الریاض سے تل ابیب تک

طارق احمدمرزا

مشرق وسطیٰ بشمول اسرائیل میں ان دنوں اس خبر پہ مختلف قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے کہ ستمبر میں مبینہ طور پر اسرائیل کا خفیہ دورہ کرنے والی ایک’ انتہائی اہم‘ عرب شاہی شخصیت کون تھی۔یروشلم پوسٹ کے مطابق ریڈیو اسرائیل کے ایک اہلکار نے ٹویٹ کیا تھاکہ یہ اہم شخصیت سعودی ولی عہد کراؤن پرنس محمد بن سلمان تھے۔اسرائیل نیشنل نیوز نے بھی اسرائیل براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے حوالہ سے خبر دی ہے کہ سعودی رائل فیملی سے تعلق رکھنے والے سعودی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدارنے حال ہی میں اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا اور اسرئیلی حکام سے ملاقات کی اور اہم معاملات پر تبادلہ معلومات کیا اور دوطرفہ مشاورت کی۔اخبار کے مطابق ہر دو ممالک کے وزرأ خار جہ نے اس خبر پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین رسمی سفارتی تعلقات قائم نہیں لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے دورہ میں اس بات کا برملا اظہار کیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ سعودی عرب اسرائیل کے لئے ’’انتہائی مثبت جذبات‘‘ رکھتا ہے۔اس کا ایک عملی ثبوت یہ ہے کہ سعودی عرب کے فرمانروا نے تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکی صدر کے طیارہ ’’ ایرفورس ون ‘‘کو ریاض سے تل ابیب تک براہ راست پرواز کا شاہی پروانہ عطا فرمایا۔ورنہ عموماً یہ ’وی وی آئی پی ‘پرواز براستہ اردن جایا کرتی تھی۔ اسرائیلی حکومت کو امید ہے کہ مستقبل قریب میں سعودی عرب اپنی فضائی حدود اسرائیلی کمرشل پروازوں کے لئے بھی کھول دے گا جس سے اس کی ہوائی کمپنیوں کا بہت سا وقت اور پیسہ بچنا شروع ہو جائے گا۔

ادھریہ خبر بھی گردش میں ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پانچ سو بلین ڈالر کی خطیر لاگت سے جس جدید ترین شہر کے آباد کرنے کا منصوبہ پیش کیا ہے اس کے کئی تعمیراتی ٹھیکے مبینہ طور پر اسرائیلی کمپنیوں نے حاصل کر لئے ہیں،خاص کر سائبر سیکیورٹی اور آئی ٹی ٹیکنالوجی کے شعبہ کے کئی پراجیکٹ ان یہودی کمپنیوں کو دئے گئے ہیں۔سعودی عرب کو اس لئے بھی اس شہر کی تعمیر کے سلسلے میں اسرائیل کو شامل کرناہوگا کہ منصوبہ کے مطابق اس ڈیجیٹل،انڈسٹریل ،ماڈرن ترین شہر کو ایک عظیم الشان پل کے ذریعہ مصر کے ساتھ ملا دیا جائے گا جو بحیرہ احمر کے اس حصہ کے اوپر سے گزرے کا جس پر اسرائیل کی عملداری ہے اور اسرائیل کے تعاون اور رضامندی کے بغیر یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچنا ناممکن ہے۔واضح رہے کہ اس پل کی تعمیر کے سلسلہ میں سعودی شاہ سلمان اور مصرکے سربراہ جنرل (ر) السیسی پہلے ہی ایک معاہدہ پر دستخط کر چکے ہیں۔ایشیا اور افریقہ کو ملانے والے دنیا کے اس پہلے پل سے ریل بھی گزرا کرے گی ۔

پرنس محمد بن سلمان حال ہی میں اسلام کے ’’اصل‘‘بیانیہ کو متعارف کروانے اور اسے بتدریج بحال اور رائج کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔مبصرین کے مطابق اسرائیل کے ساتھ رسمی سفارتی تعلقات کے قیا م کے منصوبہ کا بیج بھی ان کے لبرل جوان اور زرخیزدماغ کی نرسری میں پنپ رہا ہے جس کی نوخیز کونپلیں عنقریب مشرق وسطیٰ میں اپنی نوعیت کی ایک نئی بہار کا پیش خیمہ ثابت ہو نگی،ایک ایسی بہار جو ’’عرب بہار‘‘ نہیں بلکہ’’ عرب اسرائیل بہار‘‘کہلائے گی۔ دونوں ممالک کے درمیان غیررسمی تعلقات تو مبینہ طور پرکئی برسوں سے قائم ہیں۔

خبررساں ادارہ رائٹر کے مطابق 2012 میں پہلی مرتبہ اسرائیلی وزیرخارجہ (موجودہ وزیر دفاع)اویگدرلیبرمین نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے بتا یا تھاکہ ایک مشترکہ دشمن (ایران) کے خوف نے سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور ممکنہ مشترکہ دفاعی حکمت عملی کی تشکیل کی غرض سے قریب تر کردیا ہے۔

الجزیرہ ٹی وی کے مطابق اسرائیلی وزیر برائے کمیونیکیشن نے پرنس محمد بن سلمان کی بطور ولی عہد تقرری پر شاہ سلمان کو مبارکباد کا پیغام دیتے ہوئے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے ولی عہد کوخیرسگالی کے دورہ پر اسرائیل ضروربھجوائیں جبکہ اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ریجنل اور اکنامک اگریمنٹ میز کے نیچے نہیں بلکہ میز کے اوپرطے کئے جائیں۔ 

سنہ1925میں سعودی خاندان کے بانی عبدالعزیز نے مکہ اور مدینہ پر مشتمل ہاشمی سلطنتِ حجاز پر خونریزچڑھائی کرکے قبضہ کر لیا تھا اور ’خادم حرمین شریفین‘‘ قرار پائے تھے۔

Comments are closed.