آرمی چیف کا دورہ کابل : توقعات اور خدشات 

ایمل خٹک 

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ کابل کے حوالے سے دونوں ممالک میں کافی تبصرے اور بات چیت کی کامیابی کے حوالے سے قیاس آرائیاں ہورہی ہے ۔قطع نظر اس بات کہ فریقین نے اس موقع پر کیا بیانات دئیے مگر بنیادی بات عمل کی ہے ۔ اس سے قبل سابق آرمی چیف نے فروری 2015 کو افغان دارالحکومت میں یہ تک بیان دیا تھا کہ افغانستان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے ۔ اس بیان کے بعد پاکستان کو تو نہیں مگر امریکی ڈرون کو یہ توفیق نصیب ہوئی کہ افغانستان میں برسر عمل کئی دہشت گردوں کو پاکستان کی سرزمین پر ٹھکانے لگا دیا ۔ جن میں مئی 2016 میں ڈرون کا نشانہ بننے والے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر محمد منصور بھی شامل ہے ۔ 

پاک افغان مذاکرات کے حوالے سے افغان دارالحکومت کابل میں پُر امیدی کم بلکہ نا امیدی زیادہ ہے ۔ دونوں ممالک کے بیچ بدگمانیاں اتنی بڑھ چکی ہے کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے22 دوروں اور موجودہ افغان صدر کے کئی دوروں اور سابق آرمی چیف راحیل شریف کی پے درپے دوروں اور ان گنت اعلی سطحی سول اور فوجی قیادت کی ملاقاتوں سے غلط فہمیاں کم نہیں بلکہ خطرناک حد تک بڑھ گئیں ہیں ۔

ناامیدی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معاملات ابھی تک سویلین کے ہاتھوں میں نہیں ۔ عوام اب بیانات سے زیادہ عملی اقدامات کو اہمیت دیتے ہیں ۔ اور بدقسمتی سے ابھی تک وعدوں کے برعکس عملی اقدامات کے معاملے میں اہم پیش رفت نہیں ہو رہی ہے ۔

اس مایوسی اور یاس کی فضا میں دعا تو یہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوں اور علاقے میں کشیدگی کم ہو ۔ مگر اس بار شاید ہمارے پالیسی سازوں کو تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے روایتی طریقوں سے بڑھ کر انتہائی ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہوگی ۔

 اہم ایشوز پر سول اور ملٹری میں اختلافات اور پالیسی تضاد کوئی نئی بات نہیں مگر اب اس میں شدت آگئی ہے ۔ میاں نواز شریف کی برطرفی کے بعد احتیاط کا دامن اب ہاتھ سے چھوٹتا نظر آرہا ہے ۔ نیا پن اس میں یہ ہے کہ اب ان بیانیوں میں شدت آگئی ہے ۔ بند کمرے کے اجلاسوں سے بات اب باھر آگئی ہے ۔ جن باتوں کے افشا پر ڈان لیکس بنا تھا اب وہ باتیں لیکس نہیں رہی بلکہ اب اوپن ہوگئی ہیں ۔ اس کا اظہار کھلم کھلا شروع ہوگیا ہے۔ اور دونوں طرف سے رسمی اور غیر رسمی اور بلاواسطہ اور بالواسطہ دونوں طریقوں سے ۔

متضاد اور مکس ریاستی بیانیے ریاستی اداروں میں اندرونی خلفشار اور خاص کر سول اور ملٹری اداروں میں بداعتمادی کی غمازی کر رہی ہے ۔ میاں نواز شریف کی وزارت عظمی سے برطرفی سے سول ملٹری تعلقات مزید خراب ہوئے ہیں ۔ اور عام خیال یہ ہے کہ ان کی برطرفی کے پیچھے اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ ہے ۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 میں حالیہ ضمنی انتخابات کے دوران ایجنسیوں پر چال بازیوں اور مسلم لیگی کارکنوں کی اغوا کے الزامات کچھ اشارات ہیں سول اور ملٹری تعلقات میں بڑھتی ہوئی غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کے ۔ 

وزیر خارجہ کا اپنا گھر ٹھیک کرنے کی بات سے بہت سے اسٹبلشمنٹ نواز حلقوں میں غم وغصہ پایا جاتا ہے ۔ پارلیمان میں بھی اس بیان کے حوالے سے مختلف تحرکیں پیش کی گئیں ہیں ۔ جبکہ وزیراعظم اور بعض وزراء نے خواجہ آصف  کے مذکورہ بیان کی حمایت کی ہے ۔ کچھ اپوزیشن جماعتیں اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے سول اور ملٹری تعلقات میں دڑاریں مزید بڑھانے کے موڈ میں نظر آرہی ہے ۔

مسلم لیگ کے اندر بھی چودھری نثار نے اس کی کھلم کھلا مخالفت کی ہے ۔ چودھری نثار کی خواجہ آصف کی اس بیان کی مخالفت کو بعض لوگ دونوں شخصیات کی سیاسی رقابت اور شخصی اختلافات کا شاخسانہ اور بعض ان کی جانب دے اسٹبلشمنٹ کو خوش اور ان سے نباہ رکھنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں ۔ 

اس اندرونی خلفشار کا اندازہ سول اور ملٹری کے بیانات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ ان متضاد بیانیوں کی مہذب جھلک ریاست کے اہم نمائندہ اور رسمی ترجمان وزیر خارجہ اور آرمی چیف کے حالیہ بیانات میں کھلے عام  یا بین السطور  دیکھی جاسکتی ہے جبکہ اس تضاد کی زیادہ بگڑی ہوئی یا جارحانہ شکل آپ کو  ملٹری کے زیر کنٹرول یا اس کے قریبی سمجھنے والے سوشل میڈیا گروپس اور حکمران جماعت کے سوشل میڈیا ٹیم یاہم خیال کارکنوں کے اظہارات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ حکومتی حلقوں کے بیانات نسبتا زیادہ حقیقت پسندی پر مبنی جبکہ ملٹری کے زیر کنٹرول بیانیے اولڈ مائینڈ سیٹ یا پرانی ذہنیت کا اظہار اور مخاصمانہ ، مہم جوئیانہ اور جارحانہ ہیں ۔ 

اس پالیسی تضاد کو سمجھنے کیلئے مندرجہ ذیل نکات اہم ہیں ۔ پہلا نکتہ حکومتی بیانات میں اصلاح احوال کیلئے خود تنقیدی اور اندرونی عوامل پر زور دیا جارہا ہے ۔ گھر کو ٹھیک کرنے کی بات ہوتی ہے جبکہ ملٹری بیانیے حالات کی خرابی کے ذمہ دار داخلی عوامل کی بجائے خارجی عوامل کو قرار دے رہے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جب داخلی عوامل پر بات آتی ہے تو انگلیاں فوج اور اس کے ماتحت اداروں کی طرف اٹھتی ہیں ۔ جن کی بنائی گئی غلط اور ناعاقبت اندیش داخلی اور خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے ملک تباہی اور بربادی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے ۔ جبکہ سویلین کا کردار ان پالیسیوں کے بنانے میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔

دوسرا نکتہ سویلین قیادت مکالمے اور مذاکرات کے دروزے کھلے چھوڑنے کے حق میں ہے جبکہ فوجی قیادت سخت موقف اپنانا چاہتی ہے ۔ اس جارحانہ موقف کی وجہ سے امریکی حکام کے کئی دورے اور پاکستانی ہم منصبوں سے ملاقاتیں نہیں ہوسکی ۔ 

تیسرا نکتہ  اندرونی اور بیرونی دباؤ کے پیش نظر سویلین قیادت علاقے میں سرگرم عمل بعض عسکری تنظیموں کو قابو کرنے اور ان کے خلاف کاروائی کے حق میں ہے اور اسے سفارتی تنہائی اور حالات کی خرابی کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ جبکہ فوجی قیادت ان تنظیموں کو ابھی تک قومی مفاد کے حصول کیلئے مفید پالیسی ھتیار سمجھتی ہے اور ان کیلئے یہ عسکری تنظیمیں افغانستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے اور انڈیا کو مسلسل دباؤ میں رکھنے کا اہم اور سستا ذریعہ ہے۔ عسکریت نواز پالیسی کو جواز فراہم کرنے کیلئے گڈ اور بیڈ طالبان کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ 

تقریبا ًتمام علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کی دہشت گردی کے خاتمے اور علاقے میں امن او استحکام کی بحالی کے طریقہ کار پر تو آپس میں اختلاف ہوسکتا ہے مگر تقریباً ان تمام قوتوں کا افغانستان میں بحالی امن پر اتفاق ہے ۔ اور علاقائی امن اور استحکام کیلئے عسکریت پسندی کے خاتمے اور پاکستان پر ڈو مور کیلئے زور دے رہے ہیں ۔ چاہے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس ہو یا برکس افغان حکومت کو افغان عوام کا جائز نمائندہ سمجھتی ہے اور ان کے موقف کی تائید کرتے نظر آتے ہیں ۔ 

 کابل میں عام تاثر یہ ہے کہ بیرونی دباؤ کے تحت پاکستان ہمیشہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی بجائے کاسمیٹک تبدیلیاں کر لیتی ہے جس سے معاملات بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑ جاتے ہیں اور بدگمانیاں کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتی ہے ۔ اب جبکہ چار فریقی رابطہ کاری کے عمل میں روڈ میپ طے ہونے اور فریقین کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے اور کمٹ منٹس کرچکے ہیں تو کام بہت آسان ہوگیا ہے ۔ چار فریقی رابطہ کاری عمل میں پاکستان اور افغانستان کے علاوہ چین اور امریکہ بھی شامل ہے ۔ 

بہت سی وجوہات کی بناء پر پاکستان کے پاس اب بہت کم پالیسی آپشنز موجود ہیں ۔ ہمارے پالیسی سازوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ یہ ضروری نہیں کہ پھرتیاں ہر وقت کامیاب ہوں۔ اب دنیا سیدھی سادی بات کہتی ہے اور ان کے پاس ہمارے وعدوں اور کمٹ منٹس کو پرکھنے کی آسان کسوٹی ہے اور وہ یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کے حوالے سے پاکستان کی پالیسیوں میں تبدیلی سے علاقے میں تشدد میں کمی آتی یا نہیں ۔  سرحد کے پار مصروف کار دہشت گرد پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں یا نہیں ۔ اگر تشدد اور پاکستان کی سرزمین کو سرحد پار کاروائیوں کیلئے استعمال جاری رہتا ہے تو بیرونی دباؤ برقرار رہے گا اور شکوک اور شبہات ختم نہیں ہونگے ۔

♥ 

One Comment