افغانستان میں شیعہ مسلمانوں پر حملے

پاکستان کے بعد اب افغانستان میں بھی شیعہ مساجد اور ان کی امام بارگاہوں میں دیوبندی و وہابی مکتبہ فکر کی جانب سے خود کش حملے شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں سے پورے ملک بالخصوص گلکت بلتستان اور کوئٹہ میں شیعوں کوٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے شہر کابل میں شیعہ مسلک کے مسلمانوں کی مسجد میں گزشتہ ہفتے ہونے والا قتل عام ملک میں شیعہ اقلیت کے غیر محفوظ ہونے کی دلیل اور داعش کی جانب سے فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش ہے۔

اے ایف پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں جہادی گروپ داعش کے شیعہ مسلمانوں پر دن بدن بڑھتے حملوں سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ شدت پسند گروہ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کی لہر پیدا کرنا چاہتا ہے۔

گزشتہ ہفتے کابل میں امام زمان مسجد میں خود کش حملے کے شکار اور عینی شاہدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے حملہ آور کو مسجد میں داخل ہوتے دیکھا لیکن وہاں سیکیورٹی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ حملے سے متاثرہ ان افراد کے مطابق حکومت کی جانب سے شیعہ مساجد کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ شیعہ مساجد میں نمازیوں پر ہونے والے ان خود کش حملوں کے تازہ ترین واقعات میں درجنوں خواتین، مرد اور بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس بھی ایسے بم حملوں میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

امام زمان مسجد میں ہوئے خود کش حملے میں شدید زخمی ہونے والے علی گل نے اے ایف پی کو بتایا،’’ اس دن کسی کی جامہ تلاشی نہیں لی گئی۔ محرم کے مہینے میں چیکنگ سخت تھی لیکن اس کے بعد کوئی سکیورٹی چیکنگ نہیں کی گئی‘‘۔

ابھی تک افغانستان فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات سے بڑی حد تک محفوظ رہا ہے۔ لیکن گزشتہ ایک برس میں شیعہ مسلمانوں پر حملوں میں جس تیزی سے جہادی گروہ داعش کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے، ماہرین کو خدشہ ہے کہ کہیں یہاں بھی فرقہ واریت کا عفریت اپنے قدم نہ جما لے۔

سنی اکثریتی ملک افغانستان میں شیعہ مسلمانوں کی تعداد قریب تین ملین ہے۔ رواں برس اسلامی مہینے محرم کے شروع ہونے سے پہلے افغان حکومت نے چار سو شہریوں کو شیعہ مساجد کی حفاظت کے لیے مسلح کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ حملے روکے نہ جا سکے۔

گزشتہ جمعے کے حملے میں زخمی ہونے والے حاجی رمضان نے اے ایف پی کو بتایا،’’ یہ سو فیصد حکومت کی غلطی ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرنےمیں ناکام رہی ہے‘‘۔

شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے محمد اکبری کا کہنا تھا کہ پہلی اکتوبر کو عاشورہ محرم کے بعد سے شیعہ مساجد کو فراہم کی جانے والی سکیورٹی بہت کم رہ گئی ہے اور کابل کی امام زمان مسجد میں گزشتہ ہفتے ہوئے خود کش حملے کو غفلت سے بیدار ہونے کی گھنٹی سمجھا جانا چاہیے۔

امام زمان مسجد سے ملحق شیعہ علاقے میں کمیونٹی کے ایک بزرگ فرد ابراہیم کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند افغانستان میں شیعہ اور سنی مسلک کے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

♥ 

Comments are closed.