پنجاب کے آخری گورنر سر ایون جیننگ اپنی یاداشتوں 
Communal War of Succession
میں لکھتے ہیں کہ انتظامیہ کانگریس ، مسلم لیگ اور اکالیوں کی سیاست کے آگے بے بس ہو چکی تھی۔ ان سیاستدانوں کی طرف سے یہ الزام لگانا کہ برٹش انتظامیہ نے جان بوجھ کر فسادات ہونے دیے، اپنی کمزوریاں چھپانے کے مترادف ہے۔ پہلے انہوں نے پنجاب کی تقسیم کو ممکن بنایا اور پھر اس حقیقت سے انکار کرنا کہ ان کی وجہ سے حالات خراب نہیں ہو ئے تھے۔

اشتیاق احمد اپنی کتاب میں دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلی دفعہ پنجاب کی تقسیم کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ۔ میرے خیال میں یہ دعویٰ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ ان کے کام کو دیکھ کر جلد ہی اندازہ ہوجاتاہے کہ مصنف نے کم وبیش وہی کام کیا ہے جو اس سے پہلے کئی بار ہو چکا ہے۔ انہوں نے 1940تک کی سیاسی صورتحال پر بحث کے بعد 1946 اور 1947 کے درمیان ہونے والے واقعات و فسادات کو موضوع بنایا ہے۔ کتاب میں جو حوالے دیئے گئے ہیں وہ نئے نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی دئیے جا چکے ہیں یا کم از کم جو تاریخ کے سنجیدہ طالب علم کے لیے نئے نہیں۔

جہاں تک نام نہاد برٹش خفیہ رپورٹس کا ذکر ہے جس کا حوالہ ٹائیٹل پر بھی دیا گیا ہے یہ تمام رپورٹس ٹرانسفر آف پاور پراجیکٹ کے تحت 1980 میں منظر عام پر آگئی تھیں اور حال ہی میں گورنر کی پندرہ روزہ رپورٹس چھپی ہیں ان میں بھی موجود ہیں۔حکومت پنجاب کے آرکائیوز میں بھی جو کچھ موجود ہے وہ بھی تاریخ کے سنجیدہ طالب علم کے لیے نیا نہیں۔ اس کتاب میں جونئی بات محسوس ہوتی ہے وہ دونوں اطراف کے لوگوں کے تقسیم کے وقت کے تاثرات (آنکھوں دیکھا حال ) ہیں جن میں سے کئی افراد اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں۔

’’آنکھوں دیکھا حال‘‘ اب’’ اورل ہسٹری ‘‘کا اہم حصہ ہیں۔2001میں گیانندرا پانڈے نے اپنی کتاب’’ ریمیمبگرنگ پارٹیشن ‘‘میں ایسے ہی لوگوں کے تاثرات جمع کیے ہیں مگر اس نے ان لوگوں پر کافی جرح بھی کی ہے کیونکہ ساٹھ سال بعد جب آنکھوں دیکھا حال بیان کیا جاتا ہے تو دراصل وہ اپنا ماضی نئے سرے سے گھڑ رہا ہوتا ہے۔ جہاں تک اشتیاق احمد کا تعلق ہے تو وہ اس سلسلے میں اس معیار تک نہیں پہنچ سکے جہاں تک انڈین مصنف پہنچ چکے ہیں۔ 

اشتیاق احمد اور نہ ہی کوئی اور پاکستانی مصنف 1947 کے فسادات کے متعلق کسی منطقی نتیجے پر پہنچ سکا ہے۔پاکستانی ریاست جس قتل و غارت اور دہشت گردی کا شکار ہے اس کی بنیاد تقسیم کے وقت ہی رکھ دی گئی تھی۔پاکستان کے قیام کے لیے تشدد ضروری تھا اور آج یہی تشدد پاکستانی ریاست کے لیے سب سے بڑا خطرہ بناہوا ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں ڈکٹیٹر شپ یا ناکام جمہوریت ، اسلامائزیشن یا سیکیورٹی سٹیٹ، جس نے اپنے جواز کے لیے خود ساختہ دشمن گھڑے ہوئے ہیں میں نہیں ہیں بلکہ اس کی تقسیم میں موجود ہیں کیونکہ ریاست نے پہلے دن سے ہی تشدد کو سیاسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔

پاکستان کے قیام کا تصور یا اس کی کیا وجوہات تھیں؟ ابھی تک کوئی بھی پاکستانی اس کی درست توجہیہ نہیں کر سکاجو اس ریاست میں جاری تشدد کی وضاحت کر سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ریاست مسلسل بحران کا شکار ہے اورپوری دنیا میں اس کی پہچان ایک دہشت گرد کے طور پر بن چکی ہے۔کیا اشتیاق احمد اس بات کا اعتراف کر تے ہیں کہ ایک ریاست جو تشدد کی بنیاد پر وجو د میں آئی اور ابھی تک اپنی کوئی درست سمت مقرر نہیں کر سکی۔ 

( بشکریہ :ٹائم لٹریری سپلیمنٹ، لندن،26 اکتوبر 2012)

پاکستانی ریاست ایک متشدد ریاست ہے

2 Comments