علمائے دین کی طالب علم بچوں سے جنسی زیادتیاں

پاکستان کے دینی مدارس کے استاد جہاں ناموس رسالت کے نام پر جان قربان کرنے کے نعرے لگاتے ہیں وہیں وہ اپنے طالب علم بچوں کے ساتھی جنسی زیادتی میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔ جسے یہ علمائے دین علت المشائخ کا نام بھی دیتے ہیں۔پاکستان کے مذہبی مدارس میں طالب علم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک معمول ہے بلکہ اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم اس طرح کے زیادہ تر واقعات منظر عام پر نہیں آتے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس کی دو بڑی وجوہات میں ایک تو یہ کہ پاکستان جیسے ملک میں مذہبی مبلغ یا مدرسے کے اساتذہ بہت زیادہ با اثر ہیں اور دوسرا یہ کہ جنسی استحصال یا زیادتی کے معاملے پر بات کرنے کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے نہ تو معاشرے میں ان موضوعات پر زیادہ تر بات کی جاتی ہے اور نہ ہی عوامی سطح پر اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔

عموماً معاشرے میں ان کی حرکتوں پر پردہ ڈالا جاتا ہے اور والدین بھی بے بس ہوتے ہیں کیونکہ کوئی ریاستی ادارہ ان علمائے دین کے خلاف کاروائی کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔

اس کی ایک مثال کوثر پروین کی ہے، جو آج بھی اپنے نو سالہ بیٹے کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے ذکر پر افسردہ ہو جاتی ہیں۔ انہیں ایک مولوی کی جانب سے زیادتی کا نشانہ بننے والے اپنے بیٹے کی خون سے آلودہ پتلون آج بھی یاد ہے۔ یہ بچہ کچھ سال قبل کہروڑ پکا کے ایک مدرسے میں پڑھا کرتا تھا۔ وہ بتاتا ہے کہ کس طرح مولوی نے اس کے قریب لیٹ کر اسے جنسی ہوس کا نشانہ بنایا، ’’مجھے درد ہو رہا تھا، میں خوفزدہ تھا۔ مولوی نے میری قمیض میرے منہ میں ٹھونس دی تھی۔‘‘ اس موقع پر جب اس سے پوچھا کہ کیا مولوی نے اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا؟ اس لڑکے نے اسکارف کے پیچھے اپنا چہرہ چھپانے کے بعد ہاں میں جواب دیا۔ اس کے بعد ماں نے روتے ہوئے اپنے بیٹے کو آغوش میں لے لیا۔

اے پی کی اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جنسی زیادتی کا شکار بننے والوں کو اکثر کسی قسم کا تحفظ بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔ متاثرہ افراد کے اہل خانہ نے بتایا کہ اکثر واقعات میں پولیس کو بھی رشوت دی جاتی ہے تاکہ وہ جرم کے مبینہ مرتکب مذہبی استاد کے خلاف کارروائی نہ کرے۔

مذہبی امور کے وزیر سردار محمد یوسف نے جنسی استحصال کے رجحان میں اضافے سے متعلق خبروں کو من گھڑت قرار دیا۔ ان کے بقول اس طرح کی بات چیت مذہب، مدرسوں اور مولویوں کو بدنام کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول ہر شعبے میں کالی بھیڑیں ہیں اور اس طرح کے واقعات کبھی کبھار رونما ہوتے ہوں گے۔ سردار محمد یوسف کے مطابق مدرسوں کی نگرانی اور ان میں اصلاحات لانا وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے۔

یہ تحقیقاتی رپورٹ پولیس کی دستاویزات، متاثرین سے بات چیت ، موجودہ اور سابقہ وزراء اور امدادی تنظیموں سے رابطوں کے بعد تیار کی گئی ہے۔ ایک اعلی عہدیدار نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ مدرسوں میں اس طرح کے واقعات ایک عام سی بات ہیں۔ ان واقعات کو منظر عام پر لانے والے کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔

اے پی نے اپنی اس رپورٹ میں گزشتہ دس برسوں کے دوران مولویوں کے خلاف درج کیے جانے والے ایسے سو مقدمات کا حوالہ دیا ہے تاہم ماہرین کو یقین ہے کہ جنسی استحصال کے اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں بائیس ہزار کے قریب اندراج شدہ مدرسے ہیں جبکہ کئی سو ایسے ہیں، جو اس دستاویز میں موجود ہی نہیں ہیں۔اندازہ ہے کہ ان میں دو ملین سے زائد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

DW/News Desk

7 Comments